’’دربار شریف ‘‘ کے انمول رتن

دربار سج گیا تھا۔ وزیروں ، مشیروں اور درباریوں کی بے تابی اور بے قراری عروج پر تھی۔ نگاہیں ڈھونڈ رہی تھیں بادشاہ سلامت کو۔ انتظار طویل ہورہا تھا۔ پہلو بدل بدل کر ذہنوں میں اْن جملوں کی ترتیب کو درست کیا جارہا تھا جن کی ادائیگی کے لیے لب سوکھ سے گئے تھے ۔ کب، کون سا جملہ ، کیسے ظل الہی کی شان میں کہنا ہے۔ اسی کی مشق ذہنوں میں جاری تھی ۔ کچھ خوشامدیوں نے حضور کی شان میں اشعار بھی ذہن نشین کرلیے تھے جو موقع محل پر ادا کیے جاتے۔ ’ دربار شریف ‘ میں ’ مہا بالی ‘ لمبے عرصے بعد ظہور ہونے والے تھے۔

بیماری نے ایسا آگھیرا تھا کہ کئی ہفتوں تک اْن چہروں کا دیدار نہیں ہوا تھا جو ان کے اشاروں پر مسکراتے اور دکھی ہوجاتے ،جن کی آنکھیں بھی اس وقت نم ہوتیں جب بادشاہ کی ہوتیں۔ جہاں درباریوں کو اور وزیروں کا برا حال تھا وہیں بادشاہ سلامت بھی بے چینی سے انہی کے درمیان آنے کے لیے ’ لوٹن کبوتر ‘ کی طرح اڑ کر دربار آنا چاہتے تھے ۔ اور پھر وہ لمحات بھی آہی گئے جب بادشاہ سلامت ، دختر اول کے ساتھ ان سب کے بیچ تھے۔ لب کشائی کے لیے درباری بے قرار تھے۔ مگر بھلا کیسے ممکن تھا کہ ظل الہی سے پہلے ہونٹوں کو جنبش دیتے۔ ۔ انتظار تھا سب کو کہ کب بادشاہ گفتگو کا آغاز کریں۔ کب انہیں موقع ملے دل میں چھپے خوشامد کے تیروں کو چلانے کا۔اور پھر یہ مرحلہ بھی آیا۔

بادشاہ سلامت گویا ہوئے :’’ آپ لوگوں کی مزاج پرسی کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ آپ کے دل میں میرے لیے جو محبت اور جو پیار ہے وہ واقعی انمول ہے۔‘‘۔۔ حوصلہ ملا درباریوں اور وزیروں کو۔ جبھی ان میں سے ایک بولا :’’ حضور آپ کی بیماری کی خبر نے تو ہمارے دلوں پر بجلیاں گرا دی تھیں۔ آپ کی درازی عمر کے لیے مسلے پر بیٹھا رہا۔‘‘ ا س سے پہلے وہ کچھ اور فرماتا دوسرے نے اس کا جملہ اچک لیا۔ نہایت ہی پھرتی سے بولا : ’’ حضور کیا کہیں آپ کا۔۔ کیا سوچ کیا افکار اور کیا خیال ہیں آپ کے ، دور اندیشی تو جیسے آپ کی صفت ہے۔۔۔۔ ‘‘ وہ کیسے ذرا ہمیں بھی تو پتا لگے۔۔۔۔‘‘ بادشاہ نے اشتیاق بھرے لہجے میں دریافت کیا تو متعلقہ وزیر گڑبڑایا۔۔ سمجھ نہیں آیا کیا جواب دے۔۔۔ ایسے میں اسی کا رشتے دار مشیر خاص مدد کو لپکا۔۔۔ بولنا شروع کیا : ’’ اس کی وضاحت میں کرتا ہوں۔۔۔ یہاں شور مچا کہ آپ ملکی اسپتال میں کیوں نہیں کرارہے علاج۔۔۔ حضور ہم جانتے ہیں کہ آپ نے یہ قدم اس لیے نہیں اٹھایا۔۔ کہ جس اسپتال میں ہوں گے وہاں تو نیچے سے لے کر اوپر تک ہر ڈاکٹر بس آپ پر ہی توجہ دے گا۔۔۔ دوسرے عام مریضوں سے دھیان ہٹ جائے گا۔۔۔ انہیں بروقت اور بہتر علاج نہیں ملے گا۔۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ ایک عام شہری بن کر بیرون ملک گئے علاج کرایا۔ کسی پر بوجھ نہ بنے اور آ بھی گئے ۔ واہ حضور۔ ایسے کام تو قلندر کیا کرتے ہیں۔ ‘‘بادشاہ سلامت شان بے نیازی سے مسکرائے۔ رخسار، کشمیری سیب کی طرح اور سرخ سے سرخ ہوگئے۔ ایک بولا :’’ عوام کا کب تک سوچیں گے حضور۔۔ انہی کی فکر میں دل کا روگ لگا لیا ۔۔۔ ‘‘

’ دربار شریف ‘ کے راجا مسکراتے رہے۔۔۔۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کبھی بیمار بھی ہوئے تھے۔۔ دختر اول نے بھی اس موقع پر لقمہ دیا :’’ میں تو بادشاہ سلامت سے کہتی ہوں کہ اب امور حکومت دے دیں کسی اور کو، آرام کریں ۔۔ کوئی اپنا جیسا ذہین اور زیرک تلاش کریں۔ ‘‘ بادشاہ نے پدرانہ شفقت سے دختر اول کی طرف دیکھا جیسے ان کی’’ دور اندیشی ‘‘ نے کچھ ’خاموش اشارہ ‘ دے دیا ہو۔ دختر اول کے قریب بیٹھے وزیر نے بھی بازی لگائی :’’ یہ مثالی تربیت کہاں ملے گی حضور کہ دختر اول آپ کو والد کے بجائے ’بادشاہ‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ واہ واہ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ ‘‘ دربار انہی نعروں سے گونج رہا تھا ۔۔

ایسے میں نئے نئے مشیر بننے والے نوجوان سے رہا نہ گیا۔تما م تر توانائی جمع کرکے بولا :’’ حضور مہنگائی ہے۔ پریشانی ہے۔ مالی خسارہ ہے بیرونی جارحیت ہے۔ عوام سڑکوں پر ہیں اور۔۔۔۔‘‘ بادشاہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمودار ہوگئے۔۔۔ دل کی طرف ہاتھ گیا اور سہلانا شروع کردیا۔ برسوں سے امور حکومت میں رہنے والے بزرگ درباری نے بھانپتے ہوئے معاملہ اور کہنا شروع کیا :’’ ارے جناب۔۔۔ ابھی تو بادشاہ سلامت آئے ہیں آپ چاہتے ہیں کہ عوامی پریشانیاں سن سن کر ان کے دل کی تکلیف اور بڑھ جائے۔۔۔ رہنے دیں۔۔ حضور۔۔عوام کا کیا وہ تو کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتے۔ کریں گے اس پر بھی کسی اور دن بات۔ فی الحال تو حضور کی صحت یابی پر ہمارے دل باغ باغ ہوگئے ہیں۔۔‘‘ بالکل بالکل کی صدائیں گونج رہی تھیں محل میں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دور کہیں گھپ اندھیروں کے سائے میں ٹوٹے پھوٹے گھر میں کسی نے بجلی نہ ہونے پر لالٹین تھامتے ہوئے قدم رکھتے ہی خوشخبری سنائی : ماں سنو۔۔۔ بادشاہ سلامت صحت یاب ہو کر وطن واپس لوٹ آئے ہیں،،،، پاس بیٹھی بوڑھی عورت نے لمبی سی سرد آہ بھری اور بولی : ’’ ارے بیٹا۔۔۔ ہمارا تمہارا تو بس خدا بادشاہ ہے۔۔۔‘‘ *

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے