ذرا مختلف قسم کے لوگ اور نابالغ معاشرہ

ہمارا معاشرہ درحقیقت ایک نابالغ معاشرہ ہے۔ اسے طرح طرح کے خدشات لاحق ہیں۔ معاشرے شروع میں ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن اس معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ایسا رہنے پر اصرار بھی ہے۔ اسی وجہ سے یہ معاشرہ صرف نارمل بلکہ ایکسٹرا نارمل لوگوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ کوئی ذرا سا بھی مختلف ہو، جسمانی طور پر مختلف ہو یا ذہنی طور پر، یہ معاشرہ اس کو رد کر دیتا ہے۔

کوئی ذرا مختلف سوچ لے، تو اس کو پاگل کہہ کر اس کا جینا محال کر دیا جاتا ہے ، کوئی کسی جسمانی نقص کے ساتھ پیدا ہوا ہو، تو فورا اجتماعی دھارے سے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ، ایسے لوگوں کو اجتماعی دھارے میں آنے کے لیے غیر معمولی ذہانت اور غیر معمولی ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ، تب کہیں جا کر یہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ معذوروں کے پروگراموں میں غیر معمولی افراد کو بلایا جاتا ہے جو بتاتے ہیں کہ معاشرے کی طرف سے کھڑی گئی کتنی مشکلات کے باوجود وہ اپنی غیر معمولی ذہانت اور حوصلے سے کامیاب ہوئے۔ ہم ان پر فخر کرتے ہیں، لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ قدرت کی طرف سے پہلے ہی وہ ایک آزمایش میں مبتلا کیے گئے ہیں، ان کے راستے زیادہ آسان کرنے کی بجائے زیادہ مشکل کیوں بنا دئیے جاتے ہیں۔ آپ ذرا غور کریں، اگر کوئی معذور جب تک وہ غیر معمولی صلاحیتوں کا ٰحامل نہیں ہوگا، معاشرہ اس کو جگہ نہیں دے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک اوسط درجہ صلاحیتیں رکھنے والا معذور کیا کرے؟ ایک اوسط درجہ ہمت و حوصلہ رکھنے معذور کیا کرے؟

میں یونیورسٹی میں تھا کہ میرا پاؤں ایک ایکسیڈنٹ میں ٹوٹ گیا۔ وہیل چیئر پر یونیورسٹی گیا تو احساس ہوا کہ یونیورسٹی میں وہیل چیئر کا کوئی ٹریک ہی نہیں ہے۔ یہی حال ہر جگہ ہے۔ بس سے لے کر کسی بھی دفتر تک، معذر افراد کے لیے کوئی سہولت نہیں سوائے چند ہسپتال یا نہایت قلیل تعداد میں جدید عمارتوں میں۔ حتی کہ بحریہ ٹاؤن کی مساجد جو ڈیزائن، سہولیات اور خوبصورتی کے لحاظ سے سب سے عمدہ مساجد ہیں لیکن وہیل چیئر کا ٹریک مجھے وہاں بھی نظر نہیں آیا۔

دوسری طرف ہمارا تعلیمی نظام ہے جو مسابقت کی دوڑ میں ہار جانے کے خدشے میں مبتلا ہے، اسی لیے زیادہ سے زیادہ اچھے نمبر اور گریڈز کے حصول کے جنون میں بگٹٹ دوڑا چلا جا رہا ہے۔ وہاں ذہنی اور جسمانی طور پر مختلف بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ معمولی سے مختلف بچے بھی ایب نارمل بچوں کے سکولوں میں ڈالنے کا کہا جاتا ہے۔ اور اگر داخلہ دے بھی دیا جائے تو ہر وقت اس مختلف بچے کو اس کے مختلف ہونے کا احساس دلا دلا کر ذہنی معذور بھی بنا دیا جاتا ہے۔

مختلف سوچنے والوں کو ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، آپ اپنی ذرا سی مختلف سوچ سامنے رکھیئے، نامعلوم خدشات، سازشی تھیوریز پر ایمان بالغیب فوراً ان کو ایک ضدی انکار پر مجبور کردے گا۔ ناصرف یہ کہ نئی فکرکو قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ لوگ درپے ہو جائیں گے کہ اس کو ترک بھی کرو، پھر اگر آپ ڈٹ جائین تو گالی یا گولی کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن نہیں اس معاشرے کے پاس۔ کتنے نابغے تھے جن کو اس ملک سے محض اس لیے جانا پڑا کہ وہ مختلف سوچ سکتے تھے۔ کتنے ایسے اعلی دماغ تھے جن کو سوچنے سے روکنے کے لیے گولی مار دی گئی۔اور تو اور محض مذھب اور مسلک یا مکتبہ فکر مختلف ہونے کی وجہ سے کتنے محبان وطن تھے جن کو جلا وطن ہونا پڑا۔ محض اپنے جیسے لوگوں سے معاشرے کو بھرنا کیا ممکن ہے؟

خواجہ سراؤں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ان کے پیدا ہوتے ہی خاندان خود تشنج کا شکار ہو جاتا ہے کہ ان کا کیا کرے۔ اسے خدا کی طرف سے اس کی ناراضی کا اظہار سمجھا جاتا ہے، دوسرے بچوں سے اس کو دور رکھا جاتا ہے، آنے جانے والوں سے، محلے والوں سے ،ہر جگہ ایسے بچوں کی عزت کو خطرہ ہی لاحق رہتا ہے۔ اور اگر ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہو ہی جائے، جو کہ اکثر ہو ہی جاتی ہے، تو معاشرہ ان کو باور کرا دیتا ہے کہ یہی تمہارا مستقبل کا پیشہ ہے جتنا جلد اختیار کر لو، اتنا اچھا ہے۔

مجھے ایک خواجہ سرا سے بات کرنے کا اتفاق ہوا، اس نے بتایا کہ اس نے کوشش کی تھی عام لوگوں کی طرح محنت مزدوری کر لے، کوئی بھی کام کر لیے جو عام لوگ کرتے ہیں، لیکن ہر جگہ لوگ اسے چھیڑتے، جنسی طور پر ہراساں کرتے، فقرے کستے، جنسی عمل کی پیشکش کرتے رہتے، ان لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ ایک خواجہ سرا ‘اس کام’ کے علاوہ بھلا اور کوئی کام کیسے کر سکتا ے۔ اور اگر کوئی بھلے مانس ہمت کرکے کسی خواجہ سراکو کام دے بھی دے تو خود اس بھلے مانس کے کردار پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اکثر خاندان والے تو ایسے بچوں کو عاق ہی کر دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ اور ان کو منع بھی کر دیتے ہیں کہ اپنے خاندان کا نام مت لینا۔

البتہ، ایک اچھی مثال میرے اپنے محلے کی ہے جس کی جامع مسجد میں ایک اچھے گھرانے کا خواجہ سرا پانچ وقت نماز پڑھنے آتا ہے۔ ایک معتبر شعبے سے وابستہ بھی ہے ۔تاہم وہ قیمتی کپڑے اور مہنگا موبائل خصوصا ساتھ رکھتا ہے تاکہ عام لوگ اس کو حقیر نہ سمجھیں، مزاح ٹھٹھا کرنے کی جرات نہ کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک غریب گھرانے کا عام سے خواجہ سرا مسجد یا کسی اور اجتماعی مقام پر عام شخص کی طرح شرکت کرنا چاہے تو کیا معاشرہ قبول کرے گا؟کسی نے سچ کہا تھا کہ لوگ خواجہ سرا پر نہیں خدا پر ہنستے ہیں جس نے ان کو ایسا تخلیق کیا۔ ایک جسمانی کمی اور مختلف جسمانی خصوصیت ہی کا تو مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے اس دوسری تمام صلاحیتوں کو نظر انداز کردینا اور اس کے لیے ناچنے، گانے بھیک مانگنے اور جنسی مزدوری جیسے کام مخصوص کر دینا اور پھر انہیں وجوہات سے اس سے نفرت بھی کرنا ایک ذہنی طور پر ایب نارمل معاشرے کی علامت ہے۔

تنوع قدرت کا اٹل اصول ہے۔ کب تک ہم تنوع سے ڈرتے رہیں گے۔ ہم اس تنوع لطف کیوں نہیں لیتے، اس کو اپنے ارتقا اور ترقی کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے۔ معمول، روٹین اور لگے بندھے اصول ہی سب کچھ نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو سوچ کے سوتے خشک کر دیتے ہیں۔ قدرت خود بھی اپنی روٹین سے ہٹ جاتی ہے: کبھی موسم غیر متوقع ہو جاتے ہیں، کبھی زلزلے آ جاتے ہیں، کبھی کوئی نئی بیماری ایجاد ہو جاتی ہے، کبھی حادثاتی طور پر علاج دریافت ہو جاتا ہے، یہ سب نئے انکشافات کا سبب بنتے ہیں، تو ہم کیوں معمول اور روٹین سے ہٹ کر دیکھنے، سوچنےاور برتنے سے ڈرتے ہیں؟ ہم اتنا کیوں ڈرتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے