سانحہ ماڈل ٹاون : جو میں نے دیکھا

“Politics is game of thrones; the faith and the crown are the two pillars that hold up this world. One collapses, so does the other.”
یہ ایک حقیقت ہےجس کوتسلیم کرنا ہو گا،اگر آپ کو کسی بھی ملک میں حکومت کرنی ہے تو وہاں سے یا تو مذہبی رجحان ر کھنے والوں کا خاتمہ کردیں جیسے بہت سے ممالک ہیں اور اس کی جگہ سیکولرازم کو متبادل کے طور پر لے آئیں، اور اگریہ ممکن نہیں تو مذہبی رہنماؤں کا آپ کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ورنہ ٹکراؤ کی صورت میں سا نحہ ماڈ ل ٹاؤن جنم لے گا جس کے نتیجہ میں خون توعوامی تحریک کے کارکنوں کا ہو گا مگر یہ سب باعث پریشانی بنے گی حکومت کیلئے ۔

یہ اتنی مشکل بات نہیں جو کہ موجودہ حکومت کی سمجھ میں نہ آئے ،،،، میاں صاحب کے مرشد آصف علی زرداری اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے لہذا نہوں نے بہت عمدہ طریقہ سے انقلاب کا رخ پارلیمنٹ سےعدالت اور پھرڈاکٹر صاحب کو ان کے گھرماڈل ٹاؤن پہنچایااور پھران کی کینیڈا یاترہ کا بندوبست بھی بغیر کسی رکاوٹ کے کیا۔ تاہم اس انقلاب کے آگے مسلم لیگ ن کی حکومت شکست خوردہ نظر آتی ہے وزیراعظم کے استعفیٰ کا حصول تو ممکن نہیں ہو سکا اور نہ ہی ہوگا۔تاہم جو نفرت اس بڑی جماعت کے لئے ایک مخصوص طبقہ کے دل میں پیدا ہوئی ہے وہ کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہیں۔

مذہبی رجحان رکھنے والوں پر جب بھی گولی چلائی تو اس کا نتیجہ کیا نکلا ،پڑوسی ملک بھارت میں سانحہ گولڈن ٹیمپل کو ہی دیکھ لیں۔۔ اب ممکن نہیں ہے کہ شہباز شریف موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گوال منڈی کا چکر لگائیں یا بڑے میاں صاحب ٹیکسالی گیٹ جا کر پھجے کے بونگ پائے نوش فرما سکیں اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔

اب کانٹوں کی اس جنگ میں جیت کس کی ہو گی؟ بدقسمتی سے سترہ جون دو ہزار کا سانحہ میری آنکھوں کے سامنے ہوا ۔ پہلے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کل لقمہ اجل بننے والے افراد کی تعداد ٹھیک کر لیں، سترہ جون اور اس کے بعد جاری کشیدگی میں کل پچیس لوگ جان کی بازی ہار گئے جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد تو خیران گنت ہے،جنہوں نے آنسو گیس شیلنگ پتھراؤ اور ہوائی فائرنگ کا سامنا کیا اس میں ہم بھی شامل ہیں۔ ہاں یہ
البتہ مہربانی ہے کہ پنجاب پولیس نے صحافت کے احترام میں ہم پر ڈائریکٹ گولی نہی چلائی۔

سترہ جون کے واقعہ کو مختصر بیان کیا جائے تو یہ عدم برداشت اور مکرہ سیاست ہے،آخر وجہ کیا تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر باہر موجود رکاٹیں ہٹانے کے نام پر بندوق کا سہارا لینا پڑا۔ قابل افسوس بات یہ کہ پولیس ںے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی گولی کا نشانہ بننے والا کوئی مرد ہے یاعورت؟ اس دن وہاں سننے کے لئے چینخیں،آہیں،سسکیاں تھیں اوردیکھنے کے لئے خون میں لت پت کارکن۔ سونگھنے کے لئے زہریلی آنسو گیس اوراس کے ساتھ سوگوارفضااور یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ آخر اس قتل و غارت کا پنجاب حکومت کو فائدہ کیا تھا۔

وجہ کیا تھی کہ پنجاب پولیس کو ایک دم خیال آیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر موجود رکاوٹوں کا ہٹا دیا جائے؟ اس کے پیچھے عوامی تحریک کا انقلاب تھا جس کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی سرپرستی میں منصوبہ بندی مکمل ہو چکی تھی،کیسے کارکن اس حکومت کے خلاف گھروں سے باہرنکلیں گے، انکے درمیان رابطہ کا ذریعہ کیا ہوگااورکیسے وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔ حکومت کو بھی خبر تھی کہ اب ہونے کیا والا ہے لہذا میری رائے کے مطابق ان حالات میں انتظامیہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر رکاوٹوں کو ہٹا کر یہ سبق دینا چاہتی تھی کہ وہ اپنے گھر میں کچھ نہیں کر سکتے تو اسلام آباد پہنچ کر کیا کریں گے؟

اس صورتحال کو ڈاکٹر طاہر القادری بھی بخوبی سمجھتے تھے لہزا انہوں نے بیرون ملک سے اپنے کارکنوں کو ڈٹے رہنے کی ہدایت کی اور اس کے نتیجہ میں وہ ہوا جو کہ پوری دنیا کے سامنے ہے عوامی تحریک کوکارکنوں کا خون مل گیا جوکہ شاید انقلاب کے پودے کو پروان چڑھانے کے لئے بہت ضروری تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اس دن یہ بازی ہار گئی تھی جس وقت پہلے کارکن کی لاش پولیس کی جانب سے چلنے والی گولی کے نتیجہ میں زمین پرگری تھی۔ یہ انقلاب کے نعرے تو پیپلز پارٹی کے دور میں بھی لگے تھے مگر آصف زرداری نے اس وقت ثابت کیا کہ ان کی سیاسی بصیرت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔

تاہم اگر عوامی تحریک اتنی مظلوم ہے اور اس کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے مگر دو سال مکمل ہونے کے باوجود اس واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایاجاسکا۔اس کی وجہ جہاں مسلم لیگ ن کا حکومت میں ہونا ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کے اپنے ذاتی مفاد ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے کےاور،دکھانے کے اور۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے پہلے اور بعد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان کئی خفیہ ملاقاتیں ہوئیں، معاملات طے ہوئے۔ تاہم عمران خان کے ساتھیوں نے بعد میں انہیں علامہ صاحب کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے سے روک دیا اس کی وجہ وہ ڈر تھا کہ تقریراورالفاظ پرمہارت رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ عمران خان ایک سٹیج پر کھڑے ہوئے تو علامہ صاحب انہیں الفاظ میں لپیٹ کر ہضم کر جائیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ اسلام آباد میں بھی دونوں رہنماؤں نے الگ الگ دکان لگائی معذرت کیساتھ اسٹیج لگایا۔ سڑک کے ایک طرف تم دوسری طرف ہم،مجھے یہ نہیں معلوم کہ الگ دکان سے زیادہ نفع حاصل کس کو ہوا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ان کی آپسی دوریوں کا فائدہ مسلم لیگ کی حکومت نے اٹھایا اور ڈاکٹر طاہر القادری نے حالات سے مایوس ہو کر اسلام آباد میں جاری دھرنہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ تجزیہ نہیں اگر آپ کی کبھی عوامی تحریک کے کسی سینئر رہنماء سےملنے کا اتفاق ہو تو ایک بار ان سے پوچیھیں کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ تحریک انصاف کی پالیسیوں نے حکومت کے خلاف جاری دھرنے کو فائدہ دیا یا نقصان؟؟

عوامی تحریک اب تک مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروانے میں کامیاب ہوئی ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر طاہرالقادری واضع کہہ چکے ہیں کہ اس ایف آئی آر کے اندراج میں آرمی چیف راحیل شریف کا اہم کردار ہے،مگر کیا موجودہ حالات میں فوج کیا ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دے گی؟ ایسے وقت میں جب مشرقی بارڈر کیساتھ مغربی سرحد پر سخت کشیدگی ہےاورہمارےملک کے وزیراعظم عارضہ قلب میں مبتلاء ہو کر علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ یہ تمام تر حالات اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ ابھی اس حکومت کا کچھ نہیں ہونے والا کوئی مسلم لیگ ن کو سیاسی شہید بنانےمیں اپنا کردارادا نہیں کرے گا۔ مال روڈ پر سترہ جون کو صرف طاقت کا مظاہرہ ہے مگردوہزار اٹھارہ تک انقلاب کے دور دور تک کوئی آثار نہیں، یہ تو تیسراسیزن ہے۔ پہلا ماڈل ٹاؤن، دوسرا اسلام آباد اور اب مال روڈ اورابھی قادری بمقابلہ نواز کی کئی اقساط آنا باقی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے