غامدی صاحب۔ ایک تاثر

بات یہ ھے کہ غامدی صاحب کی شخصی خوبیاں اور علم و اخلاق فی زمانہ اسقدر نایاب ھے کہ اسکے لئیے انہیں سو خون بھی معاف کئے جاسکتے ھیں اور ھر قیمت پہ انکی تحسین کی جانی چاھئیے سوائے ایمان اور حمیت کی قیمت کے۔

میرا تاثر ھے کہ انکے ھاں اس علمیت کے ساتھ ایک خاص طرح کا تحکم اور ادعائیت بھی در آئی ھے جو اعلٰی اخلاق کے منہہ زور گھوڑے پہ سوار حمیت اور جذبہ کو روندتی ھوئی بس آگے ھی بڑھتی جاتی ھے۔

صدیق اکبر کا "احسان” ھو یا فاروق اعظم کی "غیرت ایمانی”، انکے ھاں کم کم ظھور کرتی ھے۔

اس تناظر میں گاھے انکا خوبصورت علمی رویہ اور اخلاق کاغذ کے پھول محسوس ھونے لگتے ھیں جنکا مقصد محض آرائش ھوتا ھے۔

تصوف کے حوالے سے بھی انکی رائے "متوازی دین” ھی ھے۔ اپنے مزاج اور طرزعمل میں اس مکتب کے اکثر احباب مجھے صوفی لگتے ھیں، جیسا کہ برادر خورشید ندیم کو بھی میں مزاجاً صوفی ھی کہا کرتا ھوں۔ شاید غامدی صاحب کے باعمل صوفی والد کا فیض ھے جسکی رو داخلی طور پہ کارفرما رھتی ھے۔

عملی سیاست سے محترز رھنے اور اسکی مذھبی بنیاد کا انکار کرنے کے باوجود خود اکثر دنیا میں موجود سیاسی تقسیم اور ایجنڈے کے حوالے سے "استعمال” ھوتے نظر آنے لگتے ھیں۔ اس تاثر کا تذکرہ انکے تلامذہ سے کیا جائے تو یک درجہ درشتی کے ساتھ تردید کرتے ھیں۔

انکی نیت کے بارے میں اپنے تمام تر حسن ظن کے باوجود بعض اوقات اس چیز کی کمی نظر آتی ھے جسے مومنانہ بصیرت یا حکمت کہتے ھیں۔ مجرد علم یا صداقت کا ھر وقت، ھر جگہہ اور ھر انداز میں "اظہار” پہ تلے رھنا کیا آج کی پیچیدہ دنیا میں کسی فہیم و دانش مند شخص کو زیبا ھے؟

یوں لگتا ھے کہ وہ کسی بھی معاملہ پہ اپنے موقف کی علمی بنیاد اور یکسوئی کو اک تازیانہ بنا کر عام مسلمان کے جذبات کو نشانہ بناتے ھیں اور اس عمل کو "علمی” جواز دے کر دلیل کے ھاتھوں اپنے سامعین کو زچ کرتے ھیں۔

انکا یہ طرزعمل دیکھ کر گاھے ملال ھونے لگتا ھے کہ مسلم تہذیب و علمیت کا ایسا اجلا کردار تاریخ کے اس موڑ پہ کس طرح امت سے کٹتے ھوئے اپنا کردار متعین کرتا جارھا ھے۔

تبدیلی کے لئے دل میں جگہ بنانا، ذھن کو اپیل کرنے سے کہیں ضروری ھوتا ھے۔ یہی وہ مقام ھے جہاں پہ علمی تکبر اور انسان دوستی کا دوراھا سامنے آتا ھے اور انسان کا عملی فیصلہ ھمیشہ کے لئے اس کے کردار کا تعین کردیتا ھے۔

مسلم صوفیا کو انسانی نفسیات کا پارکھ اور نباض ھونے کی بنا پر ھی ھر دور میں عدیم النظیر کامیابی ملتی رھی ھے۔ تاریخ کے صفحات اور سینئہ گیتی پہ اسکا نقش انمٹ ھے۔ کیا "علم” کو اس سے سیکھنے کی ضرورت نھیں؟ کیا ضروری ھے کہ دلیل اور علمیت اپنوں کا دل زخمی کرنے کو ھی استعمال ھو؟

آخری تجزیہ میں یہ دلیل نھیں ھوتی جو دل کو فتح کرکے آپکو فاتح زمانہ بناتی ھے۔ کلام اقبال کی کامیاب پیروڈی کرنے والے شاعر غامدی صاحب کیونکر اس حقیقت سے بےخبر ھوں گے۔

غامدی صاحب کے لئے اپنے دل میں موجود انسیت اور انکی کمیاب خوبیوں والی خوبصورت شخصیت کے لئے دردمندی سے یہ تاثر قلم بند کیا ھے کہ خوش گمانی کی بنیاد ھنوز بہت وسیع ھے۔

قبلہ گاھی! بار دگر عرض کرتا ھوں، ذھن بدلنے کی راہ دل سے ھی نکلتی ھے اور آپ اس کو ھی روند کے آگے بڑھنا چاھتے ھیں۔ مت کیجئے ایسا کہ اس میں آپ بھی بستے ھیں، خدا تو مکین ھے ھی یہاں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے