ڈار ، دال اور چکن

پاکستانی قوم بھی عجیب ہے کوئی مشورہ دے تو مذا ق اڑانے لگتی ہے ۔ ’ مفتے کے مشوروں‘ پر عمل کرنے کے عادی ہی نہیں۔ ہر چیز میں خرچا نہ کرلیں کلیجے کو سکون ہی نہیں ملتا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سیدھی سی بات بولی ہے کہ دالیں مہنگی ہیں تو چکن تکے اڑائیں۔ بوٹیوں پر ہاتھ صاف کریں۔ چکن بریانی کھائیں۔ چکن قورمہ کھا کر انگلیاں چاٹیں ، چکن کڑاہی توڑیں۔ مرغی کی سڈول رانوں کو نوچیں۔ مرغ مسلم کی دعوتیں کریں ۔ اور یہ ’ لالچی قوم ‘ اڑی بیٹھی ہے کہ بس کھانی ہے تو دال ۔۔ لو بتاؤ ٹی وی رپورٹرز کے سامنے لہک لہک کر بس ’ کلاس ‘ لے رہے ہیں معصوم سے خزانے کے وزیر کی ۔۔یہ تو کوئی بات نہیں۔ ایک تو ڈار صاحب آپ کا ’ لیونگ اسٹینڈر ‘ ہائی کرنے کی فکر میں ہیں۔

لیکن آپ ہیں کہ قیدیوں کی طرح دال ‘ کھانے کی ضد پکڑے بیٹھے ہیں۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں ہوا ۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ حکومت اپنے ’ کھانے ‘ سے زیادہ عوام کی ’ ہنڈیا‘ کا سوچ سوچ کر کتنی ہلکان ہوئی ہے ۔ لیکن پاکستانی ہیں کہ وہی ’ گھسا پٹا ریکارڈ‘ بجا رہے ہیں کہ نہیں جی ہم تو ’ دال ‘ ہی کھائیں گے ۔ یہ سراسر زیادتی ہے ۔

عوام کو اس قدر ’ خود سر‘ نہیں ہونا چاہیے ۔حکومت میں ’ کیڑے ‘ نہیں نکالنے چاہیے ۔ ایک تو ’ نفانفسی ‘ کے اس زمانے میں کوئی مشورہ نہیں دیتا ۔۔ اور ڈار صاحب نے دیا تو اسے ماننے کو تیار نہیں ۔ اب اگر خزانے کی کنجی سنبھالنے والے وزیر یہ کہہ دیتے کہ چکن مہنگی ہے تو دال کھائیں ۔ تو دیکھیں یہ قوم کس طرح انہیں آڑے ہاتھوں لیتی ۔ کہا جاتا ہے کہ کیا ہماری شکلیں دالیں کھانے والی لگتی ہے ۔ ساری زندگی دال کھائیں اور اب بھی یہی کھائیں۔ کسی کو تو خواجہ آصف کی یاد آجاتی اور منہ بنا بنا کر ٹی وی پر آتے اور کہتے ’ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔‘‘ کتنی نادان ہے یہ قوم ۔ صبر وشکر نہیں کرتی کہ اس مہنگائی کے دور میں چکن اتنی سستی ہے کہ اس کی گونج ایوانوں میں سنی جارہی ہے ۔ ڈار صاحب کے مشورے پر بے چاری گائیں اور بکرے ’ احساس کمتری ‘ کا شکار ہوگئے ہیں۔جل بھن گئے ہیں مرغیوں سے ۔ قسمت اور مہنگائی کو کوس رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کا تذکرہ وزیر موصوف کی زبان پر نہیں آیا ۔ اب بے چارے لٹکے لٹکے حسرت سے دیکھتے رہیں گے دھڑا دھڑ بکتی مرغیوں کو ۔ ہنگامہ برپا ہے کہ نہیں جی دال سستی کرو۔یہ بھی سوچ نہیں رہے کہ مرغیاں کھانے سے قسمت بھی بدل سکتی ہے ۔

غلطی سے کوئی مرغی ’ سونے کا انڈا ‘ دینے والی مل گئی تو سوچیں تو صحیح کیا نہیں ہوسکتا۔ روز انڈا دے گی ۔ تو دال بھی نہیں رہے گی پہنچ سے دور ۔ ہماری حکومت ایک تیر سے دو شکار کرنے کا مشورہ دے رہی ہے ’ جیک پاٹ ‘ لگوانا چاہتی ہے ۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں رینگیں ۔ اور یہ ’ دوغلی اپوزیشن ‘ کو تو دیکھو ۔ دال دال کا ایسا الاپ راگ رہے ہیں جیسے روز گھر میں بس یہی کھاتے ہوں ۔ ایک دن دال نہ ملتی ہو تو بیگم کے اوپر پلیٹیں اچھالتے ہو ۔ ’’ دور اندیش ‘‘ وزیر صاحب کے مشورے پرعمل کریں گے ، جب روز روز چکن بریانی ، کڑاہی کھائیں گے تو کسی جلسے ، سال گرہ یا تقریب میں ’ ٹوٹ ‘ نہیں پڑیں گے ان کی دیگچوں پر ۔۔ کیونکہ اُس وقت تک تو ’ گھر کی مرغی دال برابر ‘ ہو ہی جائے گی ۔ نظم و ضبط آچکا ہوگا چکن کے پکوان کھاتے کھاتے ۔ بڑی ناقدری کا دور ہے جناب ۔۔مشورے کو کوئی سمجھتا ہی نہیں۔ کوئی عزت ہی نہیں دیتا ۔ ہر کوئی حکومت کو بس لتاڑتا ہی رہتا ہے ۔ویسے وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب کوئی وزیر اٹھ کر یہ کہے گا کہ ’ کھانا نہیں ہے تو ’ہوا ‘ ہی کھا لیں وہ تو سستی ہے ۔‘‘ ’ ناشکری قوم ‘ حکومت پر پھر برس پڑے گی گولہ باری کرے گی ۔ ۔ یہ تو سراسر زیادتی ناانصافی ہوگی جناب ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے