میرے داجی گل (والد) کی کچھ یادیں

یہ اللہ تعالی کا نظام ہے کہ اس نے اپنی بنائی ہوئی دنیا میں ہر ایک شخص کیلئے اس کی اپنی دنیا بنائی ہے اور اسی دنیا کے ندر وہ رہتے ہوئے زندگی گزارتا ہے اسی چھوٹی سی دنیا میں کچھ لوگ بہت زیادہ اسے پیارے ہوتے ہیں – کچھ لوگ ان پیاروں کی زندگی میں قدر کرلیتے ہیں اور کچھ بدقسمت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ان پیاروں کی موت کے بعد ان کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن پھر وقت گزرا ہوتا ہے اور لوگ ان پیاروں کو یاد کرکے روتے ہیں- دنیا میں سب سے پیارا ررشتہ والدین کا ہے ماں اور باپ کا رشتہ ، جو اپنی زندگیاں اپنے بچوں کیلئے گزار دیتے ہیں-

مجھے اپنے داجی گل )والد (احسان اللہ کا غصہ ہمیشہ یاد رہیگا-کچھ عرصہ پاک آرمی کیساتھ سویلین ٹرانسپورٹر کے طور پر بھی رہے اسی وجہ سے ڈسپلن ان کی زندگی میں بہت زیادہ تھا خاموش طبعیت کے مالک خو د بھی ڈسپلن پسند کرتے تھے اور ہم بہن بھائیوں میں بھی ڈسپلن دیکھنا پسند کرتے تھے-مجھے وہ دن یاد ہے کہ جب گاؤں میں ایک حادثے میں میری چھوٹی بہن جاں بحق ہوگئی اور گاڑی حادثہ کے ذمہ دار لوگ ڈر کے مارے ہمارے گھر نہیںآرہے تھے لیکن میت کے تیسرے دن جرگے کی صورت میں ہمارے گھر آئے اور میرے والد نے یہ کہہ کر ان لوگوں کو معاف کردیا کہ ” جس اللہ نے مجھے بیٹی دی تھی اسی اللہ نے واپس لے لی میرا آپ لوگوں سے کوئی جھگڑا نہیں” اور میں اس وقت اپنے والد کو دیکھتا رہ گیا – کہ یہ کیسی طبعیت کا مالک ہے اس وقت میں طالب علم تھا اور خون میں گرمی بھی بہت تھی لیکن والد کے بات نے میرے غصے کو بھی ٹھنڈا کردیا- کچھ عرصہ بعد مجھ سے دو سال چھوٹا میرا بھائی یرقان کی مرض میں مبتلا ہو کر اللہ کے پاس چلا گیا -میرے بھائی کی بیماری کے دوران ہسپتال میں تیمار دار میرا داجی گل ہی تھا- بھائی کی موت کے بعد دادی انتقال کرگئی لیکن تین پے درپے سانحات کے باوجود میرے داجی گل )والد( کے زبان پر کوئی شکوہ نہیں تھا ہر وقت یکسوئی سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے اور شکر الحمد اللہ ان کے زبان پر ہوتا تھا-

جوانی میں میرے داجی گل ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ رہے اور گاؤں کی سطح پر بننے والی تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھے لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنے گھر پر کسی قسم کا جھنڈا نہیں لگایا- پختون سیاسی تنظیم کے دورہنماؤں کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہے –

سچ بولنے اور جھوٹ بولنے پر سزا دینے والے میرے والدکا سبق میرے زندگی کاسب سے بڑا سبق ہے جس میں کئی مرتبہ ذاتی طور پر مجھے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اپنے والد کی بہت ساری اچھی عادتیں ہم سب بہن بھائیوں میں بھی آئی ہیں- کھانے کے بعد زمین پر پڑی روٹی کے ٹکڑے کھانا ، اپنی کھانے کی پلیٹ صاف کرنا ، فضول گھومنے سے گھر میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دینا یہ میرے داجی گل کی کچھ عادتیں تھی جو شکر الحمد اللہ ہم سب میں آئی ہیں-یہ الگ بات کہ ان کی تہجد کی نماز پڑھنا ، اشراق کی نماز پڑھنا اور صبح سویرے اٹھ کر سب کو نماز کیلئے اٹھانا ایسی عادتیں ہیں کہ جو ہم سب بہن بھائی آج تک پوری نہیں کرسکے ہیں- پانچ وقت کی نمازیں تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کی طرح خشوع و خضوع سے اشراق پڑھنا اور رات کو اٹھ کرتہجد پڑھنا شائدہم جیسے کمزور ایمان لوگوں کی قسمت کی بات نہیں –

دل کے مرض میں مبتلا میرے داجی گل میرے آئیڈیل تھے آئیڈیل ہے اور آئیڈیل ہی رہینگے ابھی بھی ان کو یاد کرکے میرے آنکھوں میں آنسو ہیں ان کی یادیں ہیں جو کبھی کبھار مجھے اندر سے ختم کردیتی ہیں-مجھے یاد ہے کہ کامرس کالج پشاور میں دوران تعلیم میں بیمار ہوگیا اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے دوران میں کوما میں چلا گیااور پشاور کے سرکاری ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں مجھے رکھاگیا- مجھے بس اتنا یاد ہے کہ مجھے خوراک نلکیوں کے ذریعے دی جارہی ہیں اور کچھ یاد نہیں-ایک مہینے سے زائد کا عرصہ ہسپتال میں گزار ا اور میری تیمارداری ، میرا نہلانے سے لیکر کپڑے بدلنے اور واش روم لے جانے کا کام میرے والد ہی کرتے رہے- کبھی کبھار میں رات کو درد کی وجہ سے اٹھ جاتا تو اپنے داجی گل کو دیکھتا کہ وہ جائے نماز پر بیٹھ کر دعا کرتے تھے اور میری آواز سن کر میرے پاؤں دبانا شروع کردیتے کہ میرے پاؤں کا درد ختم ہو – مجھے وہ الفاظ آج تک یاد ہیں کہ میرے چچا زاد بھائیوں /کزنزنے کئی مرتبہ یہ کہہ کر ہسپتال سے گھر بھیجنے کی کوشش کی کہ آپ جا کر آرام کریں ہم مسرت کے پاس رہ جاتے ہیں لیکن میرے داجی گل ان کی باتیں سن کر انہیں کہتے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میں ہی اس کا خیال رکھونگا-

پختون معاشرے میں یہ باتیں عام ہوتی ہیں کہ اپنے لوگ کبھی کبھار طعنہ دے جاتے ہیں کہ ہم نہیں ہوتے تو تم کیا کرلیتے-میری بیماری کے بعد میری والدہ نے مجھے بتایا کہہ ہسپتال میں میراوالد خود خیال رکھتے تھے اور اس حوالے سے داجی گل کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کو مستقبل میں کوئی یہ طعنہ نہ دے کہ ہسپتال میں تمھارا خیال ہم نے رکھا اس لئے اپنے بیٹے کا خیال میں ہی کرتا رہا- دل کے مرض میں مبتلامیرے داجی گل مجھے رمضان المبارک میں بہت یاد آتے ہیں کیونکہ افطاری کے بعد ہم تو اتنا کچھ کھا جاتے ہیں کہ نماز اور تراویح پڑھنے کی ہمت تک نہیں ہوتی لیکن اپنے داجی گل کو میں نے کبھی بھی نماز/تراویح چھوڑتے نہیں دیکھا- بیماری میں بھی گھر پر بیٹھ کر پڑھتے رہتے-

لکھنے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے کہ میں اپنے داجی گل ) والد )کے بارے میں کیا کیا لکھو ں ، ان کی باتیں یاد کرکے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور میرے خیال میں ہر ایک شخص کا تقریبا یہی حال ہوگا -آج جب میں خود والد ہوں اپنے والد کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہوں جس نے کبھی بیٹے اور بیٹی میں فرق محسوس ہی نہیں کیا لیکن شائد اپنے داجی گل )دالد(کے پاؤں کی خاک تک بھی نہبن سکوں-مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اپنے والد کو کیسے خراج تحسین پیش کروں اور ہاں میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ میرے داجی گل کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے اور میری والدہ جن کی شفقت و رہنمائی سے آج میں قلم پکڑنے کے لائق ہوں انہیں صحت اور زندگی دے اور اللہ تعالی میرے والدین پر رحمت کرے – آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے