حامدمیرکے خلاف توہین رسالت کی شرانگیزمہم علماء نے مستردکردی

معروف صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے اینکر حامدمیر کے ایک کالم کی بنیاد کی شروع کی گئی توہین رسالت کی شرانگیز مہم علماء نے ناکام بنا دی .

کچھ دن قبل اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو علماء کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ توہین کے مرتکب ہوئے ہیں .

 

 

 

 

علماء نے کہا ہے کہ حامد میر کا کالم اہم سماجی مسئلے سے متعلق ہے اور اس میں توہین رسالت کا کوئی بھی پہلو نہیں نکلتا. علماء نے کہا ہے کہ یہ مہم محض سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر چلائی گئی ہے .

 

 

 

معروف عالم دین اور جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم علامہ مفتی گلزارنعیمی نے فیس بک پر اس مہم کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ”اس کالم میں مھجے تو کوئی توھین رسالت یا گستاخی نظر نیں آئی۔اللہ ھدایت دے مولویوں کو”

 

 

 

معروف عالم دین اور علامہ سید عبدالمجید ندیم شاہ کے صاحبزادے مفتی سید فیصل ندیم نے اس مہم کو افسوناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے ”اس پر سوائے ” انا للہ و انا الیہ راجعون ” کے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔ نام نہاد علماء کی فکری وفات . . .”

 

 

 

 

معروف عالم دین مفتی عبدالقادر جعفر نے کہا ”اس وقت صاحب علم اور سنجيده علماء كرام ميڈيا سے دور ہیں .”

معروف عالم دین مولانا سمیع اللہ سعدی نے فیس بک پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ”کالم میں تو توہین کی کوئی بات نہیں…”

 

 

 

 

 

معروف صحافی اور سیون نیوز کے اینکر سبوح سید نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ”اس کالم کو پڑھ کر مجھے خدا کے لئے سمجھا دیں کہ کہاں توہین کی ہے حامد میر صاحب نے ۔
انہوں نے لکھا کہ
” اس طرح دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی مولوی بچے جس پر یہ الزام نہ لگایا جا سکتا ہو۔”انہوں نے مزید لکھا کہ ” دو روز قبل افطار کے پروگرام میں ایک معروف اور جید عالم دین کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا تھا، کوئی شرپسند ہوتا توملک میں آگ لگا دیتا تاہم اینکر نے فورا وضاحت کرکے جملہ درست کرا دیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں حامد میر پر الزام لگانا آسان ہے لیکن مولوی کو پکڑنا مشکل ہے کیونکہ مولوی صاحب جانتے ہیں کہ اگر کسی مولوی نے ان کے خلاف فتویٰ دیا تو وہ فتویٰ دینے والے مولوی صاحب کے خلاف دلائل اور کتابوں کے انبار لگا دیں گے ۔ اسی وجہ سے مولوی صاحب ، دوسرے مولوی صاحب کے خلاف فتویٰ نہیں دیتے اور
نیواں نیواں ہو کے لنگ جا
والے فارمولے پر عمل کر تے ہیں ۔

سبوح سید نے لکھا ”ملک کے سنجیدہ فکر علماء کو اس طرز عمل کا نوٹس لینا چاہیے جو محض اخباروں اور ٹی وی چینلز کے مالکان کو خوش کرنے کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے۔ جس اخبار نے یہ خبر شائع کی ہے ، آج سے کچھ عرصہ قبل پروف کی غلطی سے واضح توہین ہوئی اور اس وقت ان کی حالت دیکھنے والی تھی ”

معروف صحافی ،کالم نگاراور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کےسابق صدر شہریار خان کا کہنا ہے ”کہیں بھی ایسی بات نہیں جو مذہب کے خلاف ہو۔۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں تھی جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہو۔۔ ہاں ۔۔ صرف اسلام کے ٹھیکے دار مولویوں کو اپنی ہتک محسوس ہوئی ہوگی۔ جن عالم دین کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ختم کرانے کے لیے داماد کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنوایا، ان کی حقیقت بیان کی ۔۔ اس لیے ان کی توہین ہو گئی ہوگی۔۔ ویسے بھی اس ملک میں سب سے آسان ہدف صحافی ہیں ۔”

 

 

 

 

نوجوان قلمکار عمرعبدالرحمٰن جنجوعہ نے لکھا ہے ”اس قسم کی مہم چلانا انتہائی گھٹیا عمل ہے .اس کالم کو بغور پڑھا پر کہیں بھی ایسی بات نہیں ہے جس کو توہین رسالت سے جوڑا جا سکے افسوس صد افسوس بعض شرپسند عناصر اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایسے حساس اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔آپ اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کے چار سال قبل ملالہ پر لکھے کالم کی وجہ سے توہین رسالت کے مقدمے کی تیاری ہو رہی تھی حالاں کہ اس کالم میں کسی جگہ بھی نہ قرآن کا حوالے نہ ہی حدیث کا حوالہ تک لیکن پھر بھی توہین رسالت ذرا پوچھیے تو سہی ان نام نہاد علمائ سے جو سنی سنائی بات پر فتوی جڑ دیتے ہیں حالاں کہ میرے نبی صلی اللہ عیلہ وسلم نے فرمایا جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ سنی سنائی بات کو آگے پھیلاو”

 

 

 

 

ایک سوشل میڈیا صارف محسن ارشد نے فیس بک پر لکھا ہے ” حامد میر صاحب کا کالم بہترین ہے ،اسے کوئی جاہل ہی توہین قرار دے گا.اس کالم میں معاشرے کے فلاح کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق بات کی گئی .”

 

سوشل میڈیا صارف قاری محمد شہزاد نے کہا ہے کہ ”اس کالم میں‌توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ”

معروف سماجی کارکن مقصود گِل نے حامد میر پر لگائے گئے الزام پر ان الفاظ میں ردعمل کا اظہار کیا ہے ”وطن عزیز میں جان بوجھ کر فکری خوف و ہراس پیدا کیا جائے رہا ہے کہ کوئی سوچنے سمجھنے والا ذہن اپنے خیالات کا اظہار نہ کر سکے اور یوں ایک مخصوص طبقے کو حب الوطنی اور اسلام کی تشریحات کا حق بلا شرکت غیرے حاصل ہو جائے ۔”

عثمان حبیب نے لکھا ہے ” جہاں تک حامدمیر صاحب کے کالم کی بات ہے تو بظاہر بندہ کو اس میں گستاخی کا کوئی پہلونظرنہیں آیا ”

عبدالغفورخان نے کہا ”فتوی لگایا نہیں جاتا بلکہ استفتاء کے جواب میں دیا جاتا ھے.اور یہ ذمہ داری مفتی کی ھے نا کہ مولوی کی.ویسے بائی دا وے کیا آپ کو ان مولویوں کے اسمائے گرامی معلوم ہیں جنہوں نے یہ گھٹیا حرکت کی؟اگر آپ وہ نام شائع کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس مولوی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بن جائےاور اس طرح باقی مولوی بھی شاید راہ راست پر آجائیں.”

سوشل میڈیا کے ایک صارف نوید اقبال نے لکھا ہے ” حامد میر اپنی صاف گوئی اور جرات مندی کی وجہ سے بعض لوگوں کوکانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ”

فیس بک کے صارف زیارت علی نے لکھا ”میں نے تین مرتبہ حامد میر کا کالم پڑھا کوئی توہین نہیں کی گئی یہ زیادتی ہے ظلم ہے” انہوں نے مزید لکھا کہ ”اس پیارے وطن عزیز میں فوج کے بارے لب کشائی کریں تو بغاوت اور غدار جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے .عدلیہ کے بارے کچھ کہیں تو توہین عدالت ،مولوی کو کچھ کہہ دیں تو توہین رسالت تک معاملہ لے جاتے ہیں”

 

 

عثمان غنی کا کہنا تھا”یہاں سب سے آسان کام یہی الزام لگانا بن گیا ہے خدا سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے ہم نے”

 

 

 

سید ذیشان حیدر کاظمی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ” یہ توہین رسالت کے الزامات صرف پاکستان ہی میں‌ کیوں لگائے جاتے ہیں،دیگر مسلم ممالک میں اس قسم کی شر انگیز مہم کیوں نہیں‌چلتی؟”

 

 

 

 

خیال رہے کہ حامد میر نے چند دن قبل روزنامہ جنگ میں نے ملک میں غیرت کے نام ہونےوالے قتل کے واقعات کے ردعمل میں‌’‘جھوٹی غیرت جعلی عزت” کے عنوان سے کالم لکھا تھا.انہوں نے اپنے کالم میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کا حوالہ دیا تھا۔

اس کالم میں غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کی مذمت کی گئی تھی اور اس حوالے سے قانون کو مزید سخت بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا .

حامد میر کا مذکورہ کالم اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے