آزادکشمیر میں‌کچھ بدلے گا؟

آزاد خطہ میں انتخابی سرگرمیاں ماضی کی نسبت زیادہ پر امن اور خوشگوار ماحول میں آگے بڑھ رہی ہیں جس میں رمضان المبارک کے خاص ماحول کیفیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس مصطفی مغل کی جانب سے نافذ کردہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے اثرات بھی مثبت مرتب ہوئے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ،امیدوار، کارکنان، جلسے ،جلوس ،ریلیوں بڑے بڑے بینرز بورڈز سمیت بہت سارے اخراجات سے بچ گئے ہیں تو عوام بھی بہت سی تکالیف الجھنوں ،قباحتوں سے بچ گئے ہیں

اب ایک ماہ 21جولائی کے فیصلہ ساز دن میں باقی ہے ،اس بار بہت ہی پر سکون مگر عوام کی جانب سے دلچسپ صورتحال سامنے آ رہی ہے کہ اکثر بیشتر حلقہ انتخابات میں ماضی کی طرح پورے اعتماد وثوق کے ساتھ یہ تجزیہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ مدمقابل امیدواران کے مابین کون بازی جیت جائے گا .کہیں مسلم لیگ ن پی پی پی کا روایتی مقابلہ ہے تو بعض حلقوں میں شخصیات کے مابین کشمکش ہے ،

یہ دلچسپ خوشگوار انتخابی ماحول جمہوری جدوجہد کے ملک بھر کی طرح آزادکشمیر میں ہونے والے اثرات کا ثمر ہیں کہ عوام کی طرف سے فوری ردعمل جوش غصے کے بجائے صرف سننے کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس پر غور کرنے اور تعمیری گفتگو بحث مباحثے عام ہو گئے ہیں جس کے باعث سیاسی کارکنان بھی محتاط ہو چکے ہیں ماسوائے وارداتی موقع پرستوں ،شعبدہ بازوں کے جوہر تھالی کے بینگن ہوتے ہیں ،ان سمیت علاقہ برادری رنگ نسل کے تعصبات وہ ناسور ہیں جو تاحال انصاف میرٹ کردار اہلیت دیانت کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں اور خطہ میں ترقی خوشحالی عوامی آسودگی میں آڑے آجاتے ہیں جس کا الزام ایک دوسرے یا پھر کوہالہ پار لگا دیا جاتا ہے

خطہ میں بطور چیف سیکرٹری خدمات سرانجام دینے والے علم دین بلو نے اپنی الوداعی تقریب میں جرأت رندانہ کے ساتھ کہا تھا کہ آزاد خطہ کی ترقی خوشحالی عوامی آسودگی میں رکاوٹ کوئی قوت کردار ہرگز نہیں ہے بلکہ آزاد خطہ کے اندر تمام تر وسائل صلاحیتیں ہونے کے باوجود صرف اور صرف برادری علاقہ زبان رنگ نسل کے تعصبات ہیں ان کا یہ تبصرہ حکومت محکموں سے لیکر تمام شعبہ جات میں ہونے والی کمزوریوں ،خرابیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی سچائی ثابت کرتا ہے

یہاں برادری مذہب علاقہ مسلک اور کار کوٹھی مارکیٹ پیسہ اصول کردار بن چکے ہیں جن کے سامنے اصول کردار کی باتیں ملیا میٹ ہو کر رہ جاتیں ہیں اور تعصبات مکرو فریب کے بت جیت جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ آمنے سامنے یہ سوال یا نقطہ اٹھانے کی جرأت رندانہ کافقدان ہے کہ ملازمت سے پہلے آپ کرائے کے کمرے میں تھے یہ کیا انقلاب آیا کہ ریٹائر منٹ سے پہلے ہی کوٹھیوں پلازوں کے مالک بن گئے ہیں

آپ الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے عام سی کار رکھتے تھے . پرانی جیپ تھی دال روٹی پر گزارہ چلتا تھا . ایم ایل اے وزیر بن کر پانچ سال میں نصف نصف کروڑ کی گاڑیاں کوٹھیاں مارکیٹیں کس کرشمہ سازی کا کمال ہے . اگر امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کو کپڑے کا سوال کیا جا سکتا ہے تو پھر آج کے دور میں یہ سوال اٹھانے میں کون سی قباحت ہے اس بار عوام ضرور جماعتوں کے قائدین امیدواران سے یہ سوالات کرنا شروع کریں اور تعمیری پیش رفت یعنی اجتماعی بنیادوں پر اپنا مستقبل خود بہتر بنانے کا آغاز کریں تاکہ تمام شعبہ جات میں کردار دیانت اہلیت کے مقابلے میں تعصبات کے نام پر چاپلوسوں موقع پرستوں وارداتیوں شعبدہ بازوں کا راستہ روکا جا سکے . یہ رحمت خداوندی ہے کہ آج کا نوجوان سوال کرتا نظر آ رہا ہے بزرگ بھی ان کا ساتھ دیں حوصلہ افزائی کریں اور انفرادی کے بجائے اجتماعی فلاح بہبود کے جذبات مشن کو جگائیں کہ خلق خدا کی خدمت ہی حقیقی عبادت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے