سیاست کےتاریخی ٹوپی ڈرامے

پاکستان عوامی تحریک کے قائد جناب مولانا ڈاکٹر طاہر القادری ایک بار پھر پاکستان اپنے شہید کارکنوں کی دوسری برسی کے موقعے پر تشریف لائے ہوئے ہیں۔ لاہور مال روڈ پر شام سے صبح تک دھرنا کا اہتمام کیا جس کا مقصد منہاج القرآن ہاؤس میں شہید ہونے ورثا ء سے اظہار ہمدردی کرنا تھا اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا ہے ہمیں سول کورٹ سے انصاف کی امید نہیں ہے اس لئے اس کیس کو فوری طور پر فوجی عدالت میں چلا یا جائے اور اس کے ساتھ ورثاء کے قصاص کا مطالبہ بھی پیش کیا۔

ماضی کے اند رڈاکٹر طاہر القادری جب وہ پاکستان آئے تھے تو انھوں نے مینار پاکستان پر ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کی، اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نون اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت تھی۔ 23 دسمبر2012 پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کے طرف سیاست نہیں ریاست بچاؤ مارچ کیا اور حکومت کے سامنے بہت سے مطالبہ پیش کئے۔ حکومت ختم کرنے کے لئے کئی بار حکمرانوں کو الٹی میٹم بھی دئیے، اپنے کارکنوں کو حکومت ختم ہونے کی کئی بار مبارک ہو مبارک کی نوعید بھی سنائی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے تمام الزمات، احتجاج اور دھرنے کی سیاست کو مسکراتے ہوئے برداشت کیا اور بہت ہی عقل مندی سے اپنے کارڈز کھیلے۔ پی پی دور میں حکومت کی پوری مشینری صرف کرپشن کے فروغ میں مصروف عمل نظر آئی، انھوں نے شہریوں کے بنیادی حقوق، گوڈ گورننس، کرپشن کی روک تھام، مہنگائی، گیس پانی اور بجلی کی فراہمی جیسے ا ہم ا یشوز کو حل کرنے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔

آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن دو ایسے سیاست دان جو صبر، دانشمندی، تجربہ کے ساتھ ہمیشہ پرفیکٹ ٹائمنگ پر فیصلے کرتے ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ہر مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جبکہ اس چیف سوموٹو ایڈ منسٹر یٹر افتخار محمد چوہدری صاحب نے پی پی حکومت کو نتھ ڈال رکھ تھی۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا کر پارلیمنٹ سے باہر کیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اس وقت بھی اپنے موقف پرقائم رہی۔

پی پی حکومت نے ڈاکٹر مولانا طاہر القادری صاحب کے خلاف طاقت، زورز بردستی سے اجتنا ب کیا اور بیانات کی حد تک اپنے موقف پیش کئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی واضح حکمت عملی تھی کہ مولانا صاحب کو پلیٹ فارم،ماحول کے ساتھ پورا ٹائم دیا جائے تاکہ وہ دل کھول کر اپنی بھڑاس نکل لیں جس کے لئے وہ بیرون ملک سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں پا ک افواج کو بھی اقتدار میں آنے کی کئی باردعوت بھی دی۔۔ حکومت نے ان مشکل وکٹھن حالات میں انتہائی بردباری، حوصلے اور دانشمندی کے ساتھ ڈاکڑ صاحب کو انکے دھرنے سمیت برداشت کیا۔جناب ڈاکٹرطاہر القادری صاحب ہر روز ایک نئی فرمائشی لسٹ کے ساتھ حاضرین سے خطاب فرماتے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو اندازہ ہو گا کہ کسی طرف سے کوئی مدد و امداد کی امید باقی نہیں تو پھر مذاکرت کی میز سجی۔ مزے کی بات پھر انہی حکومتی کمیٹی سے گفت شنید ہوئی جن کو ڈاکٹر صاحب دھرنے کے دوران فرعون یزید کے خطابات سے نوازتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس دھرنے کا اختیام بھی بندر کے ٹوپی ڈرامہ کی طرح ہوا عوام الناس کے سامنے ایک تحریری معاہدے پڑھا گیا جس کے بعدمتحرم ڈاکٹر اپنے بوری بستر باندھ کر اسلام آباد سے واپس روانہ ہو گئے۔ کچھ دن ملک میں قیام کرنے کے بعد متحرم ڈاکٹر طاہر القادری دوبارہ بیرون ملک تشریف لے گئے۔

مولانا صاحب نے ایک بار پھر پاکستانی سیاسی موسم کو انجائے کرنے کے عزم کو دوہرایا اور اس کے ساتھ ایک بار پھر حکومت پر خوب طنز کے بے شمار تیر برسائے۔ اس بار ان کے نشانے پرشریف فیملی کے ساتھ مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ کا ماضی عیان ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے پاؤں پر خود کلھاڑی مارنے کی صلاحیت رکھتی ہے ہر بار کی طرح اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ مسلم لیگ کی قیادت جن میں صبر و حوصلے کی کمی شدت سے پائی جاتی ہے ان کا وطیرہ ہے وہ ہر فیصلہ جلد بازی اور ایمرجنسی کی صورت میں لیتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے مولانا طاہر القادری صاحب کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ لیا ان کو ہراس و پریشان کرنے کے لئے انتقامی پلان اور اوچھے ہتھکنڈے ترتیب دئے۔ 17 جون 2014 کوپنجاب حکومت نے منہاج القرآن ہاؤس ماڈل ٹاؤن میں لگی ہوئی روکاٹوں جو کہ چار سال پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر ماڈل ٹاؤن پولیس کی نگرانی میں لگائی گئی تھیں ان کو ختم کے خلاف آپریشن کا آغاز جو بعد میں حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ماڈل ٹاؤن آپریشن کے دوران کشیدگی بڑھ گئی جس کے نتیجے میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکن جن میں خواتین،مرد اور بزرگ کارکن سمیت 14 افراد کوپنجاب پولیس نے سرعام شہید اور90سے زیادہ کارکنوں کو زخمی کر کے پاکستانی تاریخ کی بد ترین مثال قائم کی۔پنجاب پولیس نے سر عام کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں، سول سوسائٹی، میڈیا سب نے یک جان ہو کر اس واقعہ کو ریاستی دہشت گردی قرار د یا۔

عدالتی کمیشن جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی نے پنجاب حکومت کواس کا براہ راست موردالزام قرار دیا جس کے بعد پنجاب حکومت نے اس کمیشن کی رپورٹ کو ہی دبا دیا۔ ماضی کے اندر بھی شریف فیملی اپنے اقدار کو بچانے کے لئے ایسے ہی حربہ آزماتی رہی ہے۔ جس کی مثال جسٹس قیوم اور وزیر اعلی شہباز شریف کی مشہور آڈیو ٹیپ جو باسانی سوشل میڈیا پرموجود ہے جس میں وزیر اعلی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب اپنے رکن اسمبلی کے نااہلی کیس کے سلسلے میں جسٹس قیوم کو فون کرکے میاں نواز شریف کا حکم سناتے ہیں اور جسٹس قیوم بڑی جی حضوری سے اس کیس کو ختم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ جب حکمران، سیاست دانوں، جاگیر داروں، وڈیروں، بااثر شخصیات قانون اور انصاف کو گھر کی لونڈی بنا لایا اس لئے ملک کے اندر لاقانونیت عام ہو چکی ہے۔ اب عوام صرف اللہ کی عدالت میں انصاف حاصل کر سکیں گئے۔

ماڈل ٹاؤن سانحہ پر تمام سیاسی جماعتوں نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ یک زبان ہو کر ہمدردی کی اور اس افسوناک واقعہ کو انتقامی کاروائی قرار دیا۔ 11 اگست 2014مولانا طاہر القادری نے ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف انقلاب مارچ دھرنے کا رخت سفر باندھا اس بار اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جن میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی نے بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے اس مشترکہ اتحاد کو لندن پلان کا عنوان دیا جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کو سیاسی کزن قرار دیا۔

14 اگست 2014 کو تحریک انصاف بھی اپنا قافلہ لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئی۔حکومت وقت نے بڑی سمجھ داری کے ساتھ قدم پیچھے ہٹائے ایک بار پھر دونوں جماعتوں کوکھلا پلیٹ فارم پیش کیا جس سے دونوں لیڈروں کے خیالات کھل کر پوری قوم کے سامنے آ گئے۔ عمران خان ایمپائر کی انگلی کے اشارے کا انتظار کرتے رہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس مار چ کے دوران بہت سی پیشن گوئیاں نازل فرمائی، نواز شریف کی حکومت کو کئی بار ڈیڈلائن دینے کیساتھ بہت سے یو ٹرن بھی لئے۔ کارکنوں کو کفن پہن کر تیار کیا، قبریں کھودی گئی پھر آخر میں وہی ہوا ڈاکٹر طاہر القادری پونے دومہینے قیام فرمانے کے اپنے سیاسی کزن عمران خان کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ ڈی چوک کے اطراف پر مسلح کارکن کے جتھے قابض نظر آئے۔ اسلام آباد میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا، انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کو خوب جگ ہسائی ہوئی ہے،غیر ملکی سفارت کار اور مہمانوں کو بہت پریشانی اٹھانا پڑی، کئی غیر ملکی شخصیات کے دُورے منسوخ ہوئے۔ دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت کے ساتھ دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کوخوب بھی آڑے ہاتھوں لیا اور ڈی چوک سے آگے کی جانب پیش قدمی کا ارادہ کیا جس پر مجبورا حکومت کو روکنا پڑااس دوران دونوں جماعتوں کے کارکنوں زخمی بھی ہوئے۔ کارکنوں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی کی سرکاری عمارتوں میں داخل ہوئے جس پر حکومت کو فوج طلب کرنا پڑی۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک دونوں جماعتیں اس دھرنے سے کوئی بھی مقاصد حاصل کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا طبی جب کہ تحریک انصاف کا دھرناحادثاتی موت کا شکارہوا۔

ڈاکٹر مولانا طاہر القادری دھرنے ختم کرنے کے بعد شہید کارکنوں کے لواحقین کو چھوڑ کر ایک بار پھر بیرون ملک روانہ ہو گئے اور تحریک انصاف نے بعد میں اے۔ پی۔ ایس سکول حملے ہونے پر نا صرف اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا بلکہ بعد میں اسمبلیوں میں جا کر اپنے استفے بھی واپس لے لیے۔ کل تک جس حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر بر ے القاب سے نوازتے رہے آج انہی اپوزیشن ممبرز کی کمیٹی کاحصہ بن کر حکومت سے ٹی۔ او۔ آر پر مذاکرات کی میزپر براجماں ہیں۔ عوام نے یہ سیاسی ٹوپی ڈرامہ بھی بہت انجائے کیا۔

سیاست کے اندر آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دوست آج کے دشمن نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سیاست کے اندر کوئی بیان اور الفاظ کی کوئی وقعت نہیں۔ کل جن پر الزام تھا آج ان کے لئے احترام ہے۔میاں شہباز شریف جو اپنے بیان، رنگ اور مزاج بدلنے کے مولا جٹ ہیں انھوں نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے حکومتی کرپشن کی داستان سنائی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ وہ جن محلات کے اندر عیش و عشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ بھی کریشن کی ہی لوٹی ہوئی دولت ہے۔ آج بلاول بھٹو زرداری عوامی اجتماع میں کس منہ سے کرپشن مکاؤ مہم کا نعرہ لگا رہاہے، زرداری صاحب تو خود کمیشن ایجنٹ کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے سوئز بینک، سرے محل کے قصہ سنا کر آصف علی زرداری کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ میاں شہباز شریف اس سے پہلے بھی جناب متحرم زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کو کئی بار باور کرا چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی والے بھی دودھ کے دھولے ہوئے نہیں وہ بھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ ماضی میں میاں شہباز شریف آصف علی زرداری کے ساتھ پیپلز پارٹی اور میڈیاسے اپنے بیان پر معافی مانگ چکے ہیں۔پی پی دور حکومت میں وزیر اعلی پنجاب اپنی پوری پنکھی کابینہ کو لے کر مینار پاکستان میں بیٹھا کرتے اور پی پی حکومت کو لوڈ شیڈنگ کا درد سنایاکرتے تھے۔ مسلم لیگ کی دور حکومت میں بھی انھوں نے لوڈ شیڈنگ کے اوپر کئی راگ سنائے ہیں۔

کراچی آپریشن کے افٹر شاک آنے کے بعد سندھ حکومت شدید دباؤ کا شکار نظر آتی ہے ڈاکٹر عاصم کی جو ویڈیو منظرآئی ہے جن میں انھوں نے زرداری صاحب کے منہ بھولے بھائی جناب اویس ٹپی کے سیاہ کارنامے کی کرپشن کا پردہ چاک کر دیا وہ پیپلزپارٹی کے آلارمنگ صورتحال ہے۔سندھ حکومت کے اندر کرپشن، لوٹ کھسوٹ، فراڈ کے کیسوں کی فائل بھری پڑی ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے نام شامل ہونے کے انکشاف منظر عام پر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے کئی مشہور شخصیات جن کے اوپر کرپشن کے الزمات ہیں وہ پہلے ہی ملک سے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کرپشن کے ثبوت کا عندیہ دیا تھا انہوں نے ڈاکٹر عاصم کی ویڈیوکو غیر قانونی قرار دیا کہ اس کے اوپر سند ھ حکومت سے تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔ اس کے پہلے بھی کئی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں۔

پاکستان کی سدا لوح عوام آخر کب تک ان سیاست دانوں کے ٹوپی ڈراموں کو برداشت کرتے رہے گئے؟ کیا کبھی اس ملک میں کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی، رشوت، سفارش جیسے عناصر کاخاتمہ ہو پائے گا؟ کیا انصاف صرف سیاستدانوں، وڈیروں، طاقتور اور بااثر لوگوں کے گھر کی لونڈی ہی رہے گا؟ کیا ہر شہری کو بنیادی حقوق برابری کی سطح پر حقوق مل پائے گئے؟ کیا پارلیمانی سسٹم ملک میں خوشحالی، تعمیر و ترقی میں حائل روکاٹوں کو دور کر سکے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے