تلوار اور علم کی بحث

جناب صلاح الدین ایوبی سے منسوب قول ہے کہ "میں یہ نہیں جانتا کہ اسلام اخلاق سے پھیلا تھا یا تلوار سے لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اسلام کی حفاظت کے لیے تلوار بہت ضروری ہے”

یہ تو تھا صلاح الدین ایوبی صاحب کا متنازعہ قول، اب میرا متفقہ قول سنیے! "میں اب تک یہ تو جان ہی چکا ہوں کہ اسلام اخلاق سے کم اور تلوار سے زیادہ پھیلا ہے لیکن اب یہ بحث اہم نہیں کہ اسلام کیسے پھیلا، اہم یہ ہے کہ اس سیٹلائٹس، میزائلز، ائیر کرافٹ کیرئیرز، ملٹی میڈیا، انٹرنیٹ، روبوٹس، گریویٹیشنل ویوزز اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی صدی میں اسلام کی حفاظت کے لیے تلوار بالکل کام نہیں آنے والی، چنانچہ اب اسلام کی حفاظت کے لیے سائنس کا علم ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے، اخلاق سے بھی زیادہ-”

سائنس ہے کیا؟ اور یہ کیوں ضروری ہے؟ یہ تو بہت ہی دقیق اور قابل توجہ اور وقت طلب موضوع ہے لیکن فی الحال سائنس کی افادیت کو آسان لفظوں میں جاننا مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان ہی سائنس سے سب سے زیادہ ناآشنا بلکہ یوں سمجھیں نالاں نظر آتے ہیں-

چلیں اب بھاشن بند کر کے موضوع کا رخ بدلتے ہیں،

کیا آپ اس سے پہلے جانتے تھے کہ قرآن مجید کے مطابق سب سے بہترین ذکر حمد پڑھنا، قوالی گانا، تسبیح پھیرنا، وجد یا حال میں آنا نہیں بلکہ زمین اور آسمان میں غور کرنا ہے؟

اگر یہ بات آپ کے لیے شاکننگ ہے تو سورہ آل عمران دیکھیے۔

اللہ پاک یہاں ذاکرین حامدین اور مومنین کی صفت کا بیان کچھ یوں فرماتے ہیں:
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِِ (191)

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں-

تو میرے پیارے مسلمان بھائیو اور میٹھی میٹھی بہنوں کیا آپ نے اس آیت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے کبھی زمین کی ساخت پر غور کیا ہے؟ اس کی عمر پر اس کی پیدائش پر اس کی زندگی پر اس کے وجود پر اس کے بدلاؤ پر اس پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں پر اس پر رہنے والے جانداروں پر بے جانوں پر سمندروں کی تہوں میں پہاڑوں کی بلندیوں پر اس کرہ ارض کے مستقبل پر، کیا غور؟
نہیں کیا ناں… کیا ہوتا تو نظر بھی آتا-

خیر زمین پر اتنا کچھ ہے کہ غور و فکر کے لیے صدیاں نہیں دسیوں صدیاں درکار ہیں اور آسمان؟ اس کے سامنے زمین کی حیثیت کسی ریت کے ذرے تو کیا ایٹم کے نیو کیلیئس سے بھی کم ہے تو آسمان پر غور کرنے کے لیے تو شاید روشنی کی رفتار پکڑنی پڑے یعنی نوری سال درکار ہیں-

اگر ہم نے آسمان کیا زمین پر ہی غور کرنا نہ چھوڑا ہوتا تو آج باجماعت زمین کی پستیوں میں نہ پائے جاتے- بلکہ خلاء کو مسخر کر چکے ہوتے چاند اور مریخ کو روند چکے ہوتے-

ہم اقراء والے،

ہم بغداد، اندلس، قرطبہ اور قاہرہ والے،

ہم دنیا کو سائنس سے آشناء کرنے والے سائنس سے ناآشنا کب ہوئے کچھ یاد نہیں –
– – آہ

دیر ہو گئی! بڑی دیر ہو گئی، پر اتنی نہیں کہ واپسی ناممکن ہو جائے، ابھی بھی وقت ہے دوستو "قرآن ختم” کرنے کے بجائے "شروع” کرتے ہیں-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے