بلاعنوان

مفتی عبدالقوی نے قندیل بلوچ سے ملاقات کی تصویریں لیں شادی کی پیشکش کی اور قندیل کے تلخ جملے ہنس ہنس کے سہے اس سے پہلے بهی جناب مفتی صاحب ایک پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ جہاں خوبصورت لڑکی دیکهتا ہوں اسے ٹکٹکی باندھ کے دیکهتا ہوں اور میں اس دیکهنے کو گناہ نہیں سمجهتا اس لیے کہ میں حسن میں رب کی قدرت دیکهتا ہوں بنانے والے کی کاریگری دیکهتا ہوں ..
اور تهوڑا پیچهے جائیں تو جناب مفتی صاحب کہہ چکے ہیں کہ آپ متعدد نکاح کرسکتے ہیں جبکہ شادی ایک… باقی سے وقت گزاری ..اور تهوڑا پیچهے جائیں تو موصوف ایک پروگرام میں خواجہ سراء کو شادی کی دعوت بهی دے چکے ہیں…موصوف کوئی لوفر لفنگا نوجوان نہیں بلکہ نکمی عمر کی طرف بڑهتا ایک بوڑها ہے اور عالم بهی ہے صرف عالم نہیں بلکہ مفتی بهی ہے اور نور علی نور یہ کہ موصوف مدرسہ بهی چلاتے ہیں اور رویت ہلال کمیٹی کے ممبر بهی ہیں…ان سب باتوں کے باوجود مجهے دو چیزوں پہ بڑی حیرانگی ہے کہ موصوف کو کسی نے کچھ نہیں کہا علماء نے اسے برداشت کیا اور سب سے زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ موصوف کے ماننے والوں نے اسے برا نہیں منایا مقتدیوں کا احتجاج نہیں دیکها حلانکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ گهٹن زدہ معاشرہ ہے یہاں خلاف شرع سانس لینے پہ بهی مقتدی حقہ پانی بند کر دیتے ہیں….ماننے والا جتنا گناہ گار ہو لیکن وہ مولوی پیراستاد کو فرشتہ دیکهنا پسند کرتا ہے جبکہ اب یہ رسم ٹوٹتی نظر آرہی ہے…اسے مثبت تبدیلی کہوں یا منفی فیصلہ آپ کیجئے….؟

بات مفتی عبدالقوی تک محدود رہتی تو نظر انداز کردیتا لیکن یہاں ایک اورتصویر دکهاتا ہوں ایک صاحب ہیں جن کا نام ہے طاہراشرفی ..موصوف نشے میں دهت ٹی وی پہ آکے بیٹھ گئے نشے کی وجہ سے بولا نہیں جارہا تها آواز اور جسم پہ قابو بهی نہیں تها اینکر سوال کرتے ہوئے بهی مسکرا رہا تها اور اس سے پہلے ایک چینل نے خبرچلائی کی جناب کی گاڑی سے شراب برآمد ہوئی ہے..واللہ اعلم لیکن اشرفی صاحب کے چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی انکے مقتدی اور چاہنے والے اس رویے کے خلاف بولے تک نہیں چاہنے والوں نے انہیں قبول کیا ..اسے کیا نام دینگے معاشرے کی تبدیلی یابیغیرتی فیصلہ خود کیجئے……

اچها اشرفی صاحب کو بهی چهوڑیں ہمارے ایک شیخ الاسلام ہیں دنیا جن کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے نام سے یاد کرتی ہے موصوف خوابوں کے شہزادے ہیں اور اکثر خواب جهوٹ ہی نکلے موصوف تضادات کا مجموعہ ہیں انکے تضادات جمع کیے جائیں تو پوری دس جلدیں بنےگی.. مجال ہے انکے حامی کم ہوئے ہوں موصوف کسی وقت مکمل داڑهی رکهے ہوئے تهے پهر کاٹتے گئے کاٹتے گئے اب تهوڑی سی رہ گئی ہے لیکن مرید پهر بهی مرتے ہیں…کمال ہوگیا ویسے چلتے چلتے بطورمزاح لکهتا چلوں کہ اسے کہتے ہیں تبدیلی..لیکن فیصلہ آپ کریں…

اچها چهوڑیں شیخ الاسلام صاحب کو بهی…اپنے عامرلیاقت کو دیکھ لیں موصوف ہر رنگ میں رنگ جاتے ہیں انہیں کسی مجلس میں بٹها دو یہ اسکی جان بن جائیں گے یہ گانے والوں کے ہاں گاتے ہیں ناچنے والوں کے ہاں ناچ بهی کرلیتے ہیں یہ مذہبی بهی بن جاتے ہیں یہ تجزیہ نگار بهی بن جاتے ہیں اور اپنے پروگرام کو لکی ایرانی سرکس بهی بنا لیتے ہیں لیکن انکی ریٹنگ سب سے زیادہ ہے کیوں ؟

معاشرہ چاہتا یہ ہے ..چهوڑو معاشرے کو ..دیکهو علماء صاحبان کو انہوں نے اس دن ڈاکٹر صاحب کے پیچهے نماز پڑهی..جب میں نے وہ تصاویردیکهیں تو مجهے لگا کہ نبی اکرم کی اس حدیث پہ علماء نے آج عمل کر ہی لیا ہے کہ فاسق کے پیچهے بهی نماز ہوجاتی ہے..یاد رہے کہ علماء کے نزدیک داڑهی کٹا فاسق ہے….اس کو کیا نام دینگے.فیصلہ آپ کریں…

چلو اسے بهی جانے دو آج جماعت اسلامی تحریک انصاف کی اتحادی ہے سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف مخلوط جلسے کرتی ہے ناچ گانا عام ہوتا ہے عمران خان آزاد خیال آدمی ہے لیکن جماعت کی اورتحریک کی خوب نبه رہی ہے کارکن بهی خوش ہے اس کے چہرے پہ بهی ناگواری نہیں آتی لبوں پہ سوال نہیں آتا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کے کون سا اسلام لایا جارہا ہے؟کارکن سمجهوتہ کرنا سیکھ گیا ہے اسکی شدت کم ہوگئی ہے یہ سیاست کی باریکیوں کو سمجهنے لگ گیا ہے ..اسے بهی جو نام دیں آپکی صوابدید..

اچها چهوڑیں سب کو مولانا محمدخان شیرانی صیب سے پوچها گیا گانے سنتے ہو مولانا نے جواب دیا جی ہاں اچهے گانے والوں کو سنتا ہوں اور پهر انہوں نے اپنی پسند کے چند نام بهی بتائے اسی طرح حافظ حمداللہ کا وہ جملہ کہ بهارتی اداکاراووں کو دیکهتا ہی نہیں ان سے سیکهتا بهی ہوں اور خود مولانا جس حکومت کا حصہ بنیں اسکے کارکن مطمئن ہیں وہ جواب بهی دیتے ہیں اور اپنی پالیسیوں کا دفاع بهی کرتے ہیں مولانا شیرانی اور حافظ حمداللہ کے ان جملوں کے باوجود لوگ انہیں چاہتے ہیں اور سراہتے ہیں

ان سب باتوں کو آپ جو عنوان دینا چاہیں آپکی مرضی …یہ تحریر بلاعنوان ہے…..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے