مظفرآباد:طلباء پولیس تصادم کا ذمہ دار کون ؟

مظفرآباد میڈیکل کالج میں پولیس گردی اور باہمی تصادم قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ طلباء زخمی یا گرفتار ہوں یا پولیس اہلکاروں کو چوٹ آے ؟ دونوں صورتوں میں فائدہ کس کو ہوا اور نقصان کس کو ؟ جہاں تک بات رہی میری ڈی سی مسعود الرحمان پر تنقید کی تو میں اسے اپنا حق سمجھتا ہوں۔ ہمارا ذاتی تعلق بھی اچھا ہے۔ ماضی میں موصوف کے کئی اچھے اقدامات کی بھی کھل کر حمایت کرتا رہا ہوں۔ لیکن ان کا کام اور نوکری انتظامی معاملات کی سرپرستی اور میرا کام قلم ۔ کی بورڈ کیمرے کے ذریعے حقائق کی نشاندہی کرنا۔ ہم دونوں کو اپنے کام سے مخلص رہنا چاہیے نہ کے ذاتی تعلقات کی وجہ سے ڈنڈی مارنی چاہیے۔

میڈیکل کالج حکام ہوں یا محکمہ صحت کے سیکرٹری کا حکم ۔ وہاں امن وامان قائم رکھنا اور معاملات پرقابو پانے کی ذمہ داری ڈی سی کی سربراہی میں انتظامیہ پر تھی۔ سیکرٹری صحت یا کالج حکام کی سن کر انہوں نے پولیس گردی تو کرا لی لیکن سیکرٹری صحت جو طلباء کے احتجاج کے ذمہ دار بھی ہیں ان کو مذاکرات کیلیے لایا جانا چاہیے تھا۔ کالج کا مستقل پرنسپل تو سیکرٹری صحت نے چھ ماہ سے تعینات نہیں کیا۔ ایک نان پروفیشنل شخص کوذاتی یاری باشی پر قائم مقام پرنسپل کا چارج دے رکھا ہے۔ وہ قائم مقام پرنسپل ان دنوں چھٹی پر ہیں۔ وائس پرنسپل یا پروفیسرز کے بس میں ہوتا تو وہ چارسال سے ان مسائل کو کم کراچکے ہوتے۔ لیکن کالج میں اکثر لوگ تو تنخواہ دار دیہاڑی لگانے جاتے ہیں ۔

بات آتی ہے ڈی سی کی ذمہ داری اور فیصلے کی تو انہوں نے توڑپھوڑ۔ آنسو گیس ۔لاٹھی چارج کراکر سب کچھ برباد کرادیا۔ یہی کام اے ڈی سی یا اے سی کرادیتا تو معاملہ الگ تھا لیکن ڈی سی جو امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہو وہ خود ایسا کام کراے تو اس کی تعریفیں نہیں کی جاسکتی ۔ طلباء تو طلباء ہمارے میڈیا کے دوستوں کو بھی پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور زدوکوب کرتی رہی۔ کیاانتظامیہ نے پولیس کو میڈیا پر حملے کرنے بھی ٹاسک دے رکھا تھا؟

بات رہی کہ اسٹاف کو کالج میں قید کرلیا گیا تو اس میں زیادہ صداقت نہیں ۔ اگر کچھ لوگ اندر رہ گئے تھے تو وہاں جیل خانہ نہیں تھا۔ سینکڑوں طلباء باہر تپتی دھوپ میں احتجاج کر رہے تھے تو انہیں ایئرکنڈیشن میں کیا مسئلہ تھا۔ طلباء کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اس احتجاج سے پہلے انتظامیہ، میڈیا کو نہ آگاہ کیا اور نہ اعتماد میں لیا۔

ہاں اس بات کا میں گواہ ہوں کہ طلباء وطالبات پر امن تھے ۔ حالات کنٹرول میں تھے تب سیکریٹری صحت برگیڈیر طارق کا فون آیا اورڈی سی نے پولیس کے ذریعے معرکہ سر کرلیا۔ طلبہ تو طلبہ ہوتے ہیں ان کے مطالبات غلط اور درست بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں ۔یہ ویسے بھی میڈیکل کالج کے زیادہ تر دھوپ میں چھتری لینے والے برگر ٹائپ پڑھاکو بچے ہوتے ہیں۔ ان کا اور ڈگری کالج والوں کو ایک ہی تخریبی نظر سے دیکھنا مناسب نہیں۔ لیکن امن و امان قائم رکھنے کیلیے ریاست کی تنخواہ دار انتظامیہ کا ایسا اقدام ہرگز درست نہیں۔

آزادکشمیر بھر کے تعلیمی اداروں میں طلباء کا اس واقعہ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ چیف سیکرٹری کو آج سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹرآصف شاہ صاحب نے واقع کی مکمل رپورٹ جمع کرانی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بیوروکریٹ نے کس کو موردالزام ٹھہرایا اور چیف سیکرٹری کیا کارروائی کرتے ہیں ۔جو بھی تعلیمی و مالی نقصان ہوا میری نظر میں اس کی ذمہ داری سیکریٹری صحت ہے ،وائس پرنسپل ہے اور ڈی سی پر عاید ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے