جامعہ حقانیہ کو دی گئی امداد ۔۔ ایک جائزہ

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے دارالعلوم حقانیہ کو دی گئی امداد زیر بحث ہے اور سوال اٹھ رہاہے کیا اس امداد کا کوئی جوازموجود تھا ۔
ہر دو اطراف میں مورچے قائم ہو چکے ہیں اور جنگجو اپنے اپنے مورچے میں داد شجاعت دے رہے ہیں سیکولر حضرات اپنی نفسیاتی گرہوں کو کھول نہیں پا رہے ۔جہاں مذہب یا اہل مذہب کی بات آ جائے وہاں ان کے لیے توازن قائم رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔چنانچہ ایک دہائی ہے کہ بہت بڑا ظلم ہو گیا ۔حکومت نے اتنی بڑی غلطی کر دی کی ہمالہ رو رہا ہے اور اس کی آہیں سن سن کے سیکولر حضرات کا گداز بڑھتا جا رہا ہے۔ دیوبند کے وابستگا ن بھی ظاہر ہے اسی سماج کے فرزند ہیں ۔ وہ گروہی عصبیت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے اطمینان کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے جسے نوازا گیا ہے اس کا تعلق ان کے بھائی بندوں سے ہے۔تحریک انصاف کے وابستگان کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں گروہی عصبیت کے تقاضوں کے تحت اپنے ہر فیصلے کا دفاع کرنا ہے ۔ وہ اس سے بے نیا ز ہیں کہ فیصلہ درست ہے یا غلط۔ان کے ہاں تسلیم و رضا کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ یہ فیصلہ ان کی جماعت کا فیصلہ ہے۔۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مورچوں سے آنے والا بیانیہ ناتراشیدہ جذبات کی آسودگی کا سامان تو فراہم کر سکتا ہے لیکن علم کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔اس لیے ضروری ہے کہ عقیدت ، عصبیت اور نفرت سے بالاتر ہو کر معروضی انداز سے اس معاملے کا جائزہ لیا جائے۔
اس ضمن میں چند سوالات اہم ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کو امداد کیوں نہیں دی جا سکتی؟ قومی خزانے سے جدید تعلیمی اداروں کو نوازا جاسکتا ہے تو مدارس کو کیوں نہیں رقم دی جا سکتی؟ کیا مدارس میں زیر تعلیم بچے اسی سماج کا حصہ نہیں؟ قومی خزانے سے اہل صحافت سے لے کر جدید اداروں تک سب کو نوازا جا سکتا ہے تو مدارس کے ساتھ یہ دشمنی پر مبنی رویہ کیوں کہ ایک مدرسے کو امداد ملی اور احباب نے باجماعت گریہ شروع کر دیا؟ کیا یہ ایک مناسب اور صحت مند رویہ ہے۔ مذہبی پس منظر رکھنے والے بعض حضرات نے بھی کہا مدارس کو حکومتی امداد نہیں لینی چاہیے اس سے ان کی ایماندارانہ رائے متاثر ہوتی ہے۔یہ طعنہ سیکولر حضرات نے بھی دیا۔اب سوال یہ ہے کہ باقی تمام ادارے سرکاری امداد لے کر معتبر رہتے ہیں۔این جی اورز کے خواتین و حضرات بیرون ملک سے امداد لے کر بھی معتبر رہتے ہیں اور ان کی آراء بھی ۔۔۔ لیکن مدرسہ کو رقم مل گئی تو شور مچ جاتا ہے۔
دارلعلوم حقانیہ پر ایک الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردوں کی نرسری ہے اور بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کا پروگرام یہاں بنا۔جلال الدین حقانی سے لے کر ملا منصور تک یہاں کے فارغ التحصیل تھے۔یہ الزام انتہائی سطحی ہے۔جہاں تک بے نظیر بھٹو کے قتل کا تعلق ہے یہ دارالعلوم حقانیہ کی بساط سے کہیں بڑا معاملہ تھا اور اس میں بے نظیر بھٹو کے چیف پروٹوکول آفیسر پی پی پی کے اپنے وزرائے کرام پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔پی پی پی کی انگلی مشرف صاحب کی طرف اٹھ رہی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ سے ایک ٹیم آتی ہے اسے مشکوک لوگوں کا انٹرویو ہی نہیں کرنے دیا جاتا ۔۔۔۔اس عالم میں بغض کی جگالی کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ کا نام اگر کوئی لیتا ہے تو وہ اپنی بیمار نفسیات کی تسکین تو کر سکتا ہے لیکن اس الزام کی صحت کا یقین کرنا نا ممکن ہے۔پرائیویٹ جہاد کی پالیسی جامعہ حقانیہ کی نہیں ریاست اور ریاستیہ اداروں کی تھی۔ باقی تو سب ہو گئے پاک صاف اور تعزیر کے لیے ایک ادارے دارالعلوم ھقانیہ کو چن لینا یہ کہاں کا انصاف ہے۔صورتحال اس وقت انتہائی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب وفاقی وزیر بھی اس مدرسے کے حوالے سے معترض ہوتے ہیں۔ سب سے افسوسناک بیان جناب پرویز رشید کا تھا کہتے ہیں : ’’ عمران ایک طرف بلاول کو کنٹینر پر بلاتے ہیں دوسری طرف بے نظیر کے قاتلوں کو تیس کروڑ روپے دے دیتے ہیں۔بلاول اس بات کو سمجھیں عمران خان ان کے ساتھ ہیں یا محترمہ کے قاتلوں کے ساتھ ‘‘۔یہ اتنا زہریلا بیان ہے کہ دریائے سندھ میں ڈال دیا جائے تو اس کا پانی کڑوا ہو جائے۔کیا یہ ایک سنجیدہ آدمی کا اسلوب گفتگو ہے کہ ایک بہت بڑے مدرسے کو بے نظیر کا قاتل کہہ کر پکارا جائے۔اگریہ مدرسہ بے نظیر بھٹو شہید کا قاتل ہے تو پرویز رشید صاحب بتائیں یہ مدرسہ ابھی تک وفاقی حکومت نے بند کیوں نہیں کیا؟وزیر محترم کے پاس واقعی شواہد ہیں تو ان کی بنیاد پر کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ ان کے تو فرائض منصبی کا حصہ تھا کہ اس مدرسے کو بند کروا دیتے۔حیرت ہے مدرسہ تو کام کر رہا ہے اس پر پرویز رشید صاحب کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن چونکہ یہ امدادی رقم عمران خان کی حکومت نے دی ہے اس لیے صاحب نے فرض منصبی سمجھتے ہوئے اس کام میں کیڑے نکالنے تھے جو نکال دیے۔اگر دلیل اور سنجیدگی کا معیار یہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔سوشل میڈیا پر خبریں آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم کے باتھ روم پر کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش ہو رہی ہے۔وزیر اطلاعات اس کی تو تردید نہیں کر سکے ۔جامعہ حقانیہ کو قاتل بنا دیا۔زہے نصیب۔
البتہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔کچھ سوالات اور بھی ہیں۔
مثلا۔۔۔۔
عمران خان اور ان کا وزیر اعلی جواب دے کہ یہ نوازش صرف ایک مدرسے کے ساتھ کیوں؟ کیا یہ سچ ہے کہ مذہبی حلقے میں مولانا فضل الرحمن کے حریف ہونے کی وجہ سے مولانا سمیع الحق صاحب عمران خان کی عنایات کے مستحق ٹھہرے۔اور مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف مذہبی بنیاد پر جو مہم چلائی ہوئی ہے یہ اس کا توڑ کرنے کی ایک کوشش ہے کہ دیوبند میں سے ایک حلقے کو نوازا جائے تا کہ مولانا فضل الرحمن کی تنقید کا اثر ممکن حد تک کم کیا جائے۔نواز شریف اپنے انداز میں اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو نواز تے رہے ۔عمران نے اپنے انداز سے اس کار خیر کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ دونوں میں فرق کیا ہے۔دونوں ہی مغل اعظم ہیں ۔جنگل کے بادشاہ ۔جسے چاہیں نواز دیں۔نہ کوئی قاعدہ نہ کوئی اصول۔عمران خان اور ان کا وزیر اعلی وضاحت فرمائیں کس اصول کی بنیاد پر ایک مدرسے پر نواز شات کی گئیں۔صوبے میں اور مدرسے بھی تو ہیں۔دینی جذبہ ہوتا تو سب کے لیے کوئی پالیسی لائی ہوتی۔صرف ایک کی ناز برداریوں بتا رہی ہیں کہ مزاج اور دیانت کے اعتبار سے عمران خان بھی وقت آنے پر نواز شریف سے کم نہیں نکلیں گے۔اقربا ء پروری ، سیاسی رشوت وعنایات کے خلاف شور مچاتے ہیں لیکن وقت آنے پر خود اسی گنگا میں نہاتے ہیں۔
وہی جان ایلیا والی بات:
’’ محبت بری ہے ، بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں ،کیے جا رہے ہیں ‘‘
تو کیا عمران کان کی کہانی بھی بس اتنی ہے کہ کہے جا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کیے جا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے