مذہب برائے فروخت

یہ صرف رمضان المبارک کی خصوصی ٹرانسمشین کی بات نہیں ہے ہم نے مذہب کو ہر تہوار پر ہر موقع پر رسوا کیا ، رمضان المبارک ہو یا محرم الحرام، لیلتہ القدر ہو یا بارہ ربیع الاول ، عید ہو یا شب برات ، ہمارے ٹی وی چینلز نے صرف چند مخصوص چہروں اور بہروپیوں کے زریعے ان تہواروں کو بیچا ، ایک ہی شخص انٹرٹینمنٹ کا شو کرتا ہے وہی شخص رمضان میں اسلام سکھاتا ہے عام دنوں میں ناچ گانا سکھاتا ہے بارہ ربیع الاول پر نعتیں پڑھتا ہے محرم الحرام میں سیاہ کپڑے پہن کر نوحہ خواں ہوتا ہے لیلتہ القدر پر رو رو کے دعائیں کراتا ہے ، ہم لوگ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے کیوں کہ وہ ایک مشہورکہاوت ہے کہ ہمارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے
میں نے گزشتہ تین سے چار روز میں صرف اس آرٹیکل لکھنے کے لیے تقریبا ہر ٹی وی چینل کی سحری اور افطار ٹرانسمیشن دیکھی اور اس کا جائزہ لیا ، ہم رمضان المبارک میں اپنے مذہب کو موٹرسائیکل ، کار ، عمرے کے ٹکٹ ، جام شیریں کی بوتل ، رائل فین کے ڈبے ، کیو موبائل کے بدلے بیچ رہے ہیں ، جیسے ہمارا مذہب ان پروگراموں میں رسوا ہو رہا ہے ہمیں کسی اور اسلام دشمن کی تو ضرورت ہی نہیں ہے میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ہوں نہ میں عالم ہوں ، میں بہت لاعلم ہوں لیکن اتنا علم مجھے بھی ہے کہ رمضان المبارک کا اصل مقصد کیا ہے یہ بے ہنگم شو اور ایک دوڑ لگی ہے بڑے سے بڑے سٹوڈیو بنانے کی ، زیادہ سے زیادہ انعام دینے کی ، بغیر کسی وجہ کے انعام دینے کی ، زیادہ سے زیادہ موٹر سائیکل دینے کی ، بس ہماری افطاری و سحری ہو گئی ہمارا روزہ پورا ہو گیا اور ٹی وی چینلز نے ایک ماہ میں کروڑوں روپے کما لیے ، ٹی وی اینکرز کی رمضان المبارک کے ماہ کے دوران خصوصی طور پر بولی لگتی ہے جو جتنے اشتہار لے کر آتا ہے جو جتنے بڑے بجٹ کے ساتھ پروگرام کرتا ہے وہی کامیاب ہے
حمزہ علی عباسی نے ایک اہم ایشو پر پروگرام کیا تو پیمرا نے وہ بند کر دیا ، مجھے سمجھ نہیں آتی کی متنازعہ یا حساس معاملات پر گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ، اس سے معاشرے میں کم از کم یہ تو آگاہی ہوتی ہے کہ کون غلط ہے کون صحیح ہے اور کس کو کیا حق حاصل ہے ، ہمارے رمضان کے دوران کسی ٹی وی چینل پر ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ رمضان میں دوسروں کی مدد کیسے کرتے ہیں ، ایک ہی گلی کے ایک کونے میں افطار ڈنر چل رہے ہیں تو دوسرے کونے میں کسی گھرمیں کھانے کو کچھ نہیں ہے ، ہمیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ عید پر کیسے غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، کوئی ٹی وی چینل تھرپارکر میں جا کر رمضان ٹرانسمشن کیوں نہیں کرتا ؟ ان بچوں کے ساتھ جن کی زندگی ہی تین ماہ ہے یا چھ ماہ بس اس کے بعد پانی اور کھانے کے بغیر انہوں نے مر جانا ہے کیا عامر لیاقت وہاں پاکستان کا سب سے بڑا سٹوڈیو بناتا وہاں جا کر پروگرام کرتا اور وہاں کے بچوں کو فہد مصطفی انعام دیا اور ان کو انعام کی بھی ضرورت نہیں ہے صرف پانی کی اور دودھ کھانے کی ضرورت ہے ،
میڈیا میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے بڑا سٹوڈیو، زیادہ انعام اور زیادہ لوگ بلا کر ، اور مہمان کون وہی اداکار ، گلوکار اور مشہور شخصیات جو عام دنوں میں انہی پروگراموں میں ڈانس کر رہی ہوتی ہیں وہی شخصیات اب نعتیں پڑھ رہی ہیں اور مذہب کا درس دیے رہی ہوتی ہیں
پتہ نہیں کب ہمارے یہ اینکر اور میزبان دوسروں کو کاپی کرنا ان کو فالو کرنا اایک دوسرے کے پیچھے چلنا چھوڑ دیں گے اور خود سے سوچیں گے کہ کیا غلط ہے کیا درست ہے ، اور انہیں کیا کرنا چاہیے ، ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں ان کا اپنا کوئی وژن نہیں ہے ، رمضان المبارک پر تو اتنے اہم اور بڑے بڑے غریب لوگوں ، نادار بے کس ، بے سہارا ، بے گھر لوگوں کے لے پروگرام کیے جا سکتے ہیں کہ معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آ جائے لیکن ہم اس طرف نہیں چلتے ہمیں ریٹنگ کا مسئلہ ہے پیسہ کمانا ہے ، ہمارے مذہب نے ایک پورا مہینہ ہمیں تحفے میں دیا ہے اس اہم ترین ماہ مقدس میں ہم اپنا چورن نا بیچیں مذہب کو نہ بیچیں تو کیا کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے