شکریہ امجد صابری

میں لالو کھیت ہوں ۔ جس کا ذکر ’ اشرافیہ ‘ کے لبوں پر آتا ہے تو بھنوئیں ناگواری کے ساتھ چڑھ جاتی ہیں۔ جو یہاں کے باسیوں کو کسی دوسرے جہاں کی ’مخلوق ‘ سمجھتے ہیں۔ بلکہ کچھ تو ’ لالو کھیتی اسٹائل ‘ کہہ کر ایک دوسرے کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ مگر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مجھے کوئی احساس کمتری نہیں ہوتی ۔ یہاں کے رہنے والے میرے اپنے ہیں۔ جن کی محبت اور پیار میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی ۔ جو یہاں کی گلیوں سے یہاں کے مکانوں سے اور یہاں کے مکینوں سے الفت کی ڈوری سے بندھے ہیں۔ ۔ذرا سا کھڑکی سے یا پھر دروازے سے آواز لگاتے ہیں کہ پورا محلہ ، خاندان بن جاتا ہے ۔ جو اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ علاقے نہیں لوگوں کی محنت، خلوص ، ان کا فن اور کام انہیں بڑا بناتا ہے ۔ میں نے کئی مشکل حالات بھی دیکھے ۔میرے یہاں سے کئی ’انقلابی مذہبی اور سیاسی ‘ تحریکیں چلیں ۔ کرفیو ، جلاؤ گھیراؤ ، پتھراؤ ، قتل و غارت گیری اور نجانے کیا کیا ۔۔ مگر مکینوں کاپھر سے جی اٹھنے کی امنگ کا جذبہ دیکھ کر رشک آتا ہے۔ یہاں کبھی راتیں دن لگتی ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دن ، سونا سونا اداسی بھرا اور ویران ۔۔ کئی نسلوں کو جواں ہوتادیکھا ۔ ان میں کوئی دانش ور بنا ، کوئی عالم بنا ، کوئی سیاست دان تو کوئی فن کار ۔سب سے میرا عجب سا رشتہ بنا ہے ۔ کچھ تو ایسے ہیں جو مجھے ’ الوداع‘ کہہ کر ہجرت کر گئے لیکن اب بھی کئی ایسے ہیں جن کی جڑیں کمزور نہ ہوئیں۔ جنہوں نے مجھ سے ناطہ نہیں توڑا ۔ اور توڑے بھی کیسے اتنی محبت ، اتنی چاہ ، اتنی اپنائیت بھلا کسی کو کہیں اور کہاں ملنی والی ہے ۔ مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ کوئی گلہ نہیں۔ جو ہیں ان سے اور جو یہاں نہیں رہے ان سے بھی نہیں۔ آخر وہ کہیں نہ کہیں میرا ذکر کرتے ہیں تو مجھے اپنی پہچان بتاتے ہیں تو انجانا سا فخر ہوتا ہے ۔میرے لیے تو یہی بہت ہے ۔ میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں گوہر نایاب امجد صابری کو ۔۔۔ والد کو دیکھا وہ بھی بس میرے ہی گن گاتے ۔ اور پھر بیٹے بھی نقش قدم پر چلا ۔۔ہنستا مسکراتا آتا ۔کبھی پیدل تو کبھی سواری پر ۔ کبھی پان والے سے چھیڑ خانیاں۔ تو کبھی کسی چھٹکو کا بلا پکڑ کر پھر سے مجھے اپنے بچپن کی یاد دلاتا ۔ کبھی چائے کی بیٹھکیں لگاتا ۔ تو کبھی ڈبو کی محفلیں۔ گھر سے قوالی کی آواز آتی تو سکون کا احساس ہوتا ۔ وجد آفرین کلام گونجتا تو بڑا ہی بھلا لگتا ۔ مگر اب وہ نہیں رہا ۔اداس کر گیا مجھے ، اس محلے کو ، یہاں رہنے والے کو ۔ تنگ گلیوں میں اب ان لمبی لمبی عالی شان گاڑیوں کے قافلوں کا آنا جانا لگا ہے ۔ وہ چہرے نظر آرہے ہیں جنہوں نے زندگی میں بس میرا تصور کیا تھا ۔ دیدار کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ جو یہاں کے مکینوں کودوسرے جہاں کی ’ مخلوق ‘ سمجھتے تھے آج انہی کے سنگ کھڑے ہیں۔ یہاں کے ٹوٹے پھوٹے ‘ کچے پکے مکانوں کی چوکھٹوں سے پیدل گزر رہے ہیں تو حیرت مجھے بھی ہورہی ہے ۔یہ تو وہی لوگ ہیں جو مجھ سے برسوں سے انجان بنے بیٹھے تھے ۔ تنگ گلیوں میں رہنے والے کشادہ ذہن باکمال لوگوں کو قریب سے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے تھے ۔ آج وہی محلوں اور وسیع و عریض بنگلوں میں رہنے والے میرے مہمان بنے ہیں۔ ایک’ فن کار‘ نے کیسے فاصلوں کو سمیٹ دیا ۔ کیسے لا کھڑا کیا کلف لگے ، ولایتی پرفیوم کی مہک والے ، مہنگے مہنگے لباسوں والے ، پروٹوکول کے عادی ’صاحب اقتدار‘ کو میرے در پر ۔ جو میرے اپنے ہوتے ہوئے بھی مجھ سے بے گانے تھے ۔ مجھے بھی تو ان کا دیدار کرنے کا ایک موقع دے ہی دیا امجد تم نے ۔۔ شکریہ امجد صابری ۔۔۔!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے