فاطمہ الفہری اور کیو موبائل کی سارہ۔

دنیا بھر کی این جی اوز اور ہمارے ملک کے سابقہ سوشلسٹ اور موجودہ سیکیولرز اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستانی معاشرے کے خدوخال بدل کر رکھ دیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیوں پاکستانیوں کی بنیادی سوچ و فکر کو بدلنا چاہتے ہیں؟ اور وہ کیوں اس سے اس قدر خائف ہیں؟

جی ہاں یہ بہت اہم سوال ہے اسے جاننا بہت ضروری ہے ۔ جب ہم بنیادی سوچ اور فکر کی بات کرتے ہیں تو اس کا تعلق کسی طور پر بھی پاکستان کے موجودہ منتشر اور اخلاقی طور پر زوال پزیر معاشرے سے نہیں بلکہ اُس فکر اور نظریے سے ہے جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا وہ گرم لہو ہے جس کی گرمی آج ستر سال بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں کتنے ہی مہم جو آئے اس کے خدو وخال بدلنے لیکن اپنے منہ کی کھا کر گئے مگر پاکستانوں نے اپنا نظریہ نہیں بدلہ۔

ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نعرہ لگایا لیکن گیارہ سال بعد وہ اوراُ ن کی بنیادی جمہوریت ہمیشہ کے لیے گہری نید سو گئے۔ ایوب کے بعد ذولالفقار علی بھٹو آئے اپنے اسلامی سوشلزم کے ساتھ لیکن سات سال بعد ہی اس قوم نے انہیں اور اُن کے سوشلزم کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ بھٹو کو پھانسی دینے والا جنرل ضیاء سوشل ازم کے مقابلے پر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہتا ہوا اپنا ضیائی اسلام لایا جو ٹھیک گیارہ سال بعد اُس کے جبڑے سمیت اسلام آباد کے ایک چوراہے پر نشان عبرت بنا دفن ہے۔

لیکن مہم جوؤں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ضیاء کی باقیات بے نظیر اور نواز شریف کی شکل میں آتی اور جاتی رہیں لیکن اس قوم نے اپنے پاکستانی نظریے کو تبدیل نہیں کیا جہاں کرپٹ سیاستدان طبع آزمائی کرتے رہے وہیں فوجی کوڑھ مغزوں نے بھی اس قوم کو نت نئے نظریوں سے بے وقوف بنانے کی کوشش کی، پرویز مشرف صاحب آئے اُنہوں نے قوم کو روشن خیال بنانے کا نعرہ لگایا اور دس سال بعد اس کام کے معاوضے کے طور پر تین چار ارب ڈالر پیٹے اور بے وفا قوم سے ناراض ہو کر آج کل دبئی میں آرام فرما رہے ہیں۔

غرض یہ کہ اس قوم نے پاکستانیت کے مقابلے میں کسی جمہوریت کسی سوشلزم، کسی فوجی اسلام اور کسی روشن خیالی کو قبول نہیں کیا ۔ اب اس کام کا بیڑا بین الاقوامی این جی اوز نے اُٹھایا ہے کہ وہ ہمارے معاشرےکے بنیادی خدو خال بدلیں گے نا جانے کس بےوقوف نے ان این جی اوز کو فنڈز فراہم کرنے والوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ یہ بکاؤ مال اس قوم کے خدو خال بدل ڈالے گا۔

میں این جی اوز کے لیے کام کرنے والےمقامی کارندوں کی اس لیے مخالفت نہیں کرتا کہ یہ ان کی روزی روٹی کا مسلہء ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اس قوم کے خمیر میں ایسی کیا بات ہے کہ اپنے اور پرائے، فوجی ڈنڈے والےاور کرپٹ سیاستدان، ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک جاگیردار اور وڈیرےسب مل کر اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں اوریہ نا صرف زندہ ہے بلکہ ایک ایک کر کہ ان کو کیفر کردار تک بھی پہنچا رہی ہے۔

اگر آپ اس قوم کے بنیادی خدو خال کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو۸ اکتوبر دو ہزار پانچ جیسے ایک اور زلزلے کا انتظار کیجئے جب خپلو سے لیکر گوادر تک اور شمالی وزیرستان سے لیکر نگرپارکر تک یہ قوم یک جان اور اٹھارہ کروڑ قلوب میں ڈھل گئی تھی ۔ اور اس قوم کا روشن خیالی صدر اپنے اسلام آباد کے صدارتی محل میں اس بات سے اگلے دن تک بے خبر تھا کہ اُس کی ایک ڈویژن فوج کشمیر میں زلزلے میں دھنس چکی ہے۔جی ہاں یہ وہی قوم ہے جو بلا تفریق نسل و فرقہ اور علاقائی تعصب اپنے ہی ملک کے ایک حصے پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت سے نبرد آزما ہونے کے لیے دیوانہ وار اپنے گھروں سے نکل پڑی تھی۔

ایسا کیوں ہوا تھا ؟ اس لیے کہ ایسا اس قوم کے خمیر میں موجود ہے۔ انیس سو اڑتالیس میں جب یہ قوم پیدا ہوئی تھی تو اس کے کان میں ایک ایسےکلمے کی اذان دی گئی تھی جس نے اسے ایک ایسےنظریاتی بندھن سے باندھ دیا ہے جسے اب کوئی مائی کا لال نہیں توڑسکتا۔ اور اذان دینے والے سیالکوٹ کےعلامہ اقبال، علی گڑھ کے سرسید احمد خان اور کاٹھیا واڑ کے قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ اُن کی اذانوں سے پورا برصغیر گونج اُٹھا تھا۔ اس قوم کی آبیاری کرنے والے کوئی معمولی لوگ نہیں تھے ایک جم غفیر تھا دانشورں ، علماء اور سیاستدانوں کا جو صیح معنوں میں سچےعلماء و دانشور تھے۔خود سوچیے جب قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنایا جائے گا تو کیا یہ بات باقی دنیا کے لیے قابل قبول تھی؟

بھارت نے روز اول سے پاکستان کو قبول نہیں کیا تھا پہلے کشمیر پر قبضہ پھر لاہور پر چڑھائی پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اُس نے کوئی موقع پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا نہیں چھوڑا اور اب وہ ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں عورتوں کی آزادی کا سبق پڑھا رہا ہے۔ اس بار سارہ صاحبہ آئی ہیں اپنے کیو موبائل کے ٹینک پر بیٹھ کر اس قوم کو فتح کرنے ۔

کیا سچ مچ سارہ ہماری قومی ساخت اور رویوں کو بدل دے گی؟ کیا ہماری بچیوں کا مسلہء کرکٹ کھیلنا اور ابا کی نا سننا ہی رہ گیا ہے؟ آج مجھے نو سو سال پہلے کے مراکش کی فاطمہ الفہری یاد آ رہی ہے جس کے مالدار تاجر باپ نے اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ الفہری سے پوچھا کہ بیٹی اپنی کسی خواہش کا اظہار کرو میں آج تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کے وسائل رکھتا ہوں تو اُس بیٹی نے باپ کی بات پوری توجہ سے سنی اور کہا باب مجھے ایک درسگاہ بنانی ہے جو میری قوم کے لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کرے۔

باپ نے اپنی بیٹی کی خواہش کو پورا کیا اور تاریخ نے دیکھا کہ مدرسہ الزیتونیہ کی شکل میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا قیام وجود میں آیا اور وہاں مسلمانوں ہی نے نہیں یوروپ کے عیسائیوں نے بھی علم کی روشنی سے دنیا کو منور کیا۔ اگر کیو موبائل والے میمن سیٹھ کی کوئی بیٹی ہے اور وہ اپنے باپ کی بات بھی سنتی ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس سے کم از کم ایک بار اُس کی خواہش پوچھے مجھے پورا یقین ہے کہ وہ فاطمہ الفہری کے نقش قدم پر چلے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے