کیا جمہوریت میں ہم آزاد ہیں؟(مکمل پانچ حصے)

ایڈروڈ برنیز دنیا کے وہ پہلے شخص تھے، جنہوں پروپیگنڈا کی بجائے پبلک ریلشنز یا پی آر کی اصطلاع متعارف کروائی تھی۔ یہ وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے خواتین کو سیگریٹ پلانے کا تجربہ کیا تھا۔ یہ وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے عوام یا یجوم کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کی بنیاد رکھی تھی۔ بیسویں صدی پر ایڈروڈ برنیز کا اثر سگمنڈ فرائیڈ سےکم نہیں ہے لیکن بہت ہی کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ آج کے اشتہارات، بل بورڈز، ایڈورٹائزنگ کمپنیاں سبھی ایڈروڈ برنیز کے دماغی بطن سے نکلی ہیں۔

عوام یا ہجوم کو کنٹرول کرنے کے طریقے ایجاد کرنے والے اس ماسٹر مائنڈ کا ایک قول ہے، ’’عوام کی منظم عادات کو تبدیل کرنا، ان کی رائے سازی اور دماغ سازی کرنا جمہوری معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے۔ جو معاشرے کے اس ان

ایڈروڈ برنیز
ایڈروڈ برنیز

دیکھے میکنیزم کو کنٹرول کرتے ہیں، اصل میں وہ ہی غائبانہ طور پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ غائبانہ حکومت برسر اقتدار حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔

معاشرے کو منظم جمہوری انداز میں چلانے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر حکومت کی جاتی ہے، ہمارے ذہنوں کے سانچے بنائے جاتے ہیں، ہمارے ذوق تشکیل دیے جاتے ہیں اور ہمارے خیالات تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ افراد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سنا ہی نہیں ہوتا۔‘‘

خواتین نے سیگریٹ پینے کیسے شروع کیے؟
[pullquote]

ایک صدی پہلے یہودی نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی فطرت سے متعلق ایک نیا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کے لاشعور میں ایسی جنسی اور جارحانہ قوتیں چھپی ہوئی ہیں، جنہیں اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ معاشرے میں افراتفری اور تباہی پھیلا دیتی ہیں۔

اس تھیوری کا سب سے زیادہ فائدہ ان کے امریکی بھتیجے ایڈروڈ برنیز نے اٹھایا۔ برنیز وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے

سگمنڈ فرائیڈ
سگمنڈ فرائیڈ

فرائیڈ کی تھیوری کو عوام کو قابو یا عوام کی دماغ سازی کے لیے استعمال کیا۔

برنیز نے پہلی مرتبہ امریکی کاروباری اداروں کو یہ راستہ دکھایا کہ کس طرح مصنوعات کو لوگوں کی لاشعوری خواہشات سے جوڑا جا سکتا ہے اور انہیں وہ اشیاء یا مصنوعات خریدنے پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے، جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔

ایڈورڈ برنیز امریکا میں پریس ایجنٹ تھا۔ اس کی عمر ابھی چھبیس برس تھی کی اسے امریکی صدر ووڈرو ولسن کے ساتھ پیرس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیج دیا گیا کیوں کہ بیرنیز نے وہ مہم انتہائی کامیابی سے چلائی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ امریکا یورپ کو ایک نیا جمہوری نظام دے سکتا ہے اور صدر ووڈرو ولسن ان کے نجات دہندہ ہو سکتے ہیں۔

1991ء میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بیرنیز کہتے ہیں کہ اس سفر سے واپسی پر ’’میں نے سوچا کہ اگر پراپیگنڈہ کو جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو اسے دوسرے مقاصد یا امن کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پراپیگندا کا لفظ جرمن استعمال کر رہے تھے اور یہ منفی بھی تھا لہذا ہم نے ’کونسل آف پبلک ریلیشنز (پی آر)‘ کا لفظ تلاش کیا۔‘‘

اس کے بعد بیرنیز نے نیویارک میں ’عوامی تعلقات کونسل‘ کے نام سے ایک دفتر کھولا اور اس اصطلاع کا پہلی مرتبہ عوامی استعمال کیا گیا۔

اس دوران سگمنڈ فرائیڈ انسانی فطرت سے متعلق اپنی نئی تھیوری پر مبنی کتاب بیرنیز کو بھیج چکے تھے اور بیرنیز کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہتے تھے، جس سے ثابت ہو کہ انسان کی لاشعوری خواہشات سے کھیلا جا سکتا ہے، انہیں اپنی مرضی سے ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

ایڈروڈ برنیز کا سب سے متنازعہ اور ڈرامائی تجربہ خواتین کو سیگریٹ نوشی کے لیے قائل کرنا تھا۔ اس وقت امریکا میں خواتین کے لیے سیگریٹ نوشی شجر ممنوعہ تھی۔ ایڈروڈ برنیز کا دوست جارج ہل امریکن ٹوبیکو کارپوریشن کا صدر تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ برنیز سے کہا کہ اس ٹابو کو توڑنے کا کوئی طریقہ تلاش کرو۔

ایڈورڈ برنیز اپنے 1991ء کے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’وہ اپنی مارکیٹ کے پچاس فیصد حصے سے محروم ہو رہا تھا کیوں کی عوامی جگہوں پر خواتین کا سیگریٹ پینا شجر ممنوعہ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے میں نفسیاتی تجزیہ کرواؤں گا کہ عورت کے لیے سیگریٹ کی اہمیت کیا ہے پھر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ اس پر

ایڈروڈ برنیز کا سب سے متنازعہ اور ڈرامائی تجربہ خواتین کو سیگریٹ نوشی کے لیے قائل کرنا تھا
ایڈروڈ برنیز کا سب سے متنازعہ اور ڈرامائی تجربہ خواتین کو سیگریٹ نوشی کے لیے قائل کرنا تھا

کتنی رقم خرچ ہو گی۔ میں نے اس وقت نیویارک کے سب سے اعلیٰ نفسیات دان ڈاکٹر بریلے کو فون کیا۔ ڈاکٹر بریلے امریکا کے اولین نفسیات دانوں (ماہرین تحلیل نفسی) میں سے ایک تھے۔ اس نے بہت زیادہ فیس لی اور خواتین کے انٹریوز لیے اور یہ بتایا کہ خواتین اسے عضو تناسل اور مردانہ جنسی طاقت کی نشانی سمجھتی ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر تم سیگریٹوں کو کسی ایسے طریقے سے پیش کروں کہ جس سے مردوں کی طاقت چیلنج ہو تو خواتین سیگریٹ پینا شروع کر دیں گی۔‘‘

نیویارک میں ہر سال ایسٹر ڈے پریڈ ہوتی تھی اور اس میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔ بیرنیز نے وہاں ایک ایونٹ اسٹیج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خوبصورت نوجوان خواتین کے ایک گروپ کو سیگریٹ دیے گئے کہا گیا کہ وہ انہیں اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا لیں اور پریڈ میں شرکت کریں۔ اور جب انہیں اشارہ کیا جائے تو وہ سیگریٹ سلگا کر پینا شروع کر دیں۔

دوسری جانب بیرنیز نے پریس والوں کو آگاہ کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم خواتین کا ایک گروپ احتجاج کرنے والا ہے اور یہ احتجاج وہ ’آزادی کی شمعیں‘‘ جلا کر کریں گی۔

پبلک ریلیشنز کے شعبے میں بیرنیز کے مشیر اور ساتھی پیٹ جیکسن اس تجربے کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’بیرنیز جانتا تھا کہ اس حرکت کے خلاف شور اٹھے گا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صحافی ’’آزادی کی شمعوں‘‘ کی تصاویر لینے ضرور آئیں گے۔ وہ آزادی کی شمعیں جیسا محاورہ تشکیل دینے کے لیے تیار تھا۔ ایک طرف ایک علامت تھی، نوجوان خواتین تھیں، ماڈرن تھیں، سر عام سیگریٹ پی رہی تھیں، جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ جو کوئی بھی مرد و خواتین کی برابری پر یقین رکھتا ہے، اسے اس عمل کی حمایت کرنی ہو گی، اس سے متعلق ہونے والی بحث اور آزادی کی شمع کی حمایت کرنی ہو گی۔ ہم امریکیوں کا نعرہ کیا ہے ۔۔ آزادی ہے۔ مجسمہ آزادی کے ہاتھ میں بھی تو ایک شمع ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس نقطے پر سب کچھ جمع کر دیا گیا تھا۔ جذبات، ماضی کی یادیں اور آزادی جیسا محاورہ، ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا تھا۔ تو اگلے دن یہ موضوع اور تصاویر صرف نیویارک ہی نہیں بلکہ امریکا اور دنیا کے اخبارات میں تھیں۔ اس کے بعد سے سیگریٹوں کی فروخت میں اضافہ ہوتا گیا۔ برنیز نے صرف ایک علامتی طریقے سے اس کو سماجی سطح پر قابل قبول عمل بنا دیا تھا۔‘‘

بیرنیز نے اس طرح ایک نیا آئیڈیا تشکیل دیا تھا کہ سیگریٹ پینے سے خواتین مزید طاقتور اور آزاد ہو جائیں گی۔ ایک آئیڈیا جو آج تک موجود ہے۔ اس تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ لوگوں کو غیر عقلی رویہ اپنانے پر قائل یا مجبور کیا جا سکتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات کو مصنوعات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کیا سیگریٹ پینے سے خواتین مزید آزاد ہو جاتی ہیں؟ یہ خیال مکمل طور پر غیر عقلی ہے لیکن یہ ثابت کیا گیا کہ انسان کی احساسات یا جذبات سازی کی جا سکتی ہے اور وہ غیر عقلی اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

1948ء سے 1952ء تک بیرنیز کی کمپنی میں کام کرنے والے بیٹر سٹراؤس کہتے ہیں، ’’بیرنیز نے ایک ایسا نیا طریقہ تلاش کیا تھا، جس کے تحت عقل کو تو نہیں لیکن جذبات کو اشیاء بیچی جا سکتی تھیں۔‘‘

اس تجربے سے امریکی کاروباری حلقے بہت متاثر ہوئے اور برنیز سے یہ کہا گیا کہ وہ ایسے طریقے تلاش کرے، جن کے
تحت لوگوں کو ایسی اشیاء بیچی جا سکیں، جو بڑے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔

وال اسٹریٹ کے ایک بہت بڑے بینکر اور لہیمن برادرز سے منسلک پاؤل میسر بہت واضح تھے کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں، ’’ہمیں امریکا کو ضرورتیں پوری کرنے کی طرف سے خواہشیں پوری کرنے کے کلچر کی طرف لانا ہو گا۔ لوگوں کو یہ تربیت دینا پڑے گی کہ وہ خواہش کرنا سیکھیں اور پرانی اشیاء مکمل استعمال کیے بغیر نئی اشیاء خریدیں۔ ہمیں امریکا میں ایک نئی ذہنیت تشکیل دینا ہو گی۔ انسان کی خواہشات کو اس کی ضروریات پر ہاوی کرنا ہوگا۔‘‘
اور اس امریکی ذہنیت کو تبدیل کرنے والا مرکزی شخص ایڈروڈ برنیز تھا۔

لہمن برادرز کے اس انویسٹمینٹ بینکر کے مطابق اس وقت امریکی صارفین کی تعداد انتہائی کم تھی۔ صرف امریکی ورکرز تھے۔” اس وقت امریکی سرمایہ کاروں کو یہ فکر تھی کہ امریکا پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں تیار کی جانے والے مصنوعات کون خریدے گا؟ ان سرمایہ کاروں کو اب مقامی صارفین کی ضرورت تھی۔ ایک مرتبہ پھر برنیز کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے، نئے گھر، نئی کاریں، نئے کپڑے نئی مصنوعات بیچنے کا آغاز ہوا۔

’عوام یا ہجوم کو اوپر سے کنٹرول کیا جائے‘ (پارٹ ٹو)
[/pullquote]

بیس کی دہائی میں نیویارک کے بینکوں نے ملک بھر میں نئے ڈیپارٹمینٹل اسٹورز کی چینز کو فنانس کرنا شروع کر دیا۔ ان اسٹوروں پر بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اشیاء رکھی گئیں اور برنیز کو ایسے نئے صارفین تیار کرنے کا ہدف دیا گیا جو ان کو خریدیں۔

برنیز نے مختلف تجربات کرنا شروع کر دیے۔ برنیز کا ایک کلائنٹ ولیم رانڈولف ہوسٹ بھی تھا، جس نے اپنا خواتین کا میگزین پروموٹ کرنے کا کہا۔

بیرنیز نے میگزین میں گلیمر لانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ اداکاروں، ماڈلز اور مصنوعات کو ایک ساتھ میگزین میں لے آئے۔ بیرنیز نے پہلی مرتبہ فلموں اور اسٹیج ڈراموں میں وہ مصنوعات رکھنا شروع کر دیں، جن کی پروموشن کے لیے وہ کام کرتتے تھے اور اداکاراوں کو وہ کپڑے اور زیورات پہنانے شروع کیے جو وہ مارکیٹ میں بیچنا چاہتے تھے۔

پہلی مرتبہ ٹی وی اسکرینوں پر یہ اشتہار چلے کہ کپڑے پرسنیلٹی کا اظہار ہوتے ہیں اور آپ اپنی چھپی ہوئی شخصیت کا اظہار مخصوص قسم کے لباس پہن کے کر سکتے ہیں اور ان اشتہاروں کا مقصد صرف نت نئے لباس بیچنا تھا۔
انیس سو ستائیس کے قریب امریکا میں صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ بھی ایک دم اوپر آئی۔
بیرنیز نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا اور عام لوگوں سے کہا کہ وہ بھی اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز خریدیں۔ بیرنیز کی اس نصیحت پر لاکھوں امریکیوں نے بینکوں سے ادھار لیتے ہوئے شیئرز خرید لیے۔ اس وقت بیرنیز بینکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا اور تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ عام شہریوں کو اسٹاک مارکیٹ کے کھیل میں شامل کیا گیا۔
بیرنیز اس وقت اس حوالے سے مشہور ہو چکا تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

1924 میں امریکی صدر کیلون کولج نے برنیز سے رابطہ کیا۔ صدر کی میڈیا میں شہرت اچھی نہیں تھی۔ پریس صدر کو بیووقوف اور مزاح سے نابلد صدر کے طور پر پیش کر رہی تھی۔ صدر نے بیرنیز کو کوئی حل نکالنے کا کہا اور اس نے وہی مصنوعات والا طریقہ اختیار کیا۔

برنیز نے ملک کے چونتیس فلم اسٹاروں کو وائٹ ہاوس میں مدعو کیا اور طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست اور پبلک ریلیشنز کے درمیان تعلق قائم ہوا۔ اگلے دن ملک کے تمام اخبارات میں صدر سے متعلق مثبت ہیڈلائنز لگی ہوئی تھیں ۔ مزاح اور زندگی سے بھرپور نظر آنے والا صدر سب کے سامنے تھا۔

بیس کی دہائی میں فرائیڈ کی کتاب امریکا میں چھپ چکی تھی اور اس نے نہ صرف صحافیوں بلکہ دانشوروں کو بھی متاثر کیا تھا۔ انہی میں ایک امریکا کے با اثر ترین پولیٹکل رائٹر والٹر لیپ مین بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی انسان کو اس کے ذہن میں چھپی ہوئیں غیر حقیقی اور لاشعوری قوتیں کنٹرول کرتی ہیں تو جمہوریت کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسی ایلیٹ ہونی چاہے جو اس عوام کے غیر حقیقی جذبات کو کنٹرول کرے۔
ایڈورڈ بیرنیز بھی لیپ مین کے ان دلائل سے متاثر ہوا کیوں اس طرح وہ خود اپنے اثرو رسوخ میں مزید اضافہ کر سکتا تھا۔ بیس کی دہائی میں بیرنیز نے نئی کتابیں لکھنا شروع کیں اور یہ دعوی بھی کیا کہ اس نے ہجوم کے لاشعور اور غیر

امریکا کے با اثر ترین پولیٹکل رائٹر والٹر لیپ مین تھے
امریکا کے با اثر ترین پولیٹکل رائٹر والٹر لیپ مین تھے

عقلی جذبات کو کنٹرول کرنے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں۔ ان طریقوں کو انجنئرنگ آف کانسِٹ کا نام دیا گیا۔

این بیرنیز اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں، ’’میرے والد کی نظر میں جمہوریت ایک خوبصورت خیال تھا لیکن انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ باہر سبھی انسان صحیح اور قابل اعتماد فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ آسانی سے کسی ایسے غلط شخص کو ووٹ دے سکتے ہیں جو غلط اقدام اٹھانا چاہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کو اوپر سے کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ ان کے اندرونی خوف سے اور ان کی اندرونی خواہشات سے کھیلتے ہوئے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

پھر 1928ء میں واقعی ایک ایسا امریکی صدر آیا، جو بیرنیز کے حق میں تھا۔ صدر ہوور وہ پہلے صدر تھے، جنہوں نے کہا کہ کنزیومرازم کو امریکی لائف کا مرکزی انجن ہونا چاہیے۔ اپنی حلف برداری کے تقریب کے بعد ان کا پبلک ریلیشنز اور ایڈورٹائزمنٹ کے ایک گروپ سے ملاقات کرتے ہوئے کہنا تھا، "اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم خواہشات پیدا کرو اور لوگوں کو ایک مستقل حرکت کرتی ہو مشینوں میں تبدیل کر دو۔ ایسی مشینیں جو معاشی ترقی میں چابی کا کردار ادا کریں۔”

بیسویں صدی میں شروع ہونے والا آئیڈیا جمہوریت کے ساتھ مل رہا تھا۔ ایڈورڈ بیرنیز اور لیپ مین کی تھیوری نے دنیا میں جمہوریت کو وہ رنگ دیا، جو اس سے پہلے موجود ہی نہیں تھا۔ اس جمہوریت میں کنزیومرازم (صارفیت) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

hooover

اس دوران ایڈروڈ برنیز امریکا کے بااثر ترین اور امیر افراد میں شمار ہونے لگا لیکن جلد ہی اس کی قائم کردہ سلطنت گرنے والی تھی اور اس انسانی عقل کے ذریعے جسے کنٹرول کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

1929ء کے اختتام پر برنیز نے لائٹ کلب کے پچاسویں سالگرہ منانے کے لیے بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔ صدر ہوور سمیت تمام بڑے امریکی بینکر وہاں موجود تھے۔ یہ امریکی بزنس کی طاقت کا جشن تھا لیکن اسی دوران یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے شیئرز ڈرامائی انداز میں گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ بیس کی دہائی میں بینکوں سے اربوں ڈالر ادھار لیے جا چکے تھے۔ بینکرز کے خیال میں یہ ایک نیا دور تھا جسے زوال نہیں آئے گا لیکن ان سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مارکیٹ کریش ہوا۔ سرمایہ کاروں نے خوف سے ہر چیز فروخت کرنا شروع کر دی اور 29 اکتوبر 1929ء کو مارکیٹ مکمل طور پر کریش کر گئی۔
اس مارکیٹ کریش کے اثرات انتہائی تباہ کن تھے۔ بیرنیز کا پیدا کردہ بوم زمین بوس ہو چکا تھا اور پبلک ریلیشنز کا شعبہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑنے گا۔

بے روزگاری اور مشتعل ہجوم کی وجہ سے امریکہ میں پوری کی پوری جمہوریت کو خطرہ لاحق تھا۔ عوام اپنا غصہ ان کارپوریشنز پر اتارنا چاہتے تھے، جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا تھا۔

جمہوریت اور کیپٹلزم کا جوڑ کب ہوا؟ (پارٹ تھری)
[pullquote]

امریکا میں جمہوریت کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سن 1932ء میں نئے امریکی صدر کا انتخاب کیا گیا، جس نے فری مارکیٹ کو ریاستی طاقت سے کنٹرول کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جمہوریت کی مخالفت کی بجائے ایک نئے طریقے سے اسے مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی دماغ سازی کرنے، ان کے لاشعور میں چھپی خواہشات اور جذبات سے کھیلنے کی بجائے عوام کے ساتھ ایک نئے طریقے سے ڈیل کیا جائے گا۔ اور یہاں سے ’’دا نیو ڈیل‘‘ تھیوری کا آغاز ہوا۔

روزویلٹ کا خیال تھا کہ فری سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی جدید معیشتوں کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس امریکی صدر کا خیال تھا ایک عام آدمی کو حکومتی پالسیوں سے متعلق بتایا جا سکتا ہے اور پالیسی سازی میں ان کی

صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جمہوریت کی مخالفت کی بجائے ایک نئے طریقے سے اسے مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا
صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جمہوریت کی مخالفت کی بجائے ایک نئے طریقے سے اسے مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا

رائے بھی لی جا سکتی ہے۔ یہ خیال پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کو ماہر سماجیات جارج گیلیپ کی مدد حاصل ہوئی۔ یہاں سے پہلی مرتبہ عوامی رائے جاننے کے لیے گیلپ سروے کروانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور آج تک گیلپ سروے کا سلسلہ جاری ہے۔

گیلپ اور ایلمو روپر (سیاسی سروے کروانے والا مشہور امریکی سائنسدان) دونوں نے ہی بیرنیز کے اس نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ انسان لاشعوری فورسز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پولنگ کروانے یا سروے کروانے کے نظام کے پیچھے یہ تھیوری تھی کہ لوگوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور یہ جانا جا سکتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے پہلے امریکا میں یہ نظریہ زور پکڑ چکا تھا کہ غیر عقلی فیصلہ سازی کی وجہ سے ہر ایک یا عوام کی اکثریت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

1936ء میں روز ویلٹ نے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ بڑے کاروباری اداروں کے خلاف کنٹرول مزید سخت کر دیں گے۔ روزویلٹ کو دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب کر لیا گیا لیکن دوسری جانب کارپوریشنوں کے لیے یہ ایک ’’امریت‘‘ کا آغاز تھا اور انہوں نے ’’دا نیو ڈیل‘‘ تھیوری کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

امریکا میں دوبارہ طاقت حاصل کرنے اور اس جنگ کا مرکزی کردار ایک مرتبہ پھ ایڈروڈ برنیز اور اس کا ایجاد کردہ شعبہ پبلک ریلشنز تھا۔

پبلک ریلیشنز کے ایک مورخ اسٹیورٹ ایوین لکھتے ہیں، ’’ نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز، جو آج بھی قائم ہے، نے ایڈورڈ برنیز کی سربراہی میں فیصلہ کیا کہ عوامی سطح پر ایک بڑی مہم چلائی جائے گی، جس کے تحت بڑے کاروباری اداروں اور عوام کے درمیان جذباتی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بیرنیز کے طریقے بڑی سطح پر استعمال کیے جائیں گے۔‘‘

اس مہم کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ترقی کے پیچھے حکومتوں کا نہیں بلکہ کاروباری اداروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ایڈورڈ برنیز اس وقت جنرل موٹرز کے مشیر تھے اور اس ملک گیر مہم کے لیے سینکڑوں پبلک ریلیشنز مشیروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر مشہوریاں تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، بل بورڈز لگائے گئے اور اخبارات کے ادارتی صفحات میں منظم طریقے سے یہ پیغام پہنچایا گیا۔

اس کے بعد حکومت اور فری مارکیٹ کے مابین جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس کے ردعمل میں حکومت نے ایسی فلمیں تیار کیں، جن میں بتایا گیا کہ بڑے کاروباری ادارے کس طرح پریس کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہی دور تھا جب سرکاری ٹیلی وژن پر مشہوریاں چلانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ لوگوں کی دماغ سازی نہ کی جائے اور اس کے متبادل کے طور پر پرائیویٹ میڈیا میدان میں ابھر کر آیا تھا، جس کا کام سرمایہ کاروں کے مفادات کو ترویج دینا تھا۔

دوسری جانب سرمایہ کاروں کی مہم حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھی۔

1939ء کو امریکا میں ورلڈ فیئر کا انعقاد ہوا۔ بیرنیز نے اسے ڈیموکریسی اور امریکن بزنس کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

ایڈروڈ برنیز کی بیٹی آن بیرنیز اس کے بارے میں کہتی ہیں، ’’میرے والد کے لیے یہ ورلڈ فیئر طاقت کا توازن رکھنے کا موقع تھا اور وہ توازن یہ تھا جمہوریت میں کیپٹلزم۔ یعنی جمہوریت اور کیپٹلزم اور ان دونوں کی شادی۔ میرے والد نے لوگوں کو اس طرح مانی پولیٹ کیا کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بغیر جمہوریت کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘

یہ ورلڈ فیئر ایڈروڈ بیرنیز کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ دوبارہ جمہوریت کی وہ شکل سامنے آئی تھی، جس میں روز ویلٹ کے خواب کے برعکس عوام فعال شہری کا نہیں بلکہ غیر فعال صارفین کا کردار ادا کریں گے۔ کیوں کہ برنیز کے مطابق جمہورہت میں عوام کو کنٹرول کرنے کی یہی ایک چابی ہے۔

انسانوں کے عقلی اور غیر عقلی رویوں کے بارے میں اس وقت جاری بحث پر یورپ میں ہونے والے واقعات نے بھی اثر ڈالا۔ 1938ء میں نازیوں نے آسٹریا پر حملہ کر دیا۔ مئی 1938 میں فرائیڈ اپنی بیٹی آنا فرائیڈ کے ساتھ لندن منتقل ہو گئے۔ اس وقت لندن بھی جنگ کے تیاریوں میں تھا اور 1939ء میں جنگ کے آغاز سے تین ہفتے بعد فرائیڈ کینسر کی وجہ سے وفات پا گئے۔

اس جنگ کی وجہ سے امریکی حکومتی اہلکار اس بات کو تسلیم کرنے لگے کہ انسان کے اندر انتہائی خطرناک قوتیں موجود ہیں، جنہیں کنٹرول کیا جانا ضروری ہے۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ کی بے شمار لاشوں کا حوالہ دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اگر انسانی لاشعوری خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اب کے بار ایڈورڈ برنیز صرف حکومت نہیں بلکہ سی آئی اے کے لیے بھی کام کرنے لگے اور فرائیڈ کی بیٹی آنا فرائیڈ بھی امریکا میں بہت بااثر ثابت ہوئیں۔ آنا فرائید نے بچوں کی نفسیات کی بنیاد رکھی اور ان کی تھیوری یہ تھی کہ انسان کو اپنی غیر شعوری اور غیر عقلی فورسز کو قابو کرنا سکھایا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد امریکی حکومت نے عوام کی ’’اندرونی نفسیاتی زندگی کو منظم‘‘ کرنے کے بڑے پیمانے پر پروگرام شروع کیے۔

عوام کی خواہشات یا خوف سے کھیلو (پارٹ فور)
[/pullquote]

اس کے بعد امریکی خفیہ ادارے سی آئی سے نے بھی فرائیڈ فیملی کی تیار کردہ تکنیکس استعمال کرنے کا وسیع پروگرام شروع کیا اور اس سلسلے میں سب سے پہلا تجربہ دوسری عالمی جنگ کے ان فوجیوں پر کیا گیا، جو شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار تھے۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی سے نے بھی فرائیڈ فیملی کی تیار کردہ تکنیکس استعمال کرنے کا وسیع پروگرام شروع کیا
امریکی خفیہ ادارے سی آئی سے نے بھی فرائیڈ فیملی کی تیار کردہ تکنیکس استعمال کرنے کا وسیع پروگرام شروع کیا

یہ امریکا میں نفسیات دانوں یا تحلیل نفسی کے شعبے کے عروج کا آغاز تھا۔

اب بات صرف ماڈل کنزیومرز (صارفیں) کی نہیں بلکہ ماڈل شہری تخلیق کرنے کی جا رہی تھی۔ اس دوران امریکا بڑے بڑے کاروباری ادارے اور صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور جیسے لوگ بیرنیز کے کلائنٹ تھے۔

بیرنیز سب کو قائل کر چکے تھے کہ عوام کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کی لاشعوری خواہشات یا پھر خوف سے کھیلا جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کو بیرنیز نے مشورہ دیا کہ روسی کمیونزم کے خوف کو کم کرنے کے بجائے اس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے اور اسے خوف کو سرد جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عقلی دلائل سے عوام کو قائل کرنا مشکل ہے۔

آن بیرنیز اپنے والد کی اس تکنیک سے متعلق کہتی ہیں، ’’ میرے والد سمجھتے تھے کہ عوامی گروپوں کے ذہنوں کی تشکیل خود کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ان کے اندرونی خوف یا اندرونی خواہشوں سے کھیل سکتے ہیں تو انہیں کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

عوام کے خوف سے کھیلنے کا پہلا کامیاب تجربہ بھی بیرنیز نے کیا۔ بیرنیز کی ایک بہت بڑی کلائینٹ یونائٹیڈ فروٹ کمپنی بھی تھی۔ یہ امریکی کپمنی گوئٹے مالا اور وسطی امریکہ میں کیلوں کے وسیع باغات کی مالک تھی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ کمپنی کیلوں اور ان ملکوں کے آمروں کو کنٹرول کرتی چلی آ رہی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں بنانا ری پبلک بھی کہا جاتا تھا۔

1950ء میں ایک نوجوان افسر کرنل ایربینز گوئٹے مالا کا صدر بن گیا۔ اس صدر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک سے یونائٹیڈ فروٹ کا کنٹرول ختم کر دے گا اور 1953ء میں اس نے یونائٹیڈ فروٹ کے زیر کنٹرول زمین قومیانے کا اعلان کر

یہ امریکی کپمنی گوئٹے مالا اور وسطی امریکہ میں کیلوں کے وسیع باغات کی مالک تھی
یہ امریکی کپمنی گوئٹے مالا اور وسطی امریکہ میں کیلوں کے وسیع باغات کی مالک تھی

دیا۔ اس اقدام کو گوئٹے مالا میں تو بہت شہرت حاصل ہوئی لیکن یونائٹیڈ فروٹ کے لے یہ تباہ کن فیصلہ تھا۔ یونائٹیڈ فروٹ نے بیرنیز سے رابطہ کیا کہ کسی طرح صدر ایربینز کا تختہ الٹا جائے۔

بوسٹن گلوب کے سابق صحافی لیری ٹائی لکھتے ہیں، ’’ بیرنیز اور یونائٹیڈ فروٹ ایک مقبول منتخب حکومت کو ایک خطرے میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ حکومت جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
حقیقت میں ایربینز ڈیموکریٹک سوشلسٹ تھا اور اس کے ماسکو سے رابطے تھے لیکن بیرنیز انہیں ایک کیمونسٹ

خطرہ بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے جو امریکا کے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں تھا۔ بیرنیز نے امریکا کے بااثر صحافیوں کے لیے گوئٹے مالا کے ایک خفیہ دورے کا بندوبست کیا۔ ان صحافیوں کو انتہائی اچھے طریقے سے انٹر ٹینڈ کیا گیا اور وہاں کے مخصوص سیاستدانوں سے ان کی ملاقاتیں بھی کروائی گئیں۔ ان سیاستدانوں نے ان بااثر امریکی صحافیوں کو بتایا کہ ان کا صدر ایک کمیونسٹ ہے اور انہیں ماسکو کنٹرول کر رہا ہے۔

امریکی صحافیوں کے دورے کے دوران گوئٹے مالا میں اچانک امریکا مخالف پرتشدد مظاہرے بھی شروع ہو گئے۔ یونائیٹڈ فروٹ کے لیے کام کرنے والے بہت سے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بیرنیز نے خود کروائے تھے۔
دوسری طرف بیرنیز نے امریکا میں ایک جعلی نیوز ایجنسی قائم کی، جس کا نام ’مڈل امریکا انفارمیشن بیورو‘ رکھا گیا۔ اس نیوز ایجنسی نے ایسی خبروں کی بھرمار کر دی کہ ماسکو گوئٹے مالا کو بیس بنا کر امریکا پر حملہ کرنے والا ہے۔

بیرنیز اور یونائٹیڈ فروٹ ایک مقبول منتخب حکومت کو ایک خطرے میں تبدیل کرنا چاہتے تھے :لیری
بیرنیز اور یونائٹیڈ فروٹ ایک مقبول منتخب حکومت کو ایک خطرے میں تبدیل کرنا چاہتے تھے :لیری

بوسٹن گلوب کے سابق صحافی لیری ٹائی لکھتے ہیں، ’’ بیرنیز کا مقصد صرف آربینز کی حکومت کو امریکا میں برا ثابت کرنا تھا۔ وہ اس خفیہ منصوبے کا حصہ تھا، جس پر صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور اتفاق کر چکے تھے۔ اس کے بعد وہاں کے باغیوں کو سی آئی اے کے ذریعے تربیت دی گئی اور کرنل ایرماس کو طاقت میں لایا گیا۔‘‘

1954ء میں گوئٹے مالا میں سی آئی اے آپریشن ہیڈ ہارورڈ ہنٹ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’ہم ایک دہشت پھیلانے والی مہم چاہتے تھے۔ سی آئی اے کو بغاوت میں مدد دینے کی ہدایات مل چکی تھیں۔ سی آئی اے کے پائلٹ خفیہ طور پر گوئٹے مالا پر بم گرا رہے تھے اور بیرنیز نے امریکی پریس میں اپنی پروپیگنڈا مہم جاری رکھی ہوئی تھی۔ وہ امریکی عوام کو گوئٹے مالا کی آزادی اور فریڈم فائٹرز کی جمہوریت کے لیے تیار کرتا رہا۔‘‘

بیرنیز جانتے تھے کہ بغاوت اسی وقت کامیاب ہو گی، جب لوگ اسے ذہنی طور پر قبول کریں گے اور پریس اس کی حمایت میں بولے گی۔ لیری ٹائی کے مطابق اصل میں بیرنیز سچ یا حقیقت کو ری شیپ کر رہے تھے اور عوامی کی سوچ کے ساتھ کھیل رہے تھے، جو کسی بھی طور جمہوری رویہ نہیں ہے۔

27 جون 1954ء کو کرنل ایربینز ملک سے فرار ہو گیا اور ایرماس کو اقتدار مل گیا۔ اس کے چند ماہ بعد ہی صدر نیکسن نے اس ملک کا دورہ کیا۔ اس دوران یونائٹیڈ فروٹ کے پی آر ڈیپارٹمنٹ نے ایک ایسا ایونٹ اسٹیج کیا، جس میں یہ بتایا گیا کہ صدارتی محل سے مارکسی لٹریچر کے ڈھیر ملے ہیں۔ صدر نیکسن کا اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک کمیونسٹ حکومت کو مقامی لوگوں نے گرا دیا ہے۔‘‘

بیرنیز امریکی عوام کی ذہن سازی کر چکے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ امریکی بزنس اور امریکا کے مفادات ناقابل تقسیم ہیں۔ برنیز کے مطابق یہ بات اب امریکی عوام کو عقلی بنیادوں پر نہیں سمجھائی جا سکتی تھی لہذا ان کے خوف سے کھیلنا ضروری تھا۔

اس تجربے کے بارے میں بیرنیز کی بیٹی این بیرنیز کہتی ہیں، ’’وہ سمجھتے تھے کہ لوگ واقعی بیوقوف ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جمہوریت کے برعکس ہے۔ لوگوں کو کسی انتخاب پر مجبور کرنا، یہ جمہوریت ہرگز نہیں ہے یہ کچھ اور ہے۔‘‘

اس تجربے کے بعد واشنگٹن میں یہ آئیڈیا قوت پکڑتا گیا کہ سرد جنگ لڑنے کے لیے عوام کو دھوکا دیا جانا ضروری ہے۔
سن 1950 سے 74ء تک سی آئی اے کے چیف ماہر نفسیات ڈاکٹر رہنے والے جان گیٹینگر لکھتے ہیں، ’’اس وقت انسان کے بارے میں یہ سوچا جاتا تھا کہ اسے مکمل طور پر مشین کی طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت لوگ واقعی یہ سوچتے تھے کہ ایسا ممکن ہے۔‘‘

اس دور میں امریکا بھر میں جگہ جگہ نفسیات دانوں کے کلینک کھل چکے تھے اور سی آئی اے بھی اس شعبے میں تجربات کے لیے بھرپور سرمایہ لگا رہی تھی۔

انسانوں کی مخفی خواہشات کو کنٹرول کرنے کے نظریہ کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا، جب وینس پیکارڈ کی بیسٹ سیلر کتاب Hidden Persuaders مارکیٹ میں آئی۔ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ نفسیات دان امریکی عوام کو ایک ایسی جذباتی پتلی بنانا چاہتے ہیں، جو بڑے اداروں کا سامان خریدتی رہے۔ اس کتاب کے مطابق انسانوں کی خواہشات کو نئے برانڈز کی اشیاء خریدنے کے لیے اپنی مرضی سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔

برین واشنگ اور ہیپی تحریک کا آغاز ( پارٹ فائیو)
[pullquote]

اس کے بعد امریکا میں فرائیڈ فیملی کی مخالف ایک سیلف فری کی تھیوری آئی کہ اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی بجائے ان کا سر عام اظہار کیجیے۔ یہ تھیوری Wilhelm Reic نے پیش کی تھی، جو فرائیڈ تھیوری کا سخت مخالف تھا۔

ساٹھ کی دہائی کے وسط میں امریکی حکومت اور کارپوریٹ امریکا کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا۔ امریکی کاروباری اداروں پر امریکی عوام کی برین واشنگ کا الزام عائد کیا گیا۔ ان احتجاجی مظاہروں کی تقریروں کے مطابق

ساٹھ کی دہائی کے وسط میں امریکی حکومت اور کارپوریٹ امریکا کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا
ساٹھ کی دہائی کے وسط میں امریکی حکومت اور کارپوریٹ امریکا کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا

عوام کو کنٹرول کرتے ہوئے سرمایہ دار نہ صرف پیسہ بنا رہے ہیں بلکہ عوام کی توجہ ویتنام کی غیرقانونی جنگ سے بھی ہٹائی جا رہی ہے۔

ویلہیلم رائش کی وفات کے بعد سے مختلف گروپ ایسے طریقے دریافت کر رہے تھے جن کا مقصد افراد کو معاشرے کے اس دباؤ سے آزاد کرنا تھا، جو اس کے ذہن میں ڈالا گیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں اپنی ذات کو تلاش کرنے اور خود کو کرپٹ سرمایہ داری نظام سے آزاد کرنے کی تحریک زور پکڑتی گئی اور اسی تھیوری کی وجہ سے امریکا میں بعدازاں ہیپی تحریک کا آغاز ہوا۔

یہ امریکی سرمایہ کاروں کے لیے لمحہ فکریہ تھا کیوں کہ اب عوام ’مناسب صارفین‘ کی طرح رد عمل ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ اس وقت سرمایہ کاروں کو یہ لگ رہا تھا کہ اب ان کا کاروبار بند ہو جائے گا۔

امریکا کے Yankelovich Partners Market Research Inc ادارے کے Daniel Yankelovich کہتے ہیں، ’’ستر کی دہائی میں 80 فیصد امریکی سرمایہ کاری نظام کے خلاف ہو چکے تھے۔ اور ہر کوئی کاروباری یہ سوچ رہا تھا کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔‘‘

یہ وہ نقطہ تھا ، جب امریکی سرمایہ کاروں نے اس افراد کی ذاتیات اور الگ تھلگ شناخت میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کیلفیورنیا کا سٹینفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سری) حکومت اور کاروباری اداروں کے لیے کام کرتا تھا۔ 1978ء میں نفسیات دانوں اور ماہرین معاشیات نے پیدا ہونے والے ’’ناقابل اعتبار صارفین‘‘ کی ضروریات پڑھنے اور ان کی خواہشات کا ناپنے کا پلان بنایا تاکہ اس خواہشات کو پورا کیا جا سکے۔

سری نے اپنی ویلیوز اینڈ لائف اسٹائل نامی تحقیق میں ان نئے صارفین کی انفرادیت کو تین مرکزی گروپوں میں تقسیم کیا اور یہاں سے نائیکی ، اور ایدیداس اور گوچی جیسے برانڈز کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یہ بات سامنے آئی کہ ہر کوئی علیحدہ طریقے سے (انفرادیت سے) اپنی ذات کا اظہار چاہتا ہے اور ایسے گروپوں کے لیے علیحدہ قسم کی اشیاء کی پیداوار کی جائے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ جو لوگ خود اپنی شناخت نہیں بنا سکتے انہیں ایک ایسی شناخت دی جائے جو وہ خرید سکیں۔

اس تحقیق سے پتا چلایا گیا کہ جو لوگ خودی یا اپنی ذاتیات کے بارے میں سوچتے ہیں انہیں کیسے کنٹرول کیا جائے۔
بعد ازاں عوام کی ’انفرادیت اور خواہشات‘ کو کنٹرول کرنے کے اس پروگرام کو سیاست میں بھی استعمال کیا گیا۔ رونلڈ ریگن اور ان کے مشیر کا کہنا تھا کہ وہ انفرادیت کو استعمال کرتے ہوئے انتخابات جیت سکتے ہیں۔

سن 1976ء سے 81 تک رونلڈ ریگن کے لیے تقریریں لکھنے والے جیفری بیل کہتے ہیں، ’’میں نے ریگن کو تقریر کی متعدد ہیڈ لائنز لکھ کر دیں اور جو انہوں نے پسند کی وہ یہ تھی۔ حکومتوں پر لوگوں کی حکمرانی ہونی چاہیے، لوگوں

جیفری بیل
جیفری بیل

کو دوبارہ طاقت ملنی چاہیے۔ اپنے قسمتوں کا فیصلہ لوگوں کو خود کرنا چاہیے نہ کہ یہ فیصلے وہ اشرافیہ کرے، جو واشنگٹن میں بیٹھی ہے۔‘‘

ماڈرن ری پبلکنز اور جمی کارٹر نے اس تقریر کو ایک بیوقوفی قرار دیا لیکن انتخابات کے نتائج نے بتایا کہ لوگوں کی خواہشات کو جان کر اسی طرح کے بیانات دینا کس قدر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

سری اس وقت امریکا اور برطانیہ دونوں ملکوں میں تحقیق جاری رکھے ہوئے تھی۔ وہ جانتے تھے ریگن اور برطانیہ میں آئرن لیڈی تھیچر کی ’’لوگوں کی انفرادیت کو اپیل‘‘ کرنے کی یہ پالیسی کامیاب رہے گی۔

ہیپی پارٹی کے بانی رکن سٹیو البرٹ کہتے ہیں، ’’ یہ کیپٹلزم کی جیت تھی۔ انہوں نے ایسے طریقے دریافت کر لیے تھے، جن کے تحت لوگوں کی انفرادیت سے کھیلا جا سکتا تھا۔ اور اب لامتناہی انفرادیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یہ ایک

ہیپی پارٹی کے بانی رکن سٹیو البرٹ
ہیپی پارٹی کے بانی رکن سٹیو البرٹ

نیا وے آف لائف تھا۔‘‘

اس تحقیق کے بعد، جس نے جس طرح کا فرنیچر چاہا، مارکیٹ میں وہی فرنیچر لاکر رکھ دیا گیا۔ اب مختلف سروے کروائے جاتے تھے اور مارکیٹ میں وہی اشیاء لائی جاتی تھیں، جس کی طلب تھی۔

ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والا ’’خود کی آزادی‘‘ کا نظریہ بوری طرح ناکام ہو چکا تھا اور اس نظریے کے بطن سے پیدا ہونے والی لامتناہی خودی نئے قسم کے صارفین پیدا کر چکی تھی۔

کارپوریٹ کی مخالفت کرنے والے خود بری طرح اپنی خواہشات کے غلام بن چکے تھے اور سرمایہ داروں کو لالچی کہنے والے خود اپنی خواہشات پوری کرنے کے لامتناہی لالچ میں پھنس چکے تھے۔

جمہوریت میں ہم کسی طرح بھی آزاد نہیں (آخری حصہ)
[/pullquote]

1980ء تک بیرنیز کی تیکنیکس کو ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ امریکی صارفین میں خواہشات پیدا کرنے، ان کی اندرونی خواہشات کو پڑھنے اور انہیں پورا کرنے کے لیے ایک بہت بڑی صنعت وجود میں آ چکی تھی۔ بیرنیز ایک سو سال کا ہو چکا تھا اور اس موقع پر اسے مارکیٹنگ کی دنیا کا فاؤنڈر فادر قرار دے دیا گیا۔

دوسری جانب برطانیہ میں بھی یہی انقلاب برپا ہو رہا تھا۔ سابق برطانوی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا 1975ء میں کنزویٹو پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم ہجوم کی انفرادیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سب غیر مساوی ہیں۔ آسمان والے نے کسی بھی ایک شخص کو دوسرے جیسا نہیں بنایا۔ ہماری نظر میں ہر ایک کو غیرمساوی رہنے اور ہونے کا حق ہے۔ ایک انسان کو، جو وہ چاہے، وہ کام کرنے کا حق ہے اور اپنی کمائی کو جیسے چاہیے، ویسے خرچ کرنے کا حق ہے۔ اور یہی ایک فری اکانومی کا نچوڑ ہے۔ ہماری تمام آزادیوں کا انحصار اسی ایک اس آزادی پر ہے۔‘‘

مارگریٹ تھیچر کا وژن یہ تھا کہ لاکھوں انفرادی انسانوں کی خواہشات کو فری مارکیٹ کے ذریعے پورا کیا جائے۔ برطانیہ کے مشہور اخبار ’’دا سن‘‘ کے سابق مشہور صحافی میتھیو رائٹ لکھتے ہیں کہ تھیچر کی اس پالسیی کے بعد مصنوعات کی تصاویر کو بڑی تعداد میں پرنٹ میڈیا میں شائع کرنا شروع کر دیا گیا۔ سرمایہ کاروں کا اخبارات پر کنٹرول بڑھنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر پیزا ہٹ کا اشتہار ہوتا تو ان کی باقاعدہ شرائط ہوتی تھیں کہ اس کو کس جگہ یا ورق پر شائع کیا جائے گا۔ آپ کے لیے اپنی مرضی کے مطابق کوئی چیز چلانا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

میتھیو رائٹ کے مطابق اس وقت تک ایڈیٹوریل صفحات میں اشتہارات شائع کرنا صحافتی کرپشن سمجھا جاتا تھا لیکن تھیچر کے اتحادی، دا سن اور دا ٹائمز کے مالک روپرٹ مرڈوک کے لیے ایسا کرنا جمہوری انقلاب کا حصہ تھا۔
1939ء میں ایڈورڈ بیرنیز نے مستقبل کا جو وژن دیا تھا وہ آج کی دنیا کا سب سے بڑا سچ بن چکا ہے۔ آج کی جمہوریت کے بادشاہ صارفیں ہیں۔ نیویارک کے ورلڈ فیئر میں بیرنیز نے اسے ’’ڈیموکریسٹی‘‘ کا نام دیا تھا۔

پبلک ریلیشنز کے مورخ اسٹیورٹ ایوین لکھتے ہیں کہ اب لوگ نہیں بلکہ لوگوں کی خواہشات انہیں کنٹرول کرتی ہیں۔ اس ماحول میں عوام کے پاس فیصلہ سازی کرنے کی طاقت ہی کم بچی ہے، ’’جمہوریت اب فعال شہری ہونے کا نام نہیں رہا بلکہ عوام صرف صارفین بن چکے ہیں۔ اب عوام کو ایسے ہی ڈیل کیا جا رہا ہے، جیسے کہ ایک کتے کو چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘

تاہم آج کی کنزیمور ڈیموکریسی کا سب سے بڑا مسئلہ دولت کی غیر مساوی تقسیم بنتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو صرف حکومتی طاقت کے استعمال سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک سیاستدان اپنی خواہشات کو پس پشت نہیں ڈالیں گے۔ آج بھی امریکی صدارتی انتخابات میں بڑے بڑے تجارتی ادارے امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے فنڈز مہیا کرتے ہیں تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان سرمایہ کاروں کے مفادات کا خیال رکھ سکیں۔ دنیا کی ہر جمہوریت میں آج ایسا ہی ہو رہا ہے اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو اٹھتا ہے، اسے ہر طریقے سے اقتدار سے الگ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اس نظریے سے نکلنا ہوگا کہ انسان خود غرض اور لالچی ہے اور اپنی انفرادیت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں انسان یہ بھول رہے ہیں کہ انسانی فطرت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔

میری اپنی ذاتی رائے میں خود کو آزاد سمجھنے والا کوئی بھی انسان آزاد نہیں ہے۔ آپ کو وہی خواہشات پوری کرنے کی
آزادی دی گئی ہے، جس میں سرمایہ دار کا فائدہ ہے۔ آپ کسی مذہب کے دائرے میں زندگی گزار لیں یا کسی دوسرے نظام کے دائرے میں، زندگی ہر صورت آپ کو قوانین کے تحت ہی گزارنی ہے۔ مذاہب کے دائرہ کار میں آپ اپنی خواہشات کو محدود کر لیتے ہیں اور مذاہب کے بنائے ہوئے قوانین کی غلامی میں آ جاتے ہیں۔ آج کے جمہوری نظام میں آپ کو مخصوص حد تک آزادی دی گئی ہے، قوانین کی غلامی اس نظام میں بھی لازمی ہے اور اس جمہوری آزادی کے بدلے آپ اپنی خواہشات کی غلامی میں جھکڑے جاتے ہیں۔

بیرنیز کا قول میں دوبارہ لکھوں گا، ’’عوام کی منظم عادات کو تبدیل کرنا، ان کی رائے سازی اور دماغ سازی کرنا جمہوری معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے۔ جو معاشرے کے اس ان دیکھے میکنیزم کو کنٹرول کرتے ہیں، اصل میں وہ ہی غائبانہ طور پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ غائبانہ حکومت برسر اقتدار حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
معاشرے کو منظم جمہوری انداز میں چلانے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر حکومت کی جاتی ہے، ہمارے ذہنوں کے سانچے بنائے جاتے ہیں، ہمارے ذوق تشکیل دیے جاتے ہیں اور ہمارے خیالات تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ افراد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سنا ہی نہیں ہوتا۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے