منٹو،عصمت،اوریااورعریانیت

سعادت حسن منٹو بڑا ادیب ہے،افسانے کی دنیا کا بڑادیو،جس کے کئی افسانوں پر مقدمات قائم ہوئے ،جرمانے بھی ہوئے ،انہیں آپ فحش نگاری کا اقرار ی مجرم کہہ سکتے ہیں،یہ میں نہیں کہہ رہا ،سرمد کھوسٹ کی فلم’منٹو‘ کے ایک سین میں وہ عدالت میں خود پر لگے الزام کا اقرار کرتے دکھائے گئے ہیں،مگر جب ہم کسی بڑے دانشور سے ان کے افسانوں پر بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ان میں عریانیت ہے نہ ہی فحش نگاری،وہ تو صرف معاشرتی سچائی پر قلم اٹھاتے تھے، وہ تو اپنے اردگرد کی تعفن زدہ حقیقتوں کو بیان کرتے رہےتھے، بس یہی وہ چیز ہے جس میں کچھ لوگوں کو فحاشی اور عریانت نظر آتی ہے۔ چلیں ان دانشوروں کی بات کو درست مان لیتے ہیں، اگر ہم نہ بھی مانیں تو کیا منٹو کی ادبی حیثیت میں کوئی کمی آجائےگی؟ بالکل نہیں، بلکہ اگر آپ ادیب،مصنف اور اردو کے بہترصحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ کو سعادت حسین منٹو کو پڑھنا توپڑے گا ہی۔

15اگست 1911ء میں اتر پردیش کے علاقے بدایوں میں پیدا ہونے والی عصمت چغتائی کابھی اردو ادب میں بڑا نام ہے،وہ حقوق نسواں کی بڑی علم بردار تھیں،ان کے بھی افسانے کو فحش قراردیا گیا، ان کے افسانے لحاف سے تو اتنا بھونچال پیدا ہوا کہ ان کی شادی تک ٹوٹتے ٹوٹتے بچی، تنازعات سے بھرپور زندگی گزارنے والی اس ادیبہ کا بھی اردو ادب میں بہت بلند مقام ہے،جس سے انکار سورج کی موجودگی سے انکار کے مترادف ہے۔

جب ہمیں مندرجہ بالا اشخاص کی تحریری خرابیاں بری نہیں بلکہ معاشرتی سچائی لگتی ہیں،تو پھر صاحب طرز کالم نگار اوریا مقبول جان کی تحریر ’پراڈکٹ‘ عریانیت کا شاہکار کیسے ہوگئی ؟، عورت کے حقوق کی بات کرنے والے ادیب ،دانشور،کالم نگار اور ڈرامہ نگار کی تحریر میں اس کی تذلیل کیسے نظر آگئی؟۔

اوریا مقبول جان کے نظریات سے ایک دنیا واقف ہے،وہ اپنی تحریراور خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین پر مکمل عمل درآمد کے حامی ہیں،ان کی تحریروں سے اختلاف کا حقبھی سب کے لئے کھلا ہے،مگر ان کی ذات پر حملہ نہ ہی ادبی سرگرمی ہے اور نہ کوئی کار خیر،اگر آپ کو اوریا مقبول جان کی مقبولیت کھلتی ہے ، آپ ان سے نجات چاہتے ہیں ،تو ہم آپ کو آسان سا نسخہ بتائے دیتے ہیں، اس پر عمل کریں توآپ کی اور ہم سب کی اوریا مقبول جان کی مقبولیت سے نجات یقینی ہے ۔

آپ سب سے پہلے کالم میں تحریر پاکستان کی حقوق نسواں کی علمبردار خاتون کو تلاش کرلائیں،جن پر اوریا مقبول جان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے نے پسند کی شادی کی اور پھر اس خاتون نے’لاڈلی‘ دلہن کو طلاق دلوادی، ملک میں حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کی تعداد کتنی ہوگی؟ چند ہزار، آپ انہیں تلاش کریں یا اوریا صاحب سے ان خاتون کا نام پوچھ کر ان سے سچائی سنیں، ان سے منسوب الزام کو غلط قرار دیں،ہم جان جائیں گے کہ اوریا مقبول جان کی بات بے وزن ہے اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو پھر آپ کا دعویٰ حقوق نسواں ہوا؟۔یعنی خود ہی شرمسار ہواور اپنے دوستوں کو بھی شرمسار کر۔

دوسرا آپ فیض احمد فیض جیسے بڑا ادیب کی بیٹی منیزہ ہاشمی سے ملیں،ان سے پوچھ لیں کہ اوریا مقبول جان نے آپ کے پی ٹی وی لاہور کی جنرل منیجری کے دور کے حوالے سے ایک بات کہی ہے،بس ان سے تردید لے لائیں اور یا مقبول جان کی تحریر کی آدھی جان ختم ،اور اگر ان کی بات درست ثابت ہوتو آپ کسے منہ دکھائیں گے؟یعنیٰ خود ہی شرمسار ہوں گےاور اپنے دوستوں کو بھی شرمسار کریں گے۔

تیسرا آپ پاکستان کے چند ڈرامہ لکھنے والوں سے رابطہ کریں،ان سے اوریا کی بات شیئرکریں،انہیں ان کے تجربات سے آگاہی فراہم کریں اور سچائی کے بارے میں پوچھیں،ان کی زندگی کے واقعات سنیںاور پھر کہہ دیں کہ جو کچھ’پراڈکٹ‘ میں لکھا گیا وہ سب کچھ حرف غلط ہے،بس پھر آپ نے تقریبا بازی مار ہی لی ، لیکن بات درست رہی تو پھر ؟خود ہی شرمسار ہواور اپنے دوستوں کو بھی شرمسار کر۔

چوتھا چندڈرامہ ڈائریکٹر وں سے ان کے پرانے پروجیکٹ کے کچھ حصوں پر جن کوعوامی سطح پر بے ہودہ کہا جاتا رہا ہے ،ان کے حوالے سے پوچھ لیں،چلیں اسے بھی چھوڑیں، اوریا کی تحریر دکھائیں، کہیں کہ اس میں آپ کے پروفیشن پر الزام تراشی کی گئی ہے، آپ حقیقت احوال سے آگاہی لیں اور باہر آکر سچائی سے کہہ دیں اوریا مقبول جان کی تحریر کا یہ حصہ بھی غلط،بس پھر کیا ہے،آپ تمسخر اڑائے بنا جیت گئے،اب ڈھول بجائیں۔اگر یہ بات بھی اوریا ہی کی درست ثابت ہوتو؟ آپ سمجھ گئے ہیں نہ ہم یہاں کیا لکھنا چاہ رہے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے