کیا حقانیہ حکومتی امداد لینے والا پہلا مدرسہ ہے؟

دارالعلوم حقانیہ کے لئے صوبائی حکومت کی فنڈنگ کے حوالے سے ان دنوں پوری دنیا میں گرما گرم بحث اور غلیظ ترین پروپیگنڈہ اپنے عروج پر ہے ۔ خصوصاً الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں یکطرفہ طوفان مچا ہوا ہے لیکن افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے دینی و مذہبی حلقے کے سوشل میڈیا گروپس (فیس بک ، ٹوئٹر، واٹس اپ) بھی بغیر کسی تحقیق اور سوچ سمجھ کے اغیار کی لگائی ہوئی آگ کو بھڑکا رہے ہیں،جو کہ نہایت قابل افسوس امر ہے۔

[pullquote]اس گروپ میں جو علما ،ادبا ،مفتیان کرام اور دانشوروں کا سنجیدہ حلقہ کہلایا جاتا ہے ، اس میں بھی کئی ایک حضرات نے دارالعلوم او راس کے مہتمم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے متعلق ایسی عامیانہ زبان اور گھٹیا الزامات عائد کئے ہیں جو کم سے کم اہل علم و تحقیق کو زیب نہیں دیتا۔ یہاں دارالعلوم کی صوبائی حکومت کی امداد پر اعتراضات اور الزامات عائد کرنے والے حضرات کے سامنے چند گزارشات اور دارالعلوم دیوبند جو ہم سب کا علمی و روحانی قبلہ و مرکز ہے ،حکومتی امداد کے حوالے سے اس کا موقف اور کردار کیا رہا ہے؟ اور دیگر مدارس و مذہبی جماعتوں نے کیا اس سے قبل حکومتوں کی گرانٹ اور دیگر مراعات حاصل نہیں کیں؟
[/pullquote]

اس پر ایک مختصر سا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے دارالعلوم حقانیہ کی امداد پر معترض اور انگلی اٹھانے والے افراد تعصب و نفرت کی عینک اتار کر ٹھنڈے دماغ سے غور وفکر فرمائیں گے ۔

[pullquote](الف) اس ضمن میں قاسم العلوم بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصول ہشت گانہ کا ذکر بڑے زور و شور سے دینی حلقے اٹھا رہے ہیں کہ مسلک دیوبند سے وابستہ مدارس حکومتی امداد قبول نہ کریں کیونکہ یہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصول ہشت گانہ کے خلاف ہے ۔عرض یہ ہے کہ بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند اوران کے والد ماجد حضرت مولانا حافظ محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند، نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصولی موقف (اصول ہشت گانہ ) کو کن وجوہات اور کن مصالح کے تحت ایک طرف رکھ کر مختلف حکومتوں اور ہندوستان میں قائم خودمختار ریاستوں سے بھاری بھرکم امداد اور چندے لئے ؟؟
[/pullquote]

(ب) مثال کے طورپر حضرت مولانا قاری طیب صاحب کا1359 ھ میں سفر افغانستان جس میں وہاں کے علما دانشوروں کے علاوہ افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ اور وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوئیں ، اور اسی سفر میں دارالعلوم دیوبند میں قائم ”باب الظاہر ”کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار افغانی روپے اس وقت کی بھاری بھرکم گرانٹ مولانا قاری طیب نے بطیب خاطر خوشی کے ساتھ قبول کرکے اس سے دارالعلوم دیوبند میں عظیم الشان سہ منزلہ عمارت ”باب الظاہر ”جس میں بڑی بڑی درسگاہیں متعدد کمرے وغیرہ ہیں ،کی تعمیر کی ۔ پھر بعد میں سفر ہندوستان کے موقع پر ظاہر شاہ نے اس کا دورہ بھی کیا اور اس امداد پر ان کی شان میں بڑے بڑے قصائد اور مدح سرائی بھی کی گئی۔(بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص۔٢٠٠ )

(ج) اسی طرح سعودی بادشاہ شاہ سعود نے 1373ھ میں اپنی حکومت کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کو پچیس ہزار کی خطیر گرانٹ فراہم کی اور اتفاق سے پھر اسی سال دارالعلوم دیوبند کا دورہ بھی کیا (بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص:388)

(د) اسی طرح 1305ھ میں ریاست حیدرآباد دکن کے صدر اعظم نواب سر آسمان جاہ نے دولت آصفیہ کی جانب سے سو روپیہ ماہانہ مقرر کیا جو بعد میں وقتا فوقتا سو سے پانچ سو اور پھر ایک ہزار تک پہنچ گیا ۔ حافظ محمد احمد صاحب ،مہتمم دارالعلوم دیوبند کی مساعی سے یہ سلسلہ سقوط حیدر آباد دکن تک جاری وساری رہا۔ اس حکومتی ماہانہ امداد کے علاوہ ریاست حیدرآباد دکن کی طرف سے تین ہزار روپے برائے تعمیرات بھی الگ سے دی گئیں۔ (بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص٢٠٠)

(ھ) چوتھی مثال ریاست بھوپال کی ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کو امداد دو سو سے بڑھتے بڑھتے تین ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی ریاستوں اور حکومتوں کی طرف سے دارالعلوم کو وقتا فوقتا مختلف ہدیہ ، عطیے او رکتابوں کے تحائف وغیرہ ملتے رہے ۔
اب اگر عرصہ دراز کے بعد (بقول حکیم الامت مولانا قاری طیب صاحب کے دیوبند ثانی ) دارالعلوم حقانیہ نے تعمیرات جدید درالتدریس ، جامع مسجد اور واٹر ٹینک کی تعمیر کے سلسلے میں صوبائی حکومت کی امداد لینے کی حامی بھری ہے تو اس امداد پر اصول ہشت گانہ کی خلاف ورزی کا شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے اور ان تاریخی حقائق کے بعد بھی کہنا کہ یہ اکابر دارالعلوم دیوبند کا طریقہ اور وطیرہ نہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی تعمیرات کے لئے مختص بھاری بھرکم حکومتی امدادوں کے علاوہ روز مرہ کے اخراجات جیسے طلبا کے کھانے پینے ، اساتذہ کی تنخواہوں بلکہ مدرسہ کے جملہ مصارف میں بھی یہ چندے اور امدادیں کئی دہائیوں تک مسلسل استعمال ہوتی رہیں۔ اب اس کو کیا نام دیا جائے ؟؟

تاریخ دارالعلوم دیوبند کا صفحہ صفحہ اس بات کا گواہ ہے ۔ امید ہے کہ علمی حضرات اس کتاب کا مطالعہ ایک بار پھر ازسرنو فرمائیں۔
اب پاکستان کے بڑے دینی جامعات کی طرف ایک نظر ڈالئے ۔

[pullquote]وفاق المدارس العربیہ کے صدر صاحب کے جامعہ فاروقیہ کی موجودہ مدنی منزل جو کہ اس سے قبل ”صدام منزل ” کے نام سے کئی برس تک معروف تھی ۔کیا اس کی تعمیر کمیونسٹ بعث پارٹی کی عراقی حکومت کے بھاری بھرکم فنڈ سے نہیں ہوئی؟؟ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ”جامعہ معارف الشریعہ ”اور جمعیة علماء اسلام ف کے صوبائی سیکرٹریٹ واقع رنگ روڈ پشاور پر قائم بہت بڑے کمپلیکس اور مسجد کی تعمیر کمیونسٹ نظریات کے علمبردار کرنل قذافی کے بھاری بھر کم اعلانیہ فخریہ امداد سے نہیں ہوئی ؟؟ اس کے علاوہ ایم ایم اے کے دور حکومت میں وزیراعلی اکرم درانی نے جمعیت ف کے اکثر بڑے مدارس مثلاً المرکز الاسلامی بنوں ،مدرسہ دارالعلوم پیزو ،اور نوشہرہ کے معروف مدرسہ اور جمعیت ف کے اہم مرکز ۔۔۔قابل ذکر ہیں۔) اس کے علاوہ جنوبی اضلاع کے چھوٹے بڑے درجنوں مدارس کو کروڑوں روپوں کے سرکاری فنڈز بھی جماعتی بنیادوں پر جاری کئے گئے۔
[/pullquote]

(جن کی تفصیلی فہرست جلد دو تین دن میں سرکاری ریکارڈ سے وصول کرکے شائع کردی جائیں گے) ایم ایم اے دور میں جب جمعیت علماء اسلام (س) ابتدائی سالوں میں حکومت کی اتحادی رہی،تو دارالعلوم کے ایک فاضل نے دارالعلوم حقانیہ کے ہائی سکول (قائم کردہ بدست شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی) کی سائنس لیبارٹری ، سرکاری کتابیں ، اور اپ گریڈیشن کی کوششیں کیں تو حکومت نے سال بعد جواب میں یہ کہاکہ حقانیہ کا ہائی سکول حکومتی معیار کا نہیں۔ لہٰذا ایم ایم اے دور میں دارالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ کیا تیس روپے بھی نہیں دئیے گئے ۔اس امتیازی سلوک اور سیاسی اقربا پروری کو کیا نام دیا جائے؟؟

اس طرح کے پی کے کی گزشتہ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت او راس کا وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے ضلع مردان کے دینی مدارس ، ائمہ مساجد اور حجروں کی تعمیرو ترقی کے لئے ایک ارب پینتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم تقسیم کی۔ ان سرکاری امداد لینے والوں میں جمعیت علما اسلام ف کے اکثریتی مدارس اور علماے کرام سرفہرست ہے ۔(جن کے ناموں کی تفصیل عنقریب شائع کی جائے گی) اورحکومتی گرانٹ برائے دینی مدارس مردان پورے کے پی کے کے عوام کو معلوم ہے۔ ایک طرف اے این پی کے ساتھ نظریاتی اور سیاسی اختلاف ، لیکن حکومتی امداد کیلئے سارے اختلافات او رتکلفات پھر بالائے طاق کیوں ؟؟ اسی طرح صوبائی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے برادر مولانا لطف الرحمن اس بات پر مسلسل ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کے لئے تیس کروڑ روپے آخر کیوں ؟ اس امداد کو واپس لے کر دیگر مدارس پر بھی برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے ۔ جواب عرض ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھی تو آپ حضرات نے پانچ سال تک دارالعلوم حقانیہ کو امداد سے کیوں محروم رکھ کر دیگر مدارس کو نوازا ؟ اور بقول آپ کے عمران خان کی یہود نواز اور مغربی این جی اووز زدہ حکومت سے مدارس کیلئے امداد طلب کرنا کہاں کی دانشمندی اور کہاں کی سیاسی غیرت ہے؟

اب آئیے پنجاب کی طرف جہاں کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے مختلف دینی جامعات میں کروڑوں روپوں کے لیپ ٹاپ حکومتی اسکیم کے ذریعے تقسیم کئے،مختلف مدارس میں ،انگلش اور کمپیوٹر اکیڈمیز کے نام سے فنڈز دئیے، ایمبولینسیں اور دیگر مراعات بھی دی گئیں ہیں۔ ا سکے علاوہ پرویز الہٰی اور میاں نواز شریف (سابق وزیراعلیٰ پنجاب) نے اپنے اپنے ادوار میں دینی مدارس کے لئے مختلف علماء کو سرکاری پلاٹ بھی الاٹ کئے۔

تو اس طویل پس منظر میں کے پی کے کی صوبائی حکومت کی امداد دارالعلوم حقانیہ کے لئے آخر کیوں حرام اورپنجاب کے وزیراعلیٰ کی لیپ ٹاپ اسکیم وغیرہ وغیرہ عین حلال ؟؟

اس طرح پنجاب گورنمنٹ نے مختلف مدارس کے ارباب اہتمام کو حکومتی اداروں کی سربراہی تنخواہیں ، گاڑیاں ،پولیس پروٹوکول اور ٹی اے ڈی اے اور دیگر حکومتی مراعات دی ہوئی ہیں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟؟ ضیاء حکومت کے جاری شدہ زکوٰة کے نظام سے کئی مدارس خفیہ اور اعلانیہ کئی برس سے مستفید ہورہے ہیں ، اس عرصہ دراز سے جاری استفادے کو کیوں ہدف تنقید نہیں بنایا جارہا ؟ اور ان مدارس کے نام کیوں نہیں اچھالے جارہے؟ محض اس لئے کہ سیاسی طورپر جامعہ دارالعلوم حقانیہ کا موقف الگ ہے، اور شاید اس لئے بھی کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اوراس کے ارباب اہتمام اسی قافلہ حق کے ساتھ اب تک رواں دواں ہیں، جس میں ایک وقت میں بڑا ہجوم تھا لیکن زمانے کی نئی چال اور حالات اور مصالح کی نزاکتوں کے باعث سب ایک ایک کرکے اس قافلہ حریت کو تنہا چھوڑگئے۔
اگر مضمون میں کوئی تلخ بات یا چبھتا ہوا جملہ محسوس ہوا ہو تو اس پر پیشگی معذرت مگر چونکہ حقائق تلخ ہوتے ہیں۔امید ہے دارالعلوم پر تبرا کرنے والے حضرات اپنے موقف پر دوبارہ نظرثانی فرمائیں گے ۔

جو تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے