شاکر شجاع آبادی کے آنسو

استاد جی نے ایک دن میرا ہاتھ تھاما اور کہا ‘‘دیکھ بچے، اپنے عہد میں جینے کے طور طریقے اور ہوتے ہیں جبکہ تاریخ میں جینے کے رنگ وانداز اور ہوتاہے ۔ جن لوگوں نے تاریخ میں جینے کا فیصلہ کیا ،زمانے نے انہیں اپنی جوتی کی نوک پر رکھا اوران کا دامن ان کے عہد میں ہمیشہ اشکوں سے بھیگتا ہی رہا ۔ ان کے عہد کی وہ کون سی گالی تھی جو انہیں نہیں دی گئی اور وہ کون سا پتھر تھا جس سے ان کی آشفتہ سری کا علاج کر نے کو کوشش نہیں کی گئی ۔ان کا عہد تو ان کی موت کے سو برسوں بعد جا کر ان کا عہد بنا ،جب غلام فکر نے غلام گردشوں سے نجات حاصل کی ۔لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہ شعور کے نام پر سو برس پرانی فکر کے امین بن گئے اور اپنے دو ر کی نئی فکر کو گالیاں دینے اور پتھر مارنے میں مشغول ہو کر مسترد کر دیا ۔

میں نےجھنجلا کر اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے استاد جی سے نظریں چراتے ہوئے پوچھا ۔‘‘ قبلہ ،اپنے عہد میں بھی جینے کا کیا کوئی فن ہے ؟ ’’ تو انہوں نے دوبارہ میرا ہاتھ قدرے سختی کے ساتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ بہت ہی آسان ہے ۔ زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے جاؤ ،زمانے کے امام بن جاؤ گے ۔ ۔ چلو تم ادھر کو ہوا ہے جدھر کی ،تم دیکھنا ،یہ معاشرہ تمھیں پھولوں کے ہار پہنائے گا ۔ تم کسی بلند مقام پر کھڑے ہو جاؤ یا اونچے منصب پر بیٹھ کر جھوٹ کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں میں دجل اور فریب کی مٹی اڑاؤ ۔ یہ تمھیں عالیشان مسندیں عطا کریں گے ۔ میں نے دلچسبی سے استاد جی آنکھوں میں دیکھا تو انہوں نے میری جانب غصے سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ‘‘بس حیا کو اپنے وجود سے ایسے نکال پھینکو جیسے مکھن سے بال کو نکال دیا جاتا ہے ۔’’ میں نے کہا حضور کوئی درمیانی راستہ ہے ؟ تو استاد جی قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ دوسرا راستہ ہی تو درمیانی راستہ تھا ۔ کچھ دیر خاموشی رہی ،پھر انہوں نے اٹھتےہو ئے کہا کہ اب تمھیں تاریخ پڑھ کر خود فیصلہ کرنا ہے کہ تمھیں تاریخ میں زندہ رہنا ہے یا اپنے عہد میں جینا ہے ،اور میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ مجھے کیسے جینا ہے ۔۔۔

ایک برس پہلے جیو ٹی وی پر ‘‘ایک دن جیو کے ساتھ میں ’’ شجاع آباد ملتان سے تعلق رکھنے والے مشہور سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی زندگی کی "نقاب کشائی” کی گئی ۔ گرد سے اٹی ،دھول اڑاتی گلیوں میں ،کچی مٹی کے گارے سے بنی ،پکی اینٹوں کی چار دیواری ،شاکر شجاع آبادی کی غربت کا مذاق اڑانے کے لیے کافی تھی ۔ ان کچی گلیوں کی گرد اڑاتی خاک نے شجاع آباد کو شاکر دیا جس کے آنسوؤں نے سرائیکوں کو ایک نئی پہچان عطا کی ۔ شاکر کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہر زیر دست طبقے کی نمائندگی کر تے ہیں ۔کسی نے کہا تھا کہ منیر نیازی نے اچھی شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔شاکر شجاع آبادی کو بھی قدرت نے کچھ نہیں دیا، یہاں تک مافی الضمیر کے اظہار کے لیے زبان بھی اظہار سے عاجز آ چکی ہے، لیکن احساسات کی دنیا کی بادشاہی میں لفظ اس کی جاگیر ہیں ۔ وہ جیسے اور جب چاہتا ہے اپنی فکر کے سورج کو چڑھا دیتا ہے ۔ معاشرے کی اونچ نیچ کے خلاف اس کی ذہنی اور فکری بغاوت کی صورت گری جب اس کے الفاظ کر تے ہیں تو رگ و پے میں آگ بھڑک جاتی ہے ۔ وہ خیال کا خالق اور حرف کا مصور ہے۔ شاکر کے تصور سے بننے والی ساری تصویروں میں آہیں اور سسکیاں محسوس کی جا سکتی ہیں ۔جیسے جاڑے کی راتوں میں لٹے قافلے کے جلے ہوئے خیموں کے گرد بیٹھے بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں کی آہیں اور سسکیاں ،،،اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے ۔اس کی برداشت شعروں میں ڈھلتی ہے تو قہر بن جاتی ہے ۔وہ اس مجبور کے احساس کا مالک ہے جس کے اپنے بچے تو بھوک سے رات بھر سو نہیں سکتے لیکن وہ دوسروں کے بچوں کو کھلاتے پلاتے شام کر دیتا ہے ۔ وہ خدا پرست ہے لیکن اسے شکوہ ہے کہ غریب ہر وقت آنسوؤں کی تسبیح پھیرتا رہتا ہے لیکن اس کی دعا سنی نہیں جاتی ۔

شجاع آباد کی تنگ و تاریک گلیوں میں علم کی روشنیاں بانٹنے والا شاکر شجاع آبادی اپنے عہد میں بھی مقبول ہے لیکن یہ مقبولیت اسے دو وقت کی روٹی نہیں دیتی ۔ مقبولیت سے پیٹ تھوڑی ہی بھرے جاتے ہیں ۔ مقبول تو جالب بھی تھے ،عمر بھر بغاوت کی لیکن زندگی کیسے گذری ، کاش کوئی یہ بات جالب کی بیوہ سے پوچھتا یا اسی کی بیٹی طاہرہ سے پوچھے ۔ ہم تو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ شاعر وں کا کلام عشائیے کے بعد واہ واہ کرنے اور تالیاں بجا کر کھانا ہضم کر نے کے لیے ہو تا ہے ۔ یا تقریر کے دوران گنگنا کر مجمع اٹھانے کے کام آتا ہے ۔
وقت تیزی سے بدل رہا ہے ۔شاکر شجاع آبادی کے آنسو ایک نئی فکر کی پرورش کر رہے ہیں ،وہ ایک نیا معاشرہ تخلیق کر رہا ہے جس میں لوگ مذہب ،سیاست اور لسانیت کے بجائے ظالم اور مظلوم کے نام پر لڑیں گے ۔ وہ فرقہ واریت کے بجائے سماجی انصاف کے حصول کے لیے ٹکرائیں گے ۔ شاکر شجاع آبادی کے آنسوؤں میں بے بسی کے خلاف احتجاج ہی نہیں ، اپنے عہد کی مکمل بغاوت کا سامان موجود ہے ، شاید اس دھرتی پر وہ وقت آن پہنچا ہے جب سچے لوگ صرف تاریخ میں ہی نہیں اپنے عہد میں بھی جئیں گے ۔ ان کی فکر سے وہ چراغ جلنا شروع ہو چکے ہیں جنہیں زمانے کی ہوا ،بجھا نہ سکے گی ۔

سوال یہ ہے کہ ہم کب ان آوازوں پر لبیک کہیں گے جو ہمیں مصنوعی اور فروعی موضوعات پر لڑانے کے بجائے مل جل کر انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے متوجہ کر تی رہتی ہیں اور ہماری غفلت پر کڑھتی رہتی ہیں ۔ بڑی آوازیں صرف بڑے شہروں اور ایوانوں میں ہی نہیں گونجتیں بلکہ کسی دور افتادہ دیہات کی گلیوں میں واقع کچے گھروں میں بھی سنی جا سکتی ہیں ۔ بس ان آوازوں کو سننے کے لیے دل اور دماغ کی ضرورت ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں جاؤں اور اپنے استاد جی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں یقین دلاؤں کہ استاد جی ، شانت ہو جائیے ، اب جوتی کی نوک پر رکھنے والا سیاہ دور ختم ہو نے والا ہے ۔ نوجوان سمجھنا چاہتے ہیں ،بس آپ ہمت کیجئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے