لبرل ، نان لبرل اور دیسی لبرل

دیسی لبرلز کے حوالے سے ایک پوسٹ پر کچھ دوستوں کو اعتراض تھا کہ اس سے کسی ایک طبقے کی دل آزاری ہوئی ہے ۔بلکہ ایک دوست نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ان کو بڑا افسوس ہوا کہ میں لبرل نہیں۔تو سوچا اپنی پوزیشن واضح کر دوں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے ۔۔

جہاں سے یہ لفظ لبرل آیا انہی کی تمام لغات کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسا شخص جو سیاسی اور مذہبی معاملات میں ترقی، اصلاحات اور نئے آیڈیاز کی حمایت کرنے والا ہو اسے لبرل کہیں گے ۔۔اختصار کے لیے صرف دو پوائنٹس ڈکشنری سے کاپی کر رہا ہوں ۔

1.a person of liberal principles or views, especially in politics or religion

2. free from prejudice or bigotry; tolerant:open-minded or tolerant, especially free of or not bound by traditional or conventional ideas, values, etc

[pullquote]پہلی اور آخری بات ۔۔[/pullquote]

میں ۔۔ اللہ تعالی کی طرف سے محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کردہ شریعت ، جو آج سے تقریبا سوا چودہ سو سال پہلے اتار کر مکمل کر دی گئی ۔اور جس کا عملی نمونہ نبی کریم ﷺ کی ذات میں موجود ہے ۔ کو حرف آخر سمجھتا ہوں اور اس میں اصلاحات اور نئے آیڈیاز تو دور کی بات اس پر سوچنا بھی کفر سمجھتا ہوں ۔کیونکہ دین میں نئے آیڈیاز اور اصلاحات کو سوچنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ نبی کریم ﷺ پر اتارا گیا میں اس پر مطمئن نہیں۔دنیا کے کسی ادار ے میں بھی کام کریں تو اس کے اصول و ضوابط کی پابندی کرنی لازم ہوتی ہے ورنہ ادارے سے نکال دیا جاتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس خالق کائنات نے ہمیں پیدا کیا اس نے ہمیں زندگی گزارنے کے اصول نہ دیے ہوں ۔یہ اصول و ضوابط ہی شریعت کہلاتے ہیں اور انہیں اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے ہمیں بتا دیا ہے ۔اس لحاظ سے میں لبرل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔رہی بات دنیا کے کاموں کی ترقی کی تو اللہ کا دین ہرگز ہرگز اس میں رکاوٹ نہیں۔میں دین کی بہت سی باتوں پر اس طرح سے عمل نہیں کر پاتا جس طرح سے اس پر عمل کرنے کا حق ہے ، اس پر میں خود کو اللہ کا مجرم اور گنہ گار سمجھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ سے معافی اور اس کی رحمت کا طلب گار بھی ہوں۔دین کی باتوں پر میرے عمل نہ کر پانے سے شریعت ہرگز نہیں بدل سکتی ۔میں چاہتا ہوں کہ جب اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں تو اس کے باغیوں میں شمار نہ کیا جاؤں ۔

میں نے دو روز پہلے جو پوسٹ کی تھی وہ دیسی لبرلز کے اسی متضاد رویے کے پیش نظر کی تھی جو انسانوں کے دیے ہوئے اس مغربی جمہوری نظام میں کسی تبدیلی کی بات پر تو لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اسے بدلنا تو دور کی بات اس پر بات کرنا بھی کفر سمجھتے ہیں لیکن محمدﷺ کی بتائی ہوئی باتوں پر دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں اور اسے وقت کے ساتھ بدلنے کے خواہش مند ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے