اوریا ، عورت اور لبرل مشٹنڈے

حیران کن بات یہ ہے کہ ان نام نہااد لبرلز کی تعداد کا اگر پاکستان بھر میں جائزہ لیا جائے تو یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔لیکن ان کا شور سنے تو کانوں میں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ،

ہوا کچھ یوں کہ اوریا صاحب نے ان نام نہاد لبرلز کو اس جگہ سے چوٹ لگائی جہاں سے نہ صرف ‘” مضامین ان کے خیال میں آتے ہیں ”’ بلکہ ان کی روزی روٹٰی کا سلسلہ بھی جڑا ہوا ہے اب ظاہر ہے جب بندے کی روزی پر ٹانگ پڑے تو اس کا چیخنا چلانا تو بنتا ہے ۔
اوریا صاحب نے ایک خدا لگتی بات کی ،اگر ان کی تمام باتیں قران اور سنت کی روشنی کے تناظر میں سمجھی جائیں تو بات بالکل سادہ سی ہے ۔۔لیکن کبھی آپ ان لبرل مشٹنڈوں کی باتوں پر غور کریں تو دین کو کوئی بات کو اس طرح فریب دیکر تہذیب اور ثقافت اور سائینسی ترقی مین خلط ملط کرکے بیان کریں گے کہ ان کی باتوں سے صرف سمجھ آئے گی کی مذہب اور بلخصوص اسلام تو حالیہ ماحول اور زمانے کا مذہب ہے ہی نہیں بلکہ یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے معاشی اعتبار سے سماجی اعتبار سے ،،،

ہم اس بات پر نہیں جاتے کہ مغرب میں کیا ہو رہا اور وہ کس قدر کھوکھلے دنیا میں زندہ ہیں ۔۔۔ہماری تو بس اتنی سی درخواست ہے ان لبرلزسے کہ ہمیں اپنے اس خاندانی نظام میں جینے دیں یہ واحد اکائی ہے جس میں خاندان میں ایک فرد کو بڑا مان لیا جا تا ہے اور بھر اس کی رہنمائی میں مزے سے زندگی گزار دی جاتی ہے ،،،

کپڑا لتا کھانا پینا سماج سب کے درمیان وہ توازن قائم کرتا ہے ،، اور پوری ایمان داری سے خلوص کے ساتھ باپ بن کر شوہر بن کر بھائی بن کر وہ خوش اسلوبی اسے اپنے فرائض نبھا رہا ہے ۔۔۔ میں بھی وہ اشتہار دیکھ کر اتنا ہی کڑتا ہوں جتنے پاکستان میں موجود ہزاروں بیٹیوں والے بات کڑ رہے ہیں لیکن وہ خاموش ہیں ،،

ان کی آواز اوریا صاحب بنے تو میری طرح اوروں کو بھی یہ تسلی ہو گئی کہ ہماری آواز پہنچانے والا کوئی موجود ہے ،،، گو ہم تعداد میں ان لبرل مشٹنڈوں سے بہت زیادہ ہیں ،،، لیکن چونکہ حکومت بھی اسی آٹے کی چکی کا پیسا کھا رہی ہے جن کا یہ نام نہاد دانشور اینکرز اور لبرلز کھا رہے ہیں سو اکثریت میں ہو کر بھی ہمارا حال غنڈوں میں گھری رضیہ جیسا ہو رہا ہے ،،،ہو سکتا ہے ہم اکثریت میں ہو کر بھی ہار جائیں ،،،لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس دن ہماری آنے والی نسلیں ان کے رنگ مین رنگ گئی ،،تو ہمارا انجام بھی بنکاک والا ہی ہوگا ،،، اور جب یہ بنکاک بن جائے کا تو اس کے ردعمل میں انتہا پسندی کس درجے کی ہوگی ،،ہمارے خیال میں پھر کسی ملک کو ہمارے پر ایٹم بم گرانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی ،،،،،ہم خود ہی بھسم ہو جائیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے