ترکی، پاکستان نہیں ہے!

میرے دوستوں میں آدھے لبرل ہیں اور آدھے قدامت پسند اور میں خود ان دونں کے درمیان ہوں آدھا لبرل اور آدھا قدیم۔ اور میں اس صورتحال سے خوش ہوں لیکن ہو ایسے رہا ہے کہ ” اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں اور بیگانے بھی نا خوش ” لیکن میں کھبی زہر ہلال کو قند نہیں کہوں گا۔اسلام میرا دین ہے میں اُس پر اپنی تمام تر کج روئیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود مرتے دم تک قائم رہوں گا، اگر کوئی فرشتہ آ کر کہے کہ اللہ میاں نے اسللام کو متروک کر کے کوئی نیا دین رائج کر دیا ہے تو میں اُس کی بات نہیں مانوں گا۔ اسلام ہی میرا دین رہے گا اب قیامت تک۔ اور دنیا بھر میں اُس کا ساتھ دوں گا جسے حق پر سمجھوں گا۔

طیب اردگان میرا ہیرو ہے اور اس کی وجہ یہ ہے ک وہ موجودہ دور میں سیاسی اسلام کا واحد طاقتور علمبردار ہے، طیب کا سیاسی اسلام وہی ہیے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ ” جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” ۔ حقیقت یہ ہے کہ طیب اور اُس کے ساتھیوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کی خبر گیری کر کے مغرب کو یہ بتا دیا ہے کہ مسلمان سوشلزم کا یو ایس ایس آر نہیں جسے شکست دے کر مغرب نے ماضی کا حصہ بنا دیا ہے۔نا ہی وہ جرمنی اور جاپان ہے جسےشکست دے کر وہ اب مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے چلے ہیں۔ مشرق وسطی میں جس طرح ترکش قیادت نے امریکیوں اور اُس کے اٹھائیس حواریوں کو اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکا ہے وہ دنیا بھر کو ترکی کا دشمن بنانے کے لیے کافی ہے۔

ترکی میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور بم دھماکوں کو سوشل میڈیائی فلاسفروں نے پاکستان کی صورتحال سے مماثلت دینی شروع کر دی ہے جو کسی بھی طور پر درست نہیں۔ نا تو طیب اردگان اور اُس کے ساتھی پرویز مشرف اور چوہدری برادران ہیں اور نا ہی ترکی، پاکستان سے مماثلت رکھتا ہے، جہاں امریکیوں سے ڈالر کھا کر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو پکڑ پکڑ سی آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔

ہمارے ایک سابق کمانڈو جرنیل صاحب جو دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتے (سوائے امریکیوں اور پاکستانی عدالتوں کے) انہوں نے امریکیوں کے سات مطالبات جس زمانے میں ایک فون کال پر مان لیے تھے اُس وقت ترکی نے عراق پر امریکی حملے کے وقت اپنے ملک کو کسی بھی طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی حال آنکہ امریکیوں نے انہیں چالیس بلین ڈالر کی پیشکش بھی کی تھی اور ترکی معاشی اعتبار سے اُس وقت پاکستان سے زیادہ گھمبیر مسائل میں الجھا ہواتھا۔ ہمارے بہادر اور روشن خیال کمانڈو عرف پرویز مشرف نے جن مطالبات کو رات بارہ بجے ایک فون کال پر من و عن منظور و قبول کیا تھا، اسی نوعیت کے مطالبات کو طیب اردگان کے پیش رو عبداللہ گل نے اپنی پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی فوجی قیادت نے چند کروڑ ڈالروں کی بھیک سے پاکستانی شہروں کی ڈیفنس سوسائیٹیوں میں کوٹھیاں بنا کر رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مزید نوٹ کمائے اور ترکی نے چالیس بلین ڈالر کی خطیر رقم کو مسترد کر کے اپنی بہترین حکمت عملیوں سے ترکی کو معاشی میدان میں آگے لا کر دنیا میں باوقار ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

عراق پر امریکی حملے نے یہ واضع کر دیا تھا کہ امریکہ اور اُس کے اٹھائیس حواری مشرق وسطی کے تیل ذخائر پر قبضہ کر کے اپنے اپنے ملکوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ تب ترکی ہی تھا جس نے اُن کے خوابوں کو ملیہ میٹ کر دیا تھا۔ جس روز ترکی کی ایک ڈویژن فوج نے عراق کے بارڈرز پر قائم کردوں کے امریکی تربیتی کیمپوں پر حملہ کر کے راتوں رات اُن کا صفایا کیا تھا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ امریکی جو افغانستان، عراق اور پاکستان میں بزدل مسلمان قیادت کی راتوں رات زمین بوسی کے عادی ہو چکے تھے اُنہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ترکی اس قدر تیز رفتاری سے ایسا ترکی بہ ترکی جواب دے گا۔ میں نے اُس دن سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والےامریکہ اور برطانیہ سمیت پانچ ملکوں کے سربراہان کو ایک ہی دن ترکی کے خلاف پریس کانفرنس کرتے دیکھا یہ میرے لیے خوشی کا مقام تھا اور ترکی کی اس برتری نے ایک دبے ہوئے، ندامت سے سر جھکائے ہوئے، شکست خوردہ پاکستانی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔

اور پھر میں نے کئی موقعوں پر اپنا سر فخر سے بلند کیا۔ ایک وہ جب ترکوں کا بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا وقت کے ایک اور ظالم اور جابر اسرائیل کی طرف اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے امدادی سامان لے کر گیا، اسرائیلیوں نے دھمکی دی کہ اگر جہاز ان کی حدود میں آیا تو اڑا دیں گے لیکن ان دھمکیوں کے باوجود وہ جہاز غزہ کے ساحل تک پہنچا۔ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں گیارہ ترک شہید ہوئے لیکن اس قربانی نے فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی امداد کے دروازے کھول دئیے۔ دوسرا موقع وہ تھا جب برما میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کی گئی تو ترک قیادت ان کی دستگیری کے لیے وہاں پہنچی جبکہ پاکستان میں ہمارے لبرل دوست اُلٹا برمی مسلمانوں کو دوشی قرار دے رہے تھےکہ وہ ایک غیر اسلامی ملک میں کیوں اسلام کی پریکٹس کرتے ہیں۔ میری محبت ترکوں کے عشق میں اُس وقت تبدیل ہوئی جب دو ہزار پانچ کے زلزلے میں پاکستانیوں سے پہلے ترک امدادی ٹیمیں کشمیر پہنچیں اور کیا نہیں کیا ترکوں نے زلزلے سے متاثرہ پاکستانیوں کو دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لانے کے لیے؟ کیا آپ کو وہ واقعہ بھی بھول گیا کہ ترک وزیراعظم کی بیوی نے اپنے جہیز کا قیمتی کنگھن اتار کر ہمارے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بیوی کو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دے دیا تھا جسے وہ اپنے باپ کا مال سمجھ کر ہڑپ کر گئیں تھیں؟ کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ ترک قیادت نے وہی غلطی کی ہے جو پاکستانی بکاؤ فوجی اور سول قیادت نے کی تھی؟ ترکوں کے سیاسی فیصلے بالکل درست ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ ترک ہی ہیں جنہوں نے امریکیوں اور اس کے حواریوں کو مشرق وسطی میں پیش قدمی سے روک دیا ہے۔ یورپ میں اُن کے اتحاد میں جو دراڑ پڑی ہے وہ مشرق وسطی میں مطلوبہ وقت میں وہ نتائج برآمد نا ہونے کا ہی نتیجہ ہیں ۔ ترکی جتنی تیزی کے ساتھ اسلامی دنیا میں معاشی ترقی کرتا ہوا آگے بڑھا ہے وہ ہمارے لیے باعث فخر ہے یہاں تک کے اب سعودی عریبیہ بھی ترکوں کو اپنی سلامتی کا ضامن سمجھنے لگا ہے۔

البتہ ترکوں اور پاکستانیوں میں ایک مماثلت ہے دونوں اسلام پر مر مٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں جہالت کے گہرے گڑھوں میں دھکیل رکھا ہے جہاں سے ہم نکلنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے جبکہ ترک تعلیم کے میدان میں ہم سے بہت آگے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی اسلام پرستی اُنہیں ٹھیک راستے پر چلاتی ہوئی عزت و وقار کے مقام پر لے گئی ہے اور ہماری جہالت کے نتیجے میں ہماری اسلام پرستی ہمیں ملائیت کے روائیتی کلیسائی استحصال کا شکار کئیے ہوئے ہے۔
پاکستان زندہ باد، ترکی پائندہ باد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے