نیا عالمی منظرنامہ اور پاکُستان

آج دنیا جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایک بڑے عالمی گاو¿ں میں تبدیل ہوچکی ہے، رسل رسائل ، نقل و حمل، آمد و رفت، رابطوں اور باہمی میل جول میں اس قدر آسانی آگئی ہے اور ایک دوسرے تک رسائی اتنی با سہولت ہوچکی ہے کہ اقوام ہی نہیں بسا اوقات کسی بھی خطے اور ملک میں افراد کی سطح پر پیش آنے والے واقعات کی گونج بھی ساری دنیا میں عام ہوجاتی ہے اور چار دانگ عالم میں ان پر بحث مباحثے شروع ہوجاتے ہیں۔ جس طرح ایک گاو¿ں میں ایک با اثر شخص کی سرگرمیاں اور اس کی ذات سے جڑے چھوٹے بڑے واقعات Talk of the townبن کر کوٹھوں چڑھتے ہیں، ایسے ہی آج کے اس جدید ”عالمی گاو¿ں“ میں بھی جو ملک جتنا با اثر، با حیثیت اور طاقتور ہوتا ہے، اس میں پیش آنے والے واقعات اور غیر معمولی بات اسی قدر شہرہ آفاق ہوجاتے ہیں اور ان کے مضمرات، نتائج اور عواقب بھی اسی تناسب سے گہرے اور وسیع اثرات کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ آج کی دنیا یک قطبی ہے اور بد قسمتی سے واحد مادی سپر پاور امریکا کی کھونٹی سے بندھی ہوئی ہے، اس پس منظر میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ امریکا کو چھینک آئے تو باقی دنیا کو نزلہ لگ جاتا ہے۔ دراصل یہ تلخ زمینی حقائق سے جڑا ہوا ایک ناگوار تصور ہے، جو اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ اس عالمی گاو¿ں میں جو جس قدر طاقت اور اختیار کا مالک ہوتا ہے، اس کی چھوٹی بڑی باتوں کا دوسروں پر اسی قدر اثر ظاہر ہوتا ہے۔

برطانیہ دنیا کا ایک با اثر ملک ہے۔ یورپی یونین میں اس کی حیثیت سب سے اونچی رہی ہے۔ وہ یورپی برادری میں شامل ہونے کے باوجود یورپ کی مشترکہ کرنسی کی پیروی نہیں کرتا تھا، اس کی معیشت اور اقتصادی حالت یونین میں سب سے مضبوط تھی، اس کے علاوہ وہ دنیا کے ایک بڑے حصے کے لیے سیاسی اور اقتصادی طور پر مرکز ثقل کی حیثیت رکھتا ہے…. اس تناظر میں یورپی یونین سے علیحدگی کے برطانوی عوام کے فیصلے کے سیاسی جغرافیائی کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ یورپی برادری اپنا اتحاد برقرار رکھ پائے گی یا نہیں؟ فرانس، جرمنی، اطالیہ اور اسکینڈے نیویا میں دھیمی سروں میں اٹھنے والا مفادات کی ساجھے داری کا بوجھ اتار پھینکنے کا مطالبہ آخر کیا رنگ لائے گا؟ خود ”برطانیہ عظمیٰ“ کا اتحاد کس حد تک اس سے مضمحل ہوگا، کس حد تک نہیں؟ شمالی آئر لینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں تاج برطانیہ کی ”سرپرستی“ کے خلاف بغاوت کی چنگاریاں آزادی کا شعلہ جوالہ بن پائیں گی یا نہیں؟ خود انگلینڈ اور ویلز کا کیا بنے گا….؟ ریفرنڈم کے نتائج کو سلسلہ واقعات میں جوڑا جائے تو یقینا معاملہ بہت آگے تک جاتا دکھائی دیتا ہے، تاہم برطانیہ میں اب ریفرنڈم کے غیر متوقع نتائج سامنے آنے کے بعد حالات کے نئے منظر نامے میں ایک ایسی متاسفانہ سوچ بھی پروان چڑھتی نظر آرہی ہے، جو بہت جلد اس فیصلے سے رجعت قہقریٰ کو متضمن ہوسکتی ہے۔

لندن میں گزشتہ دن ایک برقی دستخطی مہم شروع ہوچکی ہے، جس کے تحت بہت ٹھوس وجوہات پر دوبارہ ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کے شروع ہوتے ہی دس لاکھ لوگوں نے اپنے دستخطوں سے اس پر صاد کیا ہے۔ برطانوی پارلیمان کا قاعدہ ہے کہ ایسی کسی مہم میں عوامی شمولیت تعداد میں ایک لاکھ سے اوپر ہوجائے تو اس پر غور کیا جاتا ہے۔ حالیہ ریفرنڈم کے نتائج سے برطانوی اشرافیہ، تجارتی اور کاروباری برادری اور کارپوریٹ ادارے غیر مطمئن نظر آرہے ہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ اس عوامی دستخطی مہم کو اسٹیٹ پالیسی بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور ممکن ہے کہ ایک اور استصواب رائے کے ذریعے یورپی برادری سے علیحدگی کا فیصلہ واپس لے لیا جائے۔ ایسا ہوا تو ”علیحدگی“ کا متوقع ”عالمگیر“ رجحان دم توڑ دے گا، تاہم فی الوقت اس دبنگ فیصلے نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھا ہوا ہے اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں معاش و اقتصاد کے شعبے میں مسلسل جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے، جن کی معاشی سرگرمیوں میں برطانیہ کی یورپی اتحاد سے علیحدگی کے باعث خاصا ٹھہراؤ آگیا ہے۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس جمود سے نکلنے کی تدابیر کے لیے سر جوڑیں، مگر المیہ یہ ہے کہ حالات و واقعات کے اس اہم موڑ پر ہم قیادت سے ہی محروم ہیں، وزیر اعظم گزشتہ ایک ماہ سے لندن میں محو استراحت ہیں اور کاروبار حکومت ان کی Kitchen Cabinetاور ذاتی وفادار رتنوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک ایسی غیر سنجیدگی ہے، جس کی معاصر دنیا میں کسی Banana Republic میں بھی نظیر نہیں مل سکتی۔ ایسے میں کس سے اور کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ عالمی منظر نامے پر ابھرنے والی اس نئی صورتحال میں ملک و قوم کی درست اور بر موقع رہنمائی کا فریضہ ادا کرے گا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے