وطن کی بیٹی بے نظیر

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے، لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃٰ ہے۔یہ ترانہ اپنے بچپن سے سنتا آ رہا ہوں ، جب ترانے گونجتے تو شہید کا ایک مقام میرے لہومیں تازہ جھونکے کی طرح ایک عجیب سی کیفیت طاری کر دیتا، میں اس سرور کو آج بھی محسوس کرتا ہوں، لیکن بی بی شہید کی شہادت کے بعد کچھ زیادہ لطف محسوس کرتا ہوں کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور میری لیڈر ہمیشہ اپنی عوام کی خدمت کرنے کی خواہش دل میں رکھتی تھیں اور اللہ نے انہیں موت کے بعد بھی زندہ رکھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو 21جون1953ء کو کراچی کے پنٹو ہسپتال میں پیدا ہوئیں، آج محترمہ کی شہادت کو آٹھ سال کا عرصہ بیت گیالیکن بی بی عوام کے دلوں پر آج بھی راج کرتی ہیں وہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی ماں تھیں اور جب بلاول بھٹو کو عوام سے خطاب کرتے دیکھتا ہوں تو واقعی یہ احساس اجاگر ہو جاتا ہے کہ لیڈر بنتا نہیں بلکہ پیدا ہوتا ہے اور شہید رانی کا جگر گوشہ بلاول بھٹو زرداری اپنی ماں کی طرح نڈر اور واقعی عوام کے لئے درد رکھنے والا لیڈر ہے، بات کر رہے تھے محترمہ بے نظیر کی جوسر شاہنواز بھٹو کی پوتی اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اور نصرت بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی تھیں جنہوں نے اپنی مختصر سی 55سالہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے جبکہ پاکستان کے عوام کی خدمت کا جذبہ ان کے دل میں ہمیشہ غالب رہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا کارکن ہونے کے ناطے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کا بچپن سے معترف ہوں اور بی بی شہید نے بھی اپنے والد کووزیر خارجہ سے وزیر اعظم پاکستان اور پھر پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان تک عوام کی خدمت کرتے دیکھا اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب منتخب وزیر اعظم کو ڈکٹیٹر نے تختہ دار پر لٹکا دیا اور بے نظیر کو وطن بد رہو کر جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی، محنت بے نظیر بھٹو کی رگ رگ میں سما ئی تھی اور پھر وطن کی محبت ان کا اثاثہ تھی جسے انہوں نے اپنے لہو سے رقم کیا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنا سیاسی کیرئیر اسی وقت شروع کر لیا تھا جب وہ 1971ء میں اپنے والد جناب بھٹو صاحب کے ساتھ پہلی بار سرکاری دورے پر بھارت گئیں جہاں وہ اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی ملیں اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے والد پاکستان کا کیس کس طرح لڑتے رہے اور طاقت اور 71ء کی جنگ کے بعد سر مست اندرا گاندھی کو کس طرح ذوالفقار بھٹو پاکستان کی طاقت کو بار بار یاد کرواتے رہے۔

واقعی بی بی شہید کے جانے کے بعد ان کی تعلیمات اور جمہوریت کے لئے قربانیوں نے ثابت کیا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں،دنیا میں اگر خواتین کی عزت کسی قوم نے کی تو وہ ہے پاکستانی قوم ہے، جس نے بھٹوکی بیٹی کو اتنا پیار اور محبت دی کہ وہ دنیا کی پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم بنیں، اور پھر بے نظیر بھٹو نے بھی قوم کی بیٹی ہونے کی لاج رکھی اور پاکستان میں جمہوریت قائم کر کے عوام کو ان کا حق ان کی دہلیز تک پہنچایا۔1977ء میں ضیاء الحق نے شہید بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا تو اس وقت بے نظیر بھٹو صرف چوبیس برس کی تھیں لیکن انہوں نے اس وقت بھی بھٹو کے کیس کو لڑا اور تن تنہا مقابلہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ بے نظیر نہ صرف ذہین خاتون بلکہ دلیر لیڈر ہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والی ۔ کرنل رفیع الدین مرحوم جو بھٹو پر لکھی گئی کتاب بھٹو کے آخری323دن میں بے نظیر کی ذہانت اور حاضر دماغی کی داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محترمہ جب بھٹو شہید سے ملنے آتیں تو سرگوشی میں بات کرتیں بلکہ انہوں نے کوئی قانونی یا مسئلے کی نوعیت کے حساب سے بات کرنا ہوتی تو بھٹو صاحب کے کان میں کہتیں تاکہ آواز کی ریکارڈنگ کے آلات سے ان کی بھٹو صاحب سے کی گئی گفتگو ریکارڈ ہو کر حکومت تک نہ پہنچ سکے۔

بھٹو شہید کے بعد محترمہ نے تکالیف کو جیسے برداشت کیا یہ ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں، انہیں اندرون سندھ قائم ٹارچر سیلز میں بھی رکھا گیا جسے انہوں نے اپنی کتاب ڈاٹر آف ڈیسٹنی میں بھی تحریر کیا ہے، بے نظیر لکھتی ہیں کہ انہیں نظر بندی کے دوران ایک بار غیر معلوم مقام پر بھیجا گیا جہاں ایسا ٹارچر سیل تھا جس کی چھت نہیں تھی اور جس میں کیڑے مکوڑے اور مچھروں کی بھرمار تھی، وہ لکھتی ہیں کہ ان کے بال سخت اذیت کے باعث مسلسل جڑھنا شروع ہو گئے تھے اور جب وہ اس ٹارچر سیل سے باہر آئیں تو ایک ماہ کے لئے ہسپتال بھی داخل رہیں،بے نظیر بھٹو 1984 ء میں عالمی دباو پر علاج کے لئے باہر چلی گئیں، انتیس سالہ بے نظیر کو دو سال چار ماہ جلا وطنی برداشت کرنا پڑی وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ جو وقت انہوں نے پاکستان سے باہرجلا وطنی میں گزارا وہ ایک کٹھن دور تھا اور وہ اسے بھول نہیں سکتیں کیونکہ ایک ایک پل اپنے عوام سے دور رہنا ان کے لئے محال تھا اور وہ اپنے لوگوں میں جلد از جلد واپس آ جانا چاہتی تھیں، ایک بار راقم سے پیرس میں محترمہ کی میزبانی کے دوران ملاقات میں محترمہ نے مجھے کہا کہ کامران گھمن آپ اپنی سر زمین سے دور اتنے عرصے سے کیسے رہ رہے ہو اور کیسے ممکن ہے کہ پاکستان سے دور اتنا عرصہ رہا جائے ، محترمہ کہتی تھیں اپنی مٹی کی خوشبو نہ سونگھو تو زندہ رہنا مشکل ہے،اور میں اس کے بعد کافی دیر تک بے نظیر بھٹو کے الفاظ یاد کر کر کے روتا رہا کہ واقعی میں وطن سے دور ہوں، محترمہ کے یہ الفاظ آج بھی میں یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لندن اور یورپ میں پڑھنے والی لڑکی کے دل میں وطن کے لئے اتنی محبت کہاں سے پیدا ہو گئی۔اور اب میں ایک سال میں دو تین بار وطن کی زمین پر ضرور حاضر ہوتا ہوں کیونکہ پاکستان کی خوشبو میرا جینا مرنا ہے۔

محترمہ 1988ء کو ہونے والے جنرل الیکشنز کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کوملک میں واضع اکثریتی جماعت ہونے کے باعث وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئیں، عالم اسلام کی پہلی وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بھی عوا م کی طاقت کا ذکر کیا،انہوں نے کہا کہ آج یہ سب عوام کی بدولت ہے اور میرا رشتہ عوام سے کبھی نہیں ٹوٹے گا، اسے انہوں نے ہمیشہ ثابت بھی کر کے دکھایا۔بھٹو کے مخالفین نے بھٹو کی بیٹی کو وزیر اعظم ہاوس میں بھی آرام سے نہ رہنے دیا کیونکہ وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ بے نظیر عوام کی خدمت کر سکیں اوراپنے وعدے پورے کرنے کے قابل ہوں۔1990 ء میں اس وقت کے صدر اسحاق نے ان کی اسمبلی توڑ دی اور دوباہ انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ نہ آنے دی گئی لیکن بے نظیر نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر پاکستان کی عوام کے لئے اپنی خدمت جاری رکھی جس کے نتیجے میں ایک بار پھر 1996ء کے عام انتخابات میں پاکستانی عوام نے بے نظیر کو وزیر اعظم پاکستان چن لیا، بے نظیر ملک کی بہتری کے لئے اقدامات کر رہی تھیں جبکہ ان کے دور میں آئی پی پیز کے معاملے کو اچھالا گیا اور کرپشن کے الزامات سے ایک بار پھر ان کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے، محترمہ کے لئے زندگی تنگ کرنے کے لئے انہیں تکالیف دی گئیں کیونکہ ان کے شوہر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو جیل سے رہا نہیں کیا جا رہا تھا اور محترمہ شدید کرب میں تھیں لہذاوہ اپنی مرضی سے بیرون ملک چلی گئیں۔دوسری بار نواز شریف وزیر اعظم تو بن گئے لیکن صرف چودہ ماہ بعدہی انہیں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے حکومت ختم ہونے پر سعودی عرب روانہ کر دیا۔

شہید رانی نے وطن میں جمہوریت کے لئے کوششیں جاری رکھیں اور وہ اس سلسلے میں نواز شریف کی لند ن آمد پر ان سے مل کر میثاق جمہوریت کو ایک عہد نامہ بنانے میں کامیاب ہوئیں اور وقت نے ثابت کیا کہ یہی میثاق جمہوریت پاکستان میں امن کا پیغام لایا اور اسی سے جمہوریت پھلی پھولی۔

محترمہ میثاق جمہوریت کے بعدعوام کی طاقت سے کراچی آ گئیں اور عوام نے ایک بار پھر ان کا والحانہ استقبال کیا، راقم کو بھی پیرس سے خاص محترمہ کے کاروان جمہوریت میں شریک ہونے کے لئے کراچی پہنچنے کا حکم صادر ہوا ور یہاں بھی جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والی بے نظیر کو سانحہ کار ساز کے نتیجے میں آگاہ کیا گیا کہ وہ اپنی عوامی ذمہ داریاں ترق کر ے واپس چلی جائیں تو ان کے لئے بہتر ہے ، لیکن بے نظیر وطن کے لئے ہی وقف ہو چکیں تھین اور الیکشن 2008ء کے نتیجے میں لیاقت باغ جلسے کے بعد واپس نکلتے ہوئے محترمہ کو سازش کے تحت شہید کر دیا گیا، وطن لہو لہو ہو گیا، پاکستان کا بچہ بچہ اشکبار تھا، پوری دنیا میں محترمہ کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا،عالمی طور پر محترمہ کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا، عوا کی لیڈر عوا م کے دکھوں کا مداوا کرنے پاکستا ن آئیں اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر کے چلی گئیں،21جو ن1953ء کو کراچی میں جنم لینے والی بے نظیر 27دسمبر2007ء کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔ عوام نے ایک بار پھر شہید رانی کی پیپلز پارٹی کو منتخب کیا اور اقتدار عوام کی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا کیونکہ یہ عوام سے بے نظیر کے مسلسل رابطے کا نتیجہ تھا کہ بے انتہا سازشوں کے باوجود عوام میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کسی صورت کم نہ ہو سکی اور آ ج بھی عوام سے دور کرنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کرنے والے سازشیوں کو جان لینا چاہیے کہ بے نظیر شہید ہو کر اپنا خون اس وطن کی مٹی میں شامل کر چکی ہیں اور ان کا جگر گوشہ بلاول بھٹو عوام کو ان کے حقوق کے لئے میدان میں آ گیا ہے اب بھٹو اور بے نظیر کی پیپلز پارٹی کا وارث بلاول بھٹو ہے جسے نڈر تجربہ کار والد آصف علی زرادری کا کاندھا میسر ہے اور جلد ہی بے نظیر کا لعل اس م ملک کے عوام کے مسقبل کو سنوارنے کی باگ دوڑ سنبھال لے گا،پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی جماعت اور محترمہ بے نظیر بھٹو عوام کے دلوں کی دھڑکن تھیں اور ہمیشہ عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے