کمزور ترین احتساب کا ادارہ ، قومی احتساب بیورو (نیب)

وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دو کیسز ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ایک کیس اور وزیر اعظم کے دست راست میاں منشا کے خلاف ایک کیس ، یہ چار وہ کیس ہیں جن کی وجہ سے نیب کا ادارہ روزانہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے ، چودہ جولائی دو ہزار پندرہ کو نیب نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی ایک سو اناسی میگا کرپشن سکینڈلوں کی ، اور آج ساڑھے گیارہ ماہ ہو گئے ہیں نیب ان چار کیسوں کی وجہ سے یہ فیصلہ تک نہیں کر سکا کہ یہ کیس بنتے بھی ہیں یا نہیں ، یہ سیاسی کیس ہیں یا حقیقت میں کرپشن اور بدعنوانی ہوئی ، ان کیسوں کی تفتیش بنتی بھی ہے یا نہیں ، اربوں روپے کے سکینڈلوں کی تحقیقات کے دعویدار نیب کی حالت اس قدر کمزوراور بے اثر ہو چکی ہے کہ پٹواری ، سی ڈی اے کے افسروں ، لائن مینوں ، چھوٹے موٹے کرپشن کرنے والوں کے لیے تو فرعون بنا ہوا ہے لیکن اعلی حکومتی شخصیات کے سامنے اس قدر بے بس اور خوف میں مبتلا ہے کہ فیصلہ کرنے کی جرات تک نہیں ہے ۔

ساڑھے گیارہ ماہ گزر گئے ہیں سپریم کورٹ میں نیب کی طرف سے میگا کرپشن کیسز کی رپورٹ جمع کرائے ہوئے ، ان ساڑھے گیارہ ماہ میں نیب 179 میں سے صرف سولہ غیر اہم کیسز تھے جن کے بارے میں نیب نے فیصلہ کیا کہ یہ قابل تفتیش ہیں یا نہیں اور ان کی انکوائری کی جائے یا بند کیے جائیں ، وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دو تین کیسوں کی وجہ سے نیب کے چیئرمین میگا کرپشن سکینڈلوں کو حل کرنے کی طرف آ ہی نہیں رہے ،
سپریم کورٹ میںچودہ جولائی دو ہزار پندرہ کو قومی احتساب بیورو نے ترمیم شدہ فہرست جمع کرائی تھی جس میں میگا کرپشن سکینڈلوں کے بارے تمام تفصیلات درج تھیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کو ان میگا کرپشن سکینڈلوں کے بارے جلد تحقیقات کو مکمل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن گیارہ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا نیب وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی فیملی ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، مسلم کمرشل بنک کے سربراہ میاں منشا ، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ، این آئی سی ایل کیس ، یونس حبیب ، چوہدری شجاعت ، ایاز خان نیازی اور دیگر اہم کاروباری و سیاسی شخصیات کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے ، گزشتہ پندرہ سالوں سے زیر التوا ان کیسوں کے بارے میں نیب نے پہلے اکتیس دسمبر دو ہزار پندرہ کی ڈیڈ لائن دی لیکن تب بھی نیب ان کے بارے میں یہ تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ کیس شواہد کی بنا پر بنتے بھی ہیں یا نہیں ، جس کے بعد نیب نے اکتیس مارچ دو ہزار سولہ کی ڈیڈ لائن دی لیکن اکتیس مارچ تک نیب صرف سولہ کیسوں کے بارے فیصلہ کر سکا جن میں سے کوئی بھی ہائی پروفائل کیس نہیں ہے ، نیب کے ایک سینئیر عہدیدار کے مطابق چیئرمین نیب اس وقت کسی بھی بڑے کیس کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہے ،

گزشتہ سال سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ نیب کن کیسوں کی تحقیقات کر رہا ہے، وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں اور رائے ونڈ روڑ کی تعمیر کے غیر قانونی کنٹریکٹ اور بدعنوانی کے انتہائی آسان کیس نیب گیارہ ماہ میں اس حد تک حل نہیں کر سکا کہ یہ کیس قابل تفتیش ہیں یا نہیں ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بھی ہے جس پر نیب کو متعلقہ ڈی جی کی طرف سے رپورٹ موصول ہو چکی ہے لیکن نیب اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکا، اس رپورٹ کے مطابق فنانشل سکینڈلز میں ستر کروڑ روپے کی کرپشن کا کیس تانڈیوالا شوگر ملز کے خلاف پندرہ جون کو شروع کیا گیا جس میں غازی اختر خان ، ہارون اختر خان اور صبا ہارون اختر کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں ، سابق چیئرمین این آئی سی ایل عابد جاوید اکبر کے خلاف سو ملین روپے کا کیس بیس اپریل دو ہزار پندرہ کو شروع کیا گیا ، مہوش جہانگیر ، جہانگیر صدیقی کے خلاف دو ارب روپے کے ایزگارڈ نائن کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کا آغاز چھ مئی دو ہزار پندرہ کو کیا گیا ، سابق وزیر بلوچستان میر عبدالغفور لہڑی کے خلاف یکم جولائی دو ہزار پندرہ کو کیس کی تحقیقات کی منظوری دی گئی ، ریکو ڈک سکینڈل کی تحقیقات سابق چیئرمین محمد فاروق اور دیگر کے خلاف چوبیس جون دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئیں ، چیف منسٹر خیبر پختونخواہ کے سپیشل اسسٹنٹ سید معصوم شاہ کے خلاف تیئس جنوری دو ہزار پندرہ کو نیب نے انکوائری کی منظوری دی ، بارک سینڈی کیٹ راولپنڈی کے سربراہ اشتیاق حسین اور دیگر کے خلاف بیس کروڑ روپے کی کرپشن کی انوسٹی گیشن تیس جون دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئی ، رشید اللہ یعقوب کے خلاف کراچی سٹاک ایکسچینج میں عوام کے پیسے کی لوٹ مار کے اکاون کروڑ روپے کے سکینڈل کی تحقیقات یکم جون دو ہزار پندرہ کو کیا گیا ، مضاربہ سکینڈل کے محمد نذیر اور دیگر کے خلاف انوسٹی گیشن کی منظوری سترہ جون دو ہزار پندرہ کو دی گئی ، سیکرٹری بلدیات سندھ علی احمد لنڈ کے کلاف پچیس کروڑ روپے کی کرپشن کی انوسٹی گیشن ستائیس مئی دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئی ، سابق سیکرٹری ہائوسنگ ذکی اللہ کے خلاف انتالیس کروڑ روپے کے ناجائز اثاثہ بنانے کے کیس میں تیس کروڑ روپے کی ریکوری کی منظوری پندرہ جون دو ہزار پندرہ کو دی گئی ، چمن ڈسٹرکٹ کے پی آر سینٹرکے انچارج حسین آفریدی کے خلاف انتیس کروڑ روپے کی کرپشن کا کیس پانچ اپریل کو عدالت میں جمع کرایا گیا ،

لینڈ سکینڈلوں یں سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے افسران کے خلاف چوبیس کروڑ روپے کی کرپشن کی انکوائری کی منظوری یکم جولائی دو ہزار پندرہ کو دی گئی ، پشاور یونیورسٹی کے افسران کے خلاف دس کروڑ روپے کی غیر قانونی زمین کی خریدوفروخت کیس کی انکوائری چار جون دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئی ، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کے خلاف پندرہ مئی دو ہزار پندرہ کو انکوائری کی منظوری دی گئی ، نیشنل پولیس فائونڈیشن کی انتظامیہ کے خلاف غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس کی تحقیقات پچیس فروری دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئیں ، ایلاسم ہولڈنگ پاکستان کے خلاف ڈی ایچ ااے کیس میں پچاس کروڑ روپے کی غیر قانونی ڈیل کی تحقیقات انتیس اپریل دو ہزار پندرہ کو شروع ہو گئیں ، دیوائن ڈویلپرز لاہور کے سربراہ امجد عزیز کے خلاف اکتیس کروڑ روپے کی غیر قانونی کیس کی انکوائری آٹھ جون دو ہزار پندرہ کو شروع کی ، نیب نے سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے افسران کے خلاف ایک اور کیس میں باون کروڑ روپے کے سکیندل کی تحقیقات یکم جولائی دو ہزار پندرہ کو شروع کیں ، سابق ایم این اے سعد اللہ خان سابق چیئرمین پی ایم سی کے خلاف پلاٹ سکینڈل میں تیرہ کروڑ روپے کی تحقیقات میں بارہ کروڑ روپے کی ریکوری کی منظوری بارہ جون کو دی گئی ، زوہیب گارڈن اسلام آباد کے سربراہ اور ایم ڈی امجد علی کے خلاف آٹھ کروڑ روپے کی کرپشن کی انوسٹی گیشن سترہ جون د وہزار پندرہ کو ہوئی ، منیر میگا مال سکینڈل میں پچاس کروڑ روپے سکینڈل کی تحقیقات انتیس اپریل دو ہزار پندرہ کو شروع کی گئیں ، فتح ٹیکسٹائل ملز کے کیس میں انوسٹی گیشن چھبیس جون کو شروع ہوئی ، پرونشل ہائوسنگ اتھارٹی کے خلاف ایک ارب بیس کروڑ روپے کے سکینڈل کی انوسٹی گیشن کی منظوری اٹھائیس اپریل دو ہزار پندرہ کو دی گئی ، ظہور احمد وٹو کے خلاف ایک ارب پندرہ کروڑ روپے کی انوسٹی گیشن بارہ مئی دو ہزار پندرہ کو شروع ہوئی ، سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک آصف ہاشمی کے خلاف تیس کروڑ غیر قانونی لینڈڈیل کی انوسٹی گیشن بارہ فروری دو ہزار پندرہ کو منظور کی گئی ، ایچی سن کالج کے افسران اور انتظامیہ کے خلاف چالیس کروڑ روپے کا کیس آٹھ مئی دو ہزار پندرہ کو شروع کیا گیا ، قادر بخش سابق سیکرٹری اور دیگر کے خلاف پینتیس کروڑ روپے ریونیو ریکارڈ میں کرپشن کا کیس بارہ مئی دو ہزار پندرہ کو منظور کیا گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے