اداس عیدیں


ان تمام اقوام کے لئے جو دنیا میں کہیں بھی دہشتگردی کے نشانہ پر ہیں ۔

میں اُن کو کیسے کہوں "مبارک”؟
وہ جن کے نورِ نظر گئے ہیں

وہ مائیں جن کے جگر کے ٹکڑے
گُلوں کی صورت بکھر گئے ہیں

وہ جن کی دکھ سے بھری دعائیں
فلک پہ ہلچل مچا رہی ہیں

میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں

وہ بچے عیدی کہاں سے لیں گے؟
تباہ گھر میں جو پل رہے ہیں

وہ جن کی مائیں ہیں نذرِ آتش
وہ جن کے آباء جل رہے ہیں

وہ جن کی ننھی سی پیاری آنکھیں
ہزاروں آنسو بہا رہی ہیں

میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں

بتاؤ اُن کو میں عمدہ تحفہ
کہاں سے کر کے تلاش بھیجوں؟

بہن کو بھائی کی نعش بھیجوں
یا ماں کو بیٹے کی لاش بھیجوں؟

جہاں پہ قومیں بہت سے تحفے
بموں کی صورت میں پا رہی ہیں

میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں

وہاں سجانے کو کیا ہے باقی؟
جہاں پہ آنسو سجے ہوئے ہیں

جہاں کی مہندی ہے سرخ خوں کی
جنازے ہر سُو سجے ہوئے ہیں

جہاں پہ بہنیں شہیدِ حق پر
ردائے ابیض سجا رہی ہیں

میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
اداس عیدیں منا رہی ہیں

آج سے 6 سال قبل یہ نظم نظروں سے گزر کر چھاپ بنا گئی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے