رحیم یار خان کی شکیلہ کا دکھ ۔۔۔!

یہ کوئی تقریبا ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے ہمارے ایک بہت ہی محترم دوست جو سرکاری افسر ہیں خبریں دینے میں ماہر ہیں انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان میں نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی ڈسٹرکٹ افسر اسلام آباد آئی ہیں ان سے ملاقات کرنی ہے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ایک تن تنہا خاتون ایک ادارے میں ملازم ہوتے ہوئے بھی اس ادارے کی کالی بھیڑوں اور سفید ہاتھیوں سے کیسے لڑ رہی ہیں ، ان کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جو درخواستوں سے بھرا ہوا تھا ، این سی ایچ ڈی کے صوبائی سربراہ ، ڈی جی ، چیئرمین ، متعلقہ وزراء ، وزیر اعظم ، سپریم کورٹ ، نیب ، ایف آئی اے ، انسداد ہراسان خواتین کے ادارے سمیت کوئی عدالت نہیں جس کے دستاویزات ان کے پاس نہیں تھے ، وہ انصاف کی بھیک مانگ رہی تھیں انہیں کسی نے بتایا اسلام آباد جائیں شاید وہاں انصاف مل جائے ، رحیم یار خان میں نہیں ملا ، لاہور میں نہیں ملا ، پورے پنجاب میں نہیں ملا ، تو وفاقی سطح پر کوشش کریں ،

شکیلہ بی بی اس وقت نوکری سے عارضی طور پر معطل تھیں ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر صاحب کی مرضی کے مطابق وہ نوکری نہیں کر سکیں اور انہیں وہ ای میلز اور فون اور ہر طرح سے ہراساں کرتے رہے لیکن اس باہمت خاتون نے اس ماحول میں بھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور اس اپنے افسر کے خلاف درخواست دی ، اس کے بعد تو اس خاتون پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، میں دس سال سے صحافت کر رہا ہوں میں پہلی دفعہ حیران ہو گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ادارے جس میں سینکڑوں افراد کام کرتے ہیں وہاں ایک ایک شخص کو ان مظالم کا پتہ تھا علم تھا ان کے سامنے تھا پھر بھی بے حسی ہے کی انتہا ہے کہ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ، ساتھ دینے والا نہیں ، ان ریٹائرڈ فوجی افسر صاحب نے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی اور انکوائری بھی کس چیز کی ؟ کہ اس خاتون نے دفتر کے اندر خود کشی کی کوشش کی ، اس معاملے کی انکوائری میں بھی یہ خاتون ہی قصور وار ٹھہرائی گئیں ، اس بات سے قطع نظر کہ یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر فرض کیا خود کشی کی کوشش کی بھی تو کس وجہ سے ؟ کس سے تنگ آ کر ؟

جن دنوں یہ خاتون اسلام آباد آئیںوہ معطل تھیں اور یقین کریں جہاں ہم بیٹھے چائے پی وہاں کا بل دینے پر بھی بضد رہیں ، بہت سی درخواستیں اور بہت سے دستاویزات اکھٹے کر کے میں بھی دفتر پہنچ گیا ، اس پر خبر کی ایک دو خبریں شائع ہوئیں جب خبروں کا واقعی اثر ہونے لگا اور اس خاتون کو صوبائی دفتر میں بلایا گیا تو انہی دنوں ایک اور خبر دی جس کے بعد دفتر سے واضح طور پر بتایا گیا کہ اب آپ نے اس ادارے کے خلاف کوئی خبر نہیں دینی ۔۔۔۔۔ بس یہ تھی ہماری صحافت اور ایک خاتون کو انصاف دینے کی تمام تر کوششیں ۔۔۔
اس کے بعد اس خاتون کو جھوٹ بولتے رہے کہ انشا اللہ خبر شائع ہو جائے گی ، کیا کرتا میں ، فون پر رو رو کر وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سناتی ، ایک دو خبریں شائع ہو گئیں اسے حوصلہ ہوا ، تو اب اس کا حوصلہ کیسے توڑتا ، اس کی ہمت کیسے ختم کرتا ، روز قسمیں کھاتا کہ شائع ہو جائے گی ، ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے دوسری بات ہی نہیں کی ، ایک دو اور دوستوں کو خبریں بھیجنا شروع کر دیں ، لیکن وہ بھی کیا شائع کرتے انہیں کچھ پس منظر کا نہیں پتہ تھا ۔

ایک دن خاتون نے بتایا کہ وہ اسلام آباد آئی ہیں ان کو یہاں پر انسداد ہراساں خواتین کے ادارے نے بلایا ہے انہوں نے یہاں پر بھی درخواست دی تھی اور اس ادارے کی سربراہ بھی خاتون تھیں ، بہت ہمت اور حوصلے بلند کر کے و ہ وہاں پہنچ گئیں ، شام کو پتہ چلا کہ اس ادارے سے بھی مایوسی ہوئی ، اور سفارشیں زیادہ کام کر گئیں ان کی بات سنی تک نہیں گئیں ، پھر وہ دستاویزات اور درخواستوں کا بیگ بھر کے دنیا آفس پہنچ گئیں ، ان سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ شاید ہمت اور حوصلہ کی آخری سطح پر ہیں اور اگر میں نے صرف یہ تک کہہ دیا کہ یہاں خبر پتہ نہیں شائع ہوتی ہے کہ نہیں تو شاید اس خاتون کی سانس تھم جائے ، آنسوئوں سے بھرے چہرے سے انہوں نے مجھے کہا کہ بھائی آپ میرا آخری سہارا ہو ، میری پوری کہانی شائع کر دو، میں نے جھوٹا وعدہ کیا قسمیں کھائیں اور ان کے جانے کے بعد کبھی ایکسپریس کے دفتر تو کبھی نوائے وقت کے دفتر تو کبھی جنگ کے دفتر ۔۔۔ لیکن خبر شائع نہ ہوئی

وہ خاتون ہمت ہار کر واپس رحیم یار خان چلی گئیں ایک دو دفعہ فون پر بتایا کہ کیس میں کیا پیش رفت ہوئی پھر وہ بھی بتانا چھوڑ دیا انہوں نے ، آج اسلام آباد میں انہی کے دوست جو سرکاری افسر ہیں انہوں نے بلایا ، ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اس خاتون نے آپ کے لیے آم کی پیٹی بھیجی ہے ۔

اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں ، لیکن اتنا ضرور خیال آیا کہ دنیا اخبار میں نہیں تو کم از کم کہیں بھی ایک آرٹیکل تو لکھا جا سکتا ہے ، ہم بہت ہی بے حس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ہم ظلم کرتے نہیں لیکن ظالم کا ساتھ ضرور دیتے ہیں ، مظلوم کے لیے ہم صرف ہمدردی کر سکتے ہیں ، ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اس خاتون کو انصاف کیوں نہیں ملا ؟ یہ تو کوئی سو میں سے ایک خاتون تھی جس نے اتنی ہمت کر لی اس کا مطلب ہے باقی ننانوے فیصد خواتین تو ظلم سہتی ہیں ااور آواز بھی بلند نہیں کر سکتیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے