بریگزیٹ:قومی ریاست کی طرف بر طانیہ کی واپسی

صنعتی انقلاب، انقلاب فرانس اور نپولین کی انقلابی جنگیں وہ تین اہم تاریخی واقعات ہیں جنہوں نے قومی ریاست(nation state) کو جنم دیا۔اٹھارویں صدی اور اس سے قبل (kingle state) یا شاہی ریاستیں ہوا کرتی تھیں جن میں بادشاہ کا عوام سے واسطہ جاگیرداروں کے ذریعے ہوتا تھا جو اس کے لئے خراج اور فوج اکھٹی کرکے دیتے تھے ۔ریاست کا اس زمانے میں دائرہ کار صرف عدل و انصاف ،اندرونی امن و امان اور بیرونی دشمنوں سے بچاؤ تک محدود تھا۔

صنعتی انقلاب (industrial revolution)کے بعد پیداواری وسائل بڑھنے اور چھاپے خانہ کی ایجاد کے بعد آمریت سے نفرت کے خیالات پھیلنے سے شاہی ریاست (kingly state) کا پورے یورپ میں کہیں بظاہر اور کہیں پس پردہ تختہ الٹ گیا، ان میں انقلاب فرانس سب سے زیا دہ تاریخ ساز واقعہ ہے۔جب پہلی بار بادشاہ کی جگہ عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دیا گیا۔تب ہی پہلی بار ریاست کے لئے ماں کا لفظ استعمال ہوا ۔اب ریاست کو عوام کی ہر قسم کے حقوق کا ذمہ دار ٹہرایا جانے لگا اور بدلہ میں ریاست ہر شہری کا جان اور مال کی مالک بن گئی ۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے فرانس کو دنیا کی پہلی نیشن سٹیٹ سمجھا جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد جب نپولین نے پورے یورپ کو روند ڈالا تو یہ انقلابی نظریات پورے یورپ میں پھیل گئے اور یورپ کے تمام ملک ممالک میں قومی ریاست بننے کی ایک گویا لہر چل پڑی ۔برطانیہ سے لے کر جرمنی تک ہر جگہ حب الوطنی کی بنیاد پر ریاست اور شہری (citizen) میں جذباتی رشتہ کو فروغ دیا جانے لگا۔

قومی ریاست کے قیام کا مقصد ایک یک رنگ ثقافت (uniform culture) کی حامل قوم (nation) کا قیام عمل میں لانا تھا۔ اس ریاست کی زمہ داری سمجھی جاتی تھی کہ معاشی ، کلچرل اور سماجی معاملات میں اپنے اختیارات ایک ہتھیار (instrument)کے طور پر استعمال کر کے سختی اور نرمی سے ملک میں اتحاد ویگانگت پیدا کرسکے۔اپنے شہریوں کو جہاں تعلیم صحت، انصاف، روزگار کے مواقع اور خوش حالی جہاں ان قومی ریاستوں کو مطمع نظر ٹھرا، وہیں مخالفین یا دشمنوں کا اپنی قوم کے فائدہ کی قیمت پر استحصال بھی ان کی قومی ڈکشنری میں کار ثواب سمجھا جانے لگا۔ اس کے علاوہ نسل پرستی ، قومی تفاخر ، تعصب ، (xenophobia) اور استعماریت(imperial motives) جیسے انسان دشمن رویوں اور عزائم نے بھی قومی ریاستوں کی پالیسیوں کو ڈیفائن کرنا شروع کر دیا ۔نیشن سٹیٹ کی جڑوں میں شامل ان خون آشامیوں نے پھر پوری دنیا کو پہلی اور دوسری جنگ میں دنیا کو ایسا خاک اور خون میں نہلایا کہ اس سے پہلے اور بعد کی تاریخ میں ایسی مثال ملنا مشکل ہے۔ان جنگوں میں قوم اور وطن پرستی کے نام پر وہ بربریت دیکھنے میں آئی کہ درندگی بھی اس پر شرمندہ ہوجائے ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد تباہ حال یورپ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے جب مغرب کے کرتا دھرتا سر جوڑ کر بیٹھے تو ان کے سامنے دو سوال تھے ایک یہ کہ اشتراکیت کے روسی ریچھ سے کیسے نبٹا جائے اور دوسرا کہ آپس کی اس جان لیو اسر پھٹول سے مستقبل میں کیسے بچا جائے ؟طے یہی ہوا کہ ایک صدی سے رائج قومی ریاست کے نظریہ کو دفن کرنے کا وقت آپہنچا ہے ،اب الگ دنیاؤں میں رہنے کی بجائے یورپی ملکوں کو اپنے بارڈر،منڈیاں اور دل اپنے ہمسایوں اور دیگر یورپی ممالک کے لئے کھول دینے چاہیے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے جس حد تک ہوسکے ، قوم اور نسل پرستی کے جذبات کو دبایا جانا ہی امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔یورپین ممالک کواپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں ایک دوسرے کی مدد فراہم کرنے کی ترغیب دینے کا فیصلہ ہوا ، کیونکہ امیر ممالک جب غریب ملکوں کوسپورٹ کریں گے تو ہی وہ اشتراکیوں سے بچ کر باقی مغربی دنیا کے ساتھ چل سکیں ۔امیگریشن قوانین میں نرمی کی گئی تاکہ جنگ کی وجہ سے کم ہونے والی افرادی قوت کو تیسری دنیا اور غریب یورپی ملکوں کی سستی لیبر سے پورا کیا جاسکے، پھر ان مختلف قومیتوں اور مذاہب کے افراد کو یورپی معاشروں میں ضم کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ان ساری خارجہ اور داخلی تبدیلیوں کو نیشن سٹیٹ سے مارکیٹ سٹیٹ(market state) کی طرف پالیسی شفٹ قرار دیا جا تا ہے۔

اس تبدیلی کا آغازپچاس کی دہائی میں معاہدہ روم(treaty of rome) سے بننے والی یورپی تعاون کونسل سے ہوا اور اپنے نقطہ عروج پر یہ سلسلہ اس وقت پہنچا جب دو دہائیوں قبل (Treaty of Masstrich) نے یورپی یونین کو عملی شکل دے کر پورے یورپ کو بارڈر اور ویزے کی پابندیاں ختم کر کے ایک مارکیٹ سٹیٹ میں بدل دیا ،جس میں تجارت کے لئے مشترکہ منڈی کا قیام اور لوگوں، اشیاء ،سروسز اور سرمائے کی گردش پورے خطہ میں بلا روک ٹوک ممکن ہونے لگی۔چونکہ یورپ کا ہر چھوٹا بڑا ملک اس یورپی یونین کا حصہ بن گیا تھا اس لئے یہ توقع کی جانے لگی کہ اب صدیوں سے جاری جنگیں اور نفرتیں آخرکار اپنے انجام کو پہنچ گئی ہیں۔لیکن دو دہائیوں بعد ہی وہ شکوہ شکایتیں دوبارہ لوٹ آئے جن سے نجات کے لئے یورپی یونین اور مارکیٹ سٹیٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس تنا ظر میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علحیدگی کا فیصلہ صرف نقطہ آغاز تصور کیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت مارکیٹ سٹیٹ اوریورپی یونین کا تصور اپنے اندر کچھ عملی نقائص ( practical loop holes) لئے ہوئے ہے جو اب ان کی بقا (survival)کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔اول یہ کہ مارکیٹ سٹیٹ بنیادی طور پر ایک اندھی ریاست ہوتی ہے جو اس سے بے غرض ہوتی ہے کہ اس ملک کی اکثریت کا مذہب اور کلچر کیا ہے،وہ چاہتی ہے کہ اس کی ریاست میں ہر قسم کے مذہب ،رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ پھلے پھولیں اور ملکی معیشت کی گاڑی کو چلانے میں اپنا کردار ادا کریں یہ بات ملک کی اکثریتی آبادی کو نہیں بھاتی اور جتنی مرضی قوم پرستی کے جذبات کو دبا دیا جائے یہ چنگاری ہمیشہ خرمن میں رہتی ہے ۔

ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اکثریتی طبقہ کے کلچرل خیالات ، نظریات، حقوق اور ویلوز(values) کی بہر صورت اسے چمپئین بنے ، جب ریاست اس پالیسی کی بجائے بہت زیادہ رواداری کو اپنائے تو اکثریتی عوام کے نظر میں وہ اپیل کھو نا شروع کر دیتی ہیاور پھر ریکشن پیدا ہوتا ہے جو آج کل ہم یورپ میں دیکھ رہے ہیں ۔ دوسرا ایک اہم ایشو امیگریشن پالیسی میں نرمی سے بڑی تعداد میں مسلمان اور دوسری قومیتوں کے لوگوں کا یورپ میں بسنا اور وہاں کی حکومتوں کا انھیں (accomodate)کرناہے۔ اس کی وجہ سے یورپین ممالک جس ثقافتی تنوع (multiculturalism) سے ایکسپوز ہوئے ہیں اس نے ان میں قوم پرستی کے جذبات کو دوبارہ ابھار دیا ہے ۔تیسرا یہ کہ یورپی یونین میں امیر ممالک کے شہریوں میں یہ خیال زور پکڑتا جارہا ہے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ غریب یو رپی ممالک پر لگنے کی بجائے ان کے اپنے ملک میں صحت ، تعلیم اور غربت کے خاتمہ پر خرچ ہونا چاہئے ۔ان کو اس کوئی غرض نہیں کہ یونان یا بیلا روس میں لوگ بھوکے مر رہے ، ان کا بس یہ مطالبہ ہے کہ ٹیکس پئیرز(tax payers) کا پیسہ ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے ۔

ا نھیں شکایتوں اور شکوؤں کی وجہ سے برطانیہ کے عوام نے اپنے ریفرینڈم میں یورپی یونین سے علحیدگی کا فیصلہ سنا دیا۔جو کمپئین اس سلسلہ میں چلائی گئی اس کا فوکس بر طانیہ کے مارکیٹ سٹیٹ بننے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی پالیسی تبد یلیاں تھیں مثلا امیگریشن قوانین میں نرمی اور مشرقی یورپ کے مزدوروں کا برطانوی لیبر کو بے روزگار کرنا اور یورپی یونین کے غریب ملکوں کا معاشی بوجھ بٹانا سر فہرست ہیں۔

اس صورتحال میں سب سے المناک پہلوریفرینڈم کا فیصلہ آتے ہی اقلیتی آبادی پر متعصب گوروں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہونا ہے۔سو سے زیادہ اس قسم کے تشددکے واقعات اب تک رپورٹ ہوچکے ہیں۔ جن سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ بر طانیہ میں اب ایک بڑا طبقہ دوبارہ اس نیشن سٹیٹ (nation state)کی طرف واپسی کا سفر شروع کر چکا ہے جس میں صرف ایک ہی نسلی گروہ ریاست کا سیا ہ اور سفید کا مالک بن کے دوسرے کے حقو ق غضب کرنا اپنا جائز حق سمجھتا ہے اور یہ غا لب اکثریت صرف یورپ سے پیچھا چھڑانے تک محدود (limited)نہیں رکھے گی بلکہ بات بہت آگے تک جائی گی۔ دوسری جانب برطانیہ کے اس فیصلہ نے فرانس اور جرمنی کے قوم پرستوں کو بھی شہ دے دی ہے اور اب وہاں بھی یورپی یونین کو خیر آباد کہنے کے نعرہ بلند ہو رہے ہیں ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا برطانیہ کے بعد دوسرے یورپی ممالک بھی تین سو ساتھ ڈگری کا ٹرن لے کر دوبارہ قومی ریاستوں کی طرف مڑ کر دوسری جنگ عظیم والی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے یا برطانیہ کے قوم پرست اپنی وقتی جذباتیت سے نکل کر قومی تعصب کی آگ میں جلنے سے اپنے ملک اور باقی یورپ کو بچا پائیں گے ۔ پہلی صورت ہر کسی کے لئے نا پسندیدہ ہے کیونکہ اب یورپ میں ہر رنگ نسل کے لوگ تھوڑی بات تعداد میں رہ رہے ہیں اور قوم پرستی کی واپسی وہاں کے معاشروں میں ایسی زبردست کشمکش پیدا کردے گی جس کے اثرات پوری دنیا پر پڑے گے ۔ اس لئے گوروں کے پاس یہی آپشن ہے کہ ہوش کے ناخن لے کر اپنے مسائل کا حل ماضی کی ناکام نیشن سٹیٹ کے نظریہ میں تلاش کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں مارکیٹ سٹیٹ کی کمی کوتاہیوں کو دور کرنے میں صرف کریں تاکہ یورپ اور پوری دنیا مستقبل میں کسی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہ سکیں۔اس میں صرف یورپ اور دنیا کا نہیں برطانیہ کا اپنا بھی بھلا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے