اگر یہی ’سوری‘ اسامہ کرتا تو؟

مسٹر ٹونی بلئیر! آپ اور آپ کے اتحادی جھوٹ بولتے ہیں اور صرف برطانوی اور امریکی عوام سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپ میڈیا پروپیگنڈا کی انتہا کو چھوتے ہیں اور اپنی ناجائز جنگ کو جائز قرار دینے کے لیے پورا میکنزم فعال کر دیتے ہیں۔ آپ عراق جنگ سے تین ماہ پہلے پوری دنیا کے میڈیا مالکان کو واشنگٹن بلاتے ہیں اور انہیں آفر کرتے ہیں کہ ہمارے جنگی صحافی آپ کو مواد فراہم کریں گے کیوں کہ آپ کے صحافی جنگ میں ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔

آپ دن رات میڈیا اور پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ آپ اور امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسیاں دنیا کی بہترین ایجنسیاں ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا کو خصوصی ہدایات تھیں کہ آپ کی ٹیم اور صدر بش کے موقف کو ہر لحاظ سے سرفہرست رکھا جائے۔ آپ میڈیا کے ذریعے عوام اور دنیا کے سامنے وہ حقائق اور نقشے رکھتے ہیں، جن کے بارے میں آپ کو معلوم تھا کہ یہ غلط ہیں۔

آپ کی عراق جنگ کے خلاف تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ آپ جمہوریت کے علمبردار بنتے ہیں لیکن آپ اور آپ کے چند اتحادی آمرانہ طریقے سے عراق پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کے ’ٹھوس ثبوت‘ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ نہ تو صدام کے القاعدہ سے روابط ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ملتے ہیں۔

آپ کی تیل کے ذخائر پر قبضے کی اس ناجائز جنگ کی وجہ سے ایک نہیں، دس نہیں، نوّے ہزار نہیں، ایک لاکھ نہیں، دس لاکھ نہیں بلکہ پندرہ لاکھ عراقی مارے جاتے ہیں۔ ہزاروں بچے مارے جاتے ہیں، ہزاروں حاملہ خواتین ہلاک ہوتی ہیں، لاکھوں بچیاں یتیم ہو جاتی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو ایک ایک کر کے دفنانا مشکل ہو جاتا ہے، ان کی آخری آرام گاہ اجتماعی قبریں بنتی ہیں۔ آج تک ہزاروں نامعلوم قبریں ہیں، جن کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ مرنے والے کون تھے اور کس خاندان سے تھے۔

آپ کی اس جنگ سے پندرہ لاکھ عراقی مہاجر بن جاتے ہیں، کم از کم بیس لاکھ بچے غذائی قلت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک پوری نسل تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتی ہے۔ یورینیم اسلحے کے اثرات کی وجہ سے آج تک وہاں اپاہج بچے پیدا ہو رہے ہیں۔

مسٹر ٹونی بلئیر! آپ کی اس جنگ کی وجہ سے پورے کے پورے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ ہو جاتا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والی فرقہ وارانہ جنگ جنم لیتی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں اور سالانہ ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ آپ کی اس جنگ کی وجہ سے داعش وجود میں آتی ہے، جس کی سفاکانہ کارروائیاں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ آج عراق کے وہ شہری پوری دنیا میں اپنے لیے جائے پناہ تلاش کر رہے ہیں، جن کو آپ نے امن اور صدام حسین کے بغیر ایک بہتر دنیا کا لالی پاپ دیا تھا۔

صدام حسین کو اس بات پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی کہ اس نے 1982ء کی مبینہ بغاوت میں ملوث الدجیل کے 140 افراد کو پھانسی دینے کے احکامات دیے تھے۔ ٹونی بلئیر!کیا آپ کا اور جارج ڈبلیو بش کا جرم اس سے کم سنگین ہے؟ کیا پندرہ لاکھ ہلاکتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ نائن الیون کے حملے میں تقریباً تین ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ کیا پندرہ لاکھ عراقی بچوں، خواتین اور مردوں کی زندگیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان پندرہ لاکھ ہلاکتوں کا جواب کون دے گا؟

کیا صرف ایک ’سوری‘ کہہ دینے سے آپ کے جرم معاف کر دیے جائیں؟ اس طرح تو اسامہ بن لادن کو بھی ’سوری‘ کہہ دینا چاہیے تھا اور صدام حسین کو بھی۔ وہ بھی کہہ سکتے تھے، ’ہم شرمندہ ہیں‘ یا ’ ہم سے غلطی ہو گئی‘۔ لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر جج ٹونی بلئیر اور جارج بش ہوتے تو وہ آج بھی جنگ کا اور ان کو پھانسی دینے کا ہی فیصلہ کرتے۔

مسٹر ٹونی بلئیر! آپ کے خلاف بھی جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور آپ کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ کے خلاف کڑی سے کڑی سزا بھی چند برسوں کی قید سے زیادہ نہیں ہو گی لیکن ہلاک ہونے والے پندرہ لاکھ انسانوں کے لواحقین ایک ایسی سزا بھگت رہے ہیں، جو نہ ختم ہونے والی ہے۔ اُن کے نقصان کا ازالہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے