دعائے استخارہ:جامعیت، اہمیت اور فوائد

استخارہ کا مطلب خیر طلب کرنا ہے۔ دعائے استخارہ کا مطلب کسی درپیش کام میں اللہ سے خیر طلب کرنا ہے۔ کیونکہ آدمی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے۔ اس لیے وہ خدا سے درخواست کرتا ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔(ترمذی) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔ (مشکوۃ)
ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا :
جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا

ہمارے ہاں استخارہ کے بارے میں چند بے اعتدالیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ استخارہ صرف اس وقت ہی کے لیے مخصوص نہیں ہے جب دو میں ایک کام کا انتخاب کا مسئلہ درپیش ہو۔ استخارہ ہر کام ، جو آپ کرنا چاہتے ہیں، کے لیے کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں استخارہ کی نماز کا خاص طریقہ اور اس کے لیے بہت خاص قسم کا اہتمام رائج ہے۔ نوافل اور دعا کے بعد با وضو ہوکر خاص کروٹ سونے اور کسی خواب کے آنے کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ یہ سب غیر ضروری ہے۔

مزید یہ کہ کچھ لوگوں نے دوسروں کے لیے استخارہ کرنے کا کوئی طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس کی وجہ لوگ خدا سے خود دعا کرنے کی بجائے خواہ مخواہ کسی کے محتاج ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ شاید خدا اس کی زیادہ سنتا ہے ہماری کم سنتا ہے۔ یا اس کے پاس استخارہ کا کوئی زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔

دعائے استخارہ خدا سے اپنے کاموں میں خیر مانگنے کی درخواست ہے۔ اور جیسا آپ اپنی ضرورتوں کے لیے خودمانگ سکتے ہیں کوئی اور نہیں مانگ سکتا۔ خدا نے اپنے نبی کریم کے ذریعے دعائیں بھی سکھا دیں ہیں اور اس لیے سکھائیں کہ ہمیں دعا کرنے کا ڈھنگ آئے نہ کہ اس لیے کہ ان الفاظ کو بلا سوچے سمجھے بس زبان سے ادا کردیں۔ لیکن اگر دعا میں بھی کوئی دوسرا آپ کا وکیل بن کر خدا سے دعا مانگے تو درحقیقیت وہ آپ کے اور خدا کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ کیا خدا کو یہ پسند ہو سکتا ہے کہ اس کا بندہ اپنی درخواست اپنے وکیل کے ہاتھ بھیجے، جسے اس نے نذرانے کے نام پر کچھ فیس دے دی ہو،اور خود خدا کے سامنے حاضر ہونے کی زحمت نہ کرے؟ یا یہ سمجھے کہ وہ خود دعا کرنے کے قابل نہیں جب کہ اس نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی ہو کہ خدا اپنے بندے سے براہ راست دعا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ رویہ کم علمی کے ساتھ خدا ناشناسی کا اظہار ہے۔

دعائے کے لیے مروجہ خاص قسم کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ بس دو نفل پڑھ کر دعا ئے استخارہ مانگ لیجیے۔ مسنون دعائے استخارہ یہ ہے :

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․(بخاری،ترمذی)
اس کے ترجمے پر غور فرمائیے:

"اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔”

یہ دعا بغیر نماز کے بھی یہ دعا مانگی جا سکتی ہے۔ نیز، کسی بھی نماز کے آخری قعدہ کے آخر میں درود شریف کے بعداس دعا کو مانگا جا سکتا ہے۔کم از کم نوافل میں سجدے کی حالت میں بھی اس دعا کو مانگا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سجدے کی حالت میں بندہ خدا کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس حالت میں خدا سے خوب دعا کیا کرو۔

تیسری بات یہ کہ کسی خواب کا آنا بھی ضرروی نہیں جس میں کوئی اشارہ پایا جائے۔تاہمِ خواب کا آنا ممکن ہےکیونکہ سچے خواب آنے کی بشارت نبی کریم ﷺ نے اس امت دی ہوئی ہے۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خواب میں اشارہ واضح نہ ہونے کی صورت میں آپ اشارہ درست طریقے سے سمجھ نہ سکیں۔ اس لیے بہتر یہ کہ دعائے استخارہ میں جو درخواست ہے کہ جو چیز بندے کے لیے بہتر ہو حالات اس کے موافق ہو جائیں تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔

دعائیں اور بھی بہت جامع ہیں لیکن استخارہ کی اس دعا سے بڑھ کرکوئی کامل دعا میں نے نہیں پائی۔ انسانی عقل اس میں کسی ایک لفظ یا نکتے کے اضافے کی گنجائش بھی نہیں پاتی۔ اس کی جامعیت ملاحظہ کیجیے:

اس دعا میں خدا کی عظمت اوراپنی عاجزی کا بیان دیکھیے۔ خدا کی مسقبل بینی اور قدرت کے سامنے اپنی درماندگی کا احساس ملاحظہ کیجیے۔ پھر اس کی رحمت سے امید اور اس کی عطا پریقین کا تاثر دیکھیے۔ اور پھر یہ درخواست کہ کام اگر میرے حق میں دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے اور انجام کے لحاظ بھی سے اچھا ہے تو اس کونہ صرف میرا مقدر کر دے، بلکہ اس کا حصول اور ا س کی انجام دہی بھی میرے لیے آسان بھی کردے، اتنا ہی نہیں، پھر اس میں مجھے برکت بھی دے۔ بندہ پھر دوسرے پہلو سے دعا کرتا ہے کہ اگر یہ کام دنیا اور آخرت اور انجام کے لحاظ سے میرے لیے اچھا نہیں تو مجھے اس سے دور کر دے اور اس کو مجھ سے دور کردے۔

لیکن دعا یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بندہ مزید درخواست کرتا ہے کہ اگر یہ کام جو میں چاہتا تھا ہو جائے اگر اس لیے نہیں ہوتا کہ میرے لیے بہتر نہیں تھا تو اے خدا تو اپنے علم اور ارادے سے میرے لیے جہاں خیر ہو وہاں اسے میرے لیے مقدر کردے ۔ پھر اس کے بعد کا نکتہ قابلِ لحاظ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ جس خیر کو خدا بندے کے لیے مقدر کرے وہ بندے کو دل سے پسند نہ آئے، اس صورت میں بندہ دعا کے آخر میں کہتا ہے کہ اس خیر کو میرے لیے مقدر کر دینے کے بعد میرا دل بھی اس پر راضی کر دے۔

سچ یہ کہ اس دعا کو مانگ کر پھر کسی اور بات کی حاجت نہیں رہتی۔خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے کہ خدا اس دعا کے نتیجے میں جو حالات بھی ہمارے لیے موافق کرے گا اسی میں خیر ہوگی۔ یہ دعا خدا کی طرف سے اس کے کریم نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں دیا گیا بہترین تحفہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے