کل نہرو اور پٹیل آج مود ی اور پاریکر، یہ برصغیر کی بدقسمیت ہے کہ ہر فیصلہ کن موڑ پر اسکی سیاسی قیادت تاریخی شعور کا اچھا مظاہرہ نہیں کر پائی۔

تقسیم ہند ایک شعوری فیصلہ تھا یا تاریخ کا جبر؟ قائم اعظم کا موقف کیا تھا؟ ایک رائے یہ ہے کہ یہ شعوری فیصؒہ تھا۔ قائد اعظم 1930ء سے ہی یکسو تھے کہ تقسیم ہند ناگزیر ہے اور اسی کے لیے کوشاں تھے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ انتہا پسند ہندو رویہ تھا جسکے باعث قائد اعظم تدریجا اس نتیجے تک پہنچے کہ تقسیم ناگزیر ہے۔ کیبنٹ مشن کو انہوں نے قبول کر لیا تھا۔ یہ نہرو تھے جنھوں نے اس کو سبوتاژ کیا۔ بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اسی موقف کے حامی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ 1947ء کی کانگرس کی قیادت پر جو اعتراض اٹھا رہے ہیں، آج خود انکی جماعت کے مودی انکے مصداق بن گئے ہیں۔

یہاں رک کر مجھے تاریخ کے باب میں دورویوں کا ذکر کرنا ہے کہ ان پر بات کیے بغیر یہ بحث درست سمت میں آگے نہیں بڑھے گی۔ ایک یہ کہ جب بھی ہم کسی تاریخی واقعے کو موضوع بناتے ہیں تو فورا سوال اٹھتا ہے کہ اسکی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک دانشورانہ اپج ہے جسکی کوئی عملی افادیت نہیں۔ یہ بہت سطحی اعتراض ہے۔ زمانہ ایک تسلسل کا نام ہے ۔ حال ماضی سے الگ ہے نہ مستقبل سے۔ یہ ماضی بتائے گا کہ حال کی تعمیر کیسے ہونی ہے۔ عصر حاضر کے بہت سے مسائل ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم انکی اصلاح نہیں کریں گے تو پھر مولانا مودودی کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ پاکستان اور بھارت کی مستقل دشمنی اس خطے کے اربوں افراد کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسکے باقی رہنے یا اس مین اضافہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد مسلسل حالتِ خوف میں رہے۔ یہ دشمنی ختم نہیں ہو سکتی اگر ماضی کے واقعات کا درست تجزیہ نہیں ہوگا۔

دوسرا رویہ شخصیات کے بارے مین غیر ضروری حساسیت ہے۔ ہم نے بعض افراد کے گرد عقیدتوں کے جالے بن رکھے ہیں۔

ہمیں خیال ہوتا ہے کہ انکا کوئی اقدام یا رویہ اگر زیر بحث آ گیا تو ہماری ممدوح شخصیت کا بت مسمار ہو جائے گا۔ اگر کوئی یہ جسارت کر بیٹھے تو اس کے لیے جو لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے وہ ہر زہ سرائی ہے۔ یہ بھی ایک بے بنیاد بات ہے۔ بڑی شخصیات کا معاملہ یہ ہے کہ تاریخ کا ہر نیا مطالعہ ان کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔ انکا اجلا پن مزید نمایاں ہوتا ہے۔ رہی بات کمزور لوگوں کی جنہیں محض عقیدت تراشتی رہی ہے تو ی ہتار عنکبوت انکا دفاع نہیں کر سکتا۔ مکڑی کا جالا پتھر کی فصیل نہیں ہوتا جو ٹوٹ نہ سکے۔ پھر یہ کہ غیر پیغمبر انسان معصوم نہیں ہوتے۔ کسی کا کوئی فیصلہ اگر تاریخ کی کسوٹ پر پورا نہیں اترتا تو اسکی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انسانی عظمت کا تعین کسی ایک اقدام سے نہیں مجموعی زندگی کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔

اس وضاحت کے ساتھ ہم لوٹتے ہیں برصغیر کی تاریخ کی طرف۔ اس خطے کی تقسیم جن حالات میں ہوئی، اس نے دو ملکوں کے مابین مستقل دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ سب سے بڑا نتیجہ وہ فسادات تھے جس نے لاکھوں انسانوں کی جان لے لی۔ اگر کسی واقعے کی بنیاد ہی میں انسانی لہو اس کثرت سے استعمال ہوا تو بہت سی برساتیں بھی خون کے دھبے دھونے پر قادر نہیں ہوتیں۔ دوسرا نتیجہ ہجرت ہے۔ ہجرت بھی معمولی واقعہ نہیں۔ کراچی کے واقعات پر ایک نگاہ ڈالیے۔ آج یہ واقعہ ایک پوری نسل کی یادداشت کا مستقل حصہ ہے۔ وہ نسل جو خود اس تجربے سے نہیں گزری لیکن نصف صدی بعد بھی اسکے اثرات کو محسوس کرتی ہے۔ تاریخ میں قومیں ایسے تجربات کے اثرات سے نکلی ہیں لیکن اس کے لیے غیر معمولی شخصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا تو رونا ہی برصغیر کی اس بدقسمتی پر ہے کہ اسے کوئی ایسی شخصیت نہیں مل سکی جو تاریخی حادثات کے اثرات کو ختم یا ان میں کسی حد تک کمی کر سکتی۔

1998ء کے بعد جب بھارت اور پاکستان ایٹمی قوت بن گئے ، اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اس خطے کو تاریخی اثرات سے محفوظ کر لیا جاتا۔ خوش بختی نے ایک لمحے کو دستک دی جب نواز شریف واجپائی کو مینار پاکستان تک لے آئے۔ اس سے پہلے کہ تاریخ کسی دوسری سمت میں قدم اٹھاتی، تاریخی شعور سے بے بہرہ ایک ہجوم اٹھا اور راستہ گرد میں اٹ گیا۔ پھر کارگل کی چوٹیوں پر ایک دھماکہ ہوا اور وہ شاہراہ کھنڈرات می ںبدل گئی جہاں تاریخ نے قدم رکھنا تھا۔ اب اس کے سامنے ایک ہی پامال راستہ تھا۔ یہ راستہ مدت سے قزاقوں کے نرغے میں ہے۔ بنگلہ دیش میں مودی صاحب کے فرمودات پر ایک نگاہ ڈالیں تو آپکو اندازہ ہو جائے گا۔

میرا احساس ہے کہ کیبنٹ مشن کا منصوبہ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آبا کی فطری منزل تھی۔ علامہ اقبال کے اس خطبے کو موضوع یہ ہے کہ برصغیر میں مسلم تہذیب کا مستقبل کیسے محفوظ ہو؟ انکے خیال میں اگر معاملہ اہل کتاب سے ہوتا تو کوئی مشکل نہیں تھی کہ توحید کا مشترکہ تصور ایک قومیت کی اساس بن سکتا ہے۔ اس بنیاد پر وجود میں آنے والا نظام فکر، سماجی اعتبار سے انسانی تفریق پر یقین نہیں رکھتا۔ ہندوؤں کا معاشرتی نظام طبقاتی ہے جو خود ہندوؤں کے ایک قوم بننے میں حائل ہے۔ معاشرتی تصورات کا یہ تفاوت ہمیشہ تصادم کو جنم دیتا رہے گا۔ اس لیے مسئلے کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک یا کئی الگ ریاستیں وجود میں آجائیں ، برطانوی سلطنت کے اندر یا برطانوی سلطنت کے باہر۔ یہ کسی قوم یا مذہب کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ اقبال تو اسی خطبے میں یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی دوسرے فرقے کے خلاف کدرکھتا ہے وہ پست اور رزیل ہے۔

کیبنٹ مشن برطانوی سلطنت کے اندر اسی مسئلے کا ایک حل تجویز کرتا تھا جس کے تحت برصغیر تین زون میں تقسیم ہو جاتا۔ اگر کوئی خطہ مکمل خودمختاری چاہتا تو دس سال کے بعد اس حق کو استعمال کر سکتا تھا۔ اب یہ تاریخ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کو بہر حال جانا تھا۔ اگر 1946ء میں برصغیر تین نیم خودمختار حصوں تقسیم ہو جاتا تو برطانیہ کے جانے کے بعد یہ حصے خودبخود مکمل خودمختار ملک بن جاتے۔ یہ واقعہ دس سال سے کہیں پہلے ہو جاتا۔ اس صورت میں اتنی بڑی تعداد میں انسان مرتے اور نہ ہجرت کا ایسا بڑا المیہ پیش آتا۔ بعد میں تاریخ ہمیں یہیں لے آئی۔ آج کا برصغیر کم و بیش ان ہی تین حصوں میں بٹ چکا جو کیبنٹ مشن نے تجویز کیے تھے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ آسام بنگلہ دیش کے بجائے بھارت کا حصہ ہے۔

بہرو اور پٹیل اگر حائل نہ ہوتے تو ہم تقسیم کے فسادات سے بچ سکتے تھے اور 1971ء کے حادثے سے بھی جس نے اس خطے میں ایک اور تلخی کے بیج بو دئے۔ یہ اس وقت کی قیادت کی تاریخی شعور سے محرومی تھی۔ اس سے واحد استثنا مولانا ابالکلام آزاد تھے۔ مودی اسی تاریخ کا ایک تحفہ ہے۔ سردار پٹیل اور گاندھی کے قاتلوں کا حقیقی جانشین۔ یہ بھارت کے اجتماعی شعور کی ناکامی ہے کہ اس نے ریاست کا اہم ترین منصب انکے حوالے کر دیا۔ ان جیسے لوگوں سے نجات کے لیے تاریخ کے اس مروجہ تصور سے نجات ناگزیر ہے ۔ اس کے لیے برصغیر کو پھر ایک نیا میثاق چاہیے۔ اگر بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش کی نئی نسل 1947ء، 1971ء کے واقعات جسکا شخصی تجربہ نہیں ہیں بروئے کار آئے تو اس خطے کو ایک محفوظ جگہ بنایا جا سکتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ میں اسکا کوئی امکان نہیں دیکھ رہا۔ نہیں معلوم یہاں بسنے والوں کا مستقبل کب تک ان مودیوں کے ہاتھوں یرغمال رہے گا؟

بہ شکریہ روزنام ’’دنیا‘‘