ایک تحریری ابکائی

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک مرتبہ پھر تیروں کی زدمیں ہیں. کسی نے تیروں کی زد میں رہنا اہل حق کی پہچان بتائی تھی وہ تیر چاہے میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے لگنے والے ہوں یا اپنوں کی طرف سے زہر خند طعن و تشنیع کے تیر ہوں.

باد مخالف کی گرم ہواؤں نے ابن تیمیہ اور ان کے قبیلے کو ہمیشہ عزت و تکریم بخشی ہے اور یہی عزت و تکریم ہر زمانے میں کچھ لوگوں کو کھٹکتی رہی ہے، اسی تعصب نے ابن تیمیہ کو ہمیشہ تیروں کی زد میں رکھا ہے.

ابن تیمیہ کے فتووں کو تکفیری فتوے قرار دیا جارہا ہے مگر ان عقل دشمنوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان فتووں سے ابن تیمیہ نے جن فتنوں کا دروازہ بند کیا وہ زخم خوردہ فتنے آج بھی اسلام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. یہ بند اگر ان کے مقابل نہ باندھا جاتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے. اس بات پر امت مسلمہ کے علمی حلقے آج بھی ابن تیمیہ کے بجا طور پراحسان مند ہیں.

آئی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک تحریری ابکائی نے ابن تیمیہ کی شخصیت اور علمیت کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ابن تیمیہ کو تو یقیناً کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ مصنف نے اپنا سب کچھ عیاں کردیا ہے. یہ وہی مصنف ہیں جنکے قلم سے اسلام کی مقدس ترین شخصیات بھی محفوظ نہیں رہ پائیں،ابن تیمیہ ان کے مقابل کس کھیت کی مولی ہیں.

ایک فتوے کو بنیاد بنا کر وہی گھسے پٹے الزامات لگائے جارہے ہیں جو ہمیشہ سے اسلام مخالف لابی کا حصہ بننے والے ابن تیمیہ پر لگاتے آئے ہیں. اس فتوی کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے. کسی بدبخت نے اپنی ماں یا باپ کو ابن تیمیہ کے فتوے کا غلط مطلب نکالتے ہوئے قتل کردیا ہے تو اس میں ابن تیمیہ کا کیا قصور ہے؟ ایسا غلط استدلال تو قرآن کی آیات اور احادیث سے بھی کیا جاتا رہا ہے تو کیا مطلب قرآن اور حدیث دونوں کو چھوڑ دیا جائے یا معاذاللہ اللہ اور رسول کا انکار کردیا جائے کہ انہوں نے یہ فتوے جاری کیوں کیے. کیا اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروہوں نے قرآنی آیات اور احادیث سے استدلال نہیں کیا.؟

اگر وہاں آپ اس جرأت گفتار کا مظاہرہ نہیں کرپائے تو یہاں یہ جرات کیسی؟ آج کس نے آپ کو مجبور کیا ہے اس بے باکی پر.

مجھے تو اب یہ خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ ابن تیمیہ کو دوش دینے والے مستشرقین کے چبائے ہوئے نوالے نگلتے ہوئے سیدھا سیدھا صحابہ کرام، نبی کریم صلعم کی ذات اور آخری دشنام کے طور پر قرآن کو کہیں نشانہ نہ بنانا شروع کردیں کہ کتنے ہی عاقبت ناندیش اسلام کے مصادر کو ہی قتل و غارت کی وجہ بتاتے ہیں نعوذ باللہ.

جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کب، کیسے اور کیوں ابکائیاں لیتے ہیں.

یاد رہے کہ
ابن تیمیہ کے فتووں پر بے جا طنز کے تیر چلا کر جس لابی کا آپ حصہ بن رہے ہیں، وہاں سے داد و تحسین کے ڈقنگرے تو آپ پر برسائے جائیں گے مگر امت مسلمہ کی اجتماعیت کو بحال کرنے کی جو کوششیں اب ہورہی ہیں اگر یہ کوششیں آپ اور دیگر آپ جیسوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوگئیں تو اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہونگے.

ابن تیمیہ کے بارے میں قاری محمد حنیف ڈار صاحب کا مضمون

سعودی اونٹ پہاڑ کے نیچے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے