ایدھی کا آخری پیغام کیا تھا ؟

عمرکاحاصل ۔۔ ایدھی صاحب کے ساتھ گزرے چند لمحے

میری ماں نے مجھے بچپن میں درس دیا کہ بیٹا تم انسانیت کا بھلا کرنا۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والی چیزوں کا بالکل خیال نہیں کرنا۔۔ ایدھی صاحب بولتے جا رہے تھے اور الفاظ سیدھا ذہن کی تختی پر نقش ہو تے جا رہے تھے۔

ڈاکومینٹری بناتے ہوئے ڈائریکٹر کے مد نظر ایک ہی چیز ہوتی ہے کہ وہ جب کسی کو انٹرویو کرے تو گفتگو موضوع سے ہٹے نہ اور کم سے کم وقت میں بڑی سے بڑی بات مل جائے جسے موثر ابلاغ کے لئے استعمال کیا جا سکا۔۵ منٹ کی گفتگو میں ایدھی صاحب نے ایدھی فاونڈیشن کی خدمات اور دہشت گردی کے موضوع پر جوالفاظ کہے وہ کسی بھی ماہر ابلاغ کی زبان سے نکلے علمی فلسفوں سے زیادہ موثر اور جامع تھے۔

[pullquote]یوٹیوب پر ملاحظہ کیجئے .
[/pullquote]

گزشتہ برس دہشت گردی کے واقعا ت سے متاثرین کے بحالی کے لئے ہسپتالوں کے میڈیکل سٹاف اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والے رضاکاروں کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے کراچی میں قائم جناح پوسٹ گریجوئیٹ ہسپتال پر فلم بنانے کا پراجیکٹ میرے ذمے لگا۔

کراچی شہر میں ہنگامی حالت تو نوشتہ دیوار ہے۔ لاشیں گرنا اور زخمی ہونا تو معمول کی بات ہے۔ محترمہ سیمی جمالی سے جناح پوسٹ گریجوئیٹ ہسپتال کی متاثرین دہشت گردی کی خدمت کے حوالے سے بات ہو ئی تو انہوں نے بتایا کہ جب ایک بم دھماکے کے زخمیوں کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں منتقل کیا جارہا تھا تو ایمرجنسی کے دروازے پر دوسرا دھماکہ ہوا جس میں بہت سے افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ جب یہ دھماکہ ہوا تو جناب عبدالستار ایدھی جنہیں اللہ رب العزت نے معجزانہ طور پر اس دھماکے میں محفوظ رکھا بھی وہیں موجود تھے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔ یہ سننا تھا کہ فورا فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو میری کوشش ہو گی کہ عبدالستار ایدھی صاحب کا انٹرویو بھی کروں گااور ان سےپوچھنے کہ کوشش کروں گا کہ وہ کیا جذبہ تھا کہ بیماری اور ضعف عمری کے باوجود وہ زخمی بہن بھائیوں کے مدد کے لئے خود ہسپتال کے باہر آن کھڑے ہوئے۔

[pullquote]فیس بک پر ملاحظہ فرمائیں
[/pullquote]

ایدھی صاحب جو کہ گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھے انہوں نے بھی موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بات کرنے کہ حامی بھر لی۔ماضی میں مختلف ڈاکومینٹریوں کی ریکارڈنگ کے دوران بہت سے رفاعی اداروں کے سربراہوں کو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ رفاعی اداروں کے بڑے بڑے دفاتر اور کمروں کو یخ بستہ کر دینی والی مشینوں کی موجودگی میں گھومنے والی کرسیوں پر اکڑی گردن کے ساتھ تفاخر سے اپنی کامیابیوں کی داستانیں سنا تے مداریوں کو دیکھ کرذہن میں خیال آیا کہ ایدھی صاحب کی رہائش کا کمرہ ب تو کم ازکم خاصہ بڑا ہوگا اور ہمیں ریکارڈنگ کرتے ہوئے روشنی وغیرہ کے مسائل نہیں آئیں گے اور اس کے پیش نظر میں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ ہم ایدھی صاحب کا انٹرویو دو کیمروں پر ریکارڈ کریں گے تا کہ کسی قسم کی تکنیکی غلطی کا احتمال نہ رہے۔ جب میں عبدالستار ایدھی صاحب کے کمرے میں داخل ہو تو مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میرے پیٹ میں ایک گھونسا دے مارا ہو۔۔ ایدھئ صاحب ایک ۱۰ ضرب ۱۰ کے چھوٹے سے کمرے میں بیڈ پرعلیل لیٹے ہوئے تھے اور وہاں اتنی جگہ نہیں تھی کہ ہم دو کیمرے رکھ کر ریکارڈنگ کرسکیں۔کراچی سے چترال اور خیبر سے چمن تک دنیا کہ سب سے بڑھی ایمبولینس سروس اور ہزاروں فلاحی سینٹر بنانے والا روشنی کا مینار میرے سامنے تھا۔

لاکھوں افراد کا سہارا بننے والے عبدالستار ایدھی کو سہارا دے کر بٹھایا تو ذہن میں ایک خدشہ تھا کہ ایدھی صاحب پتا نہیں دہشت گردی کے موضوع پر بولیں گے بھی یا نہیں۔ اگر بولیں گے بھی تو وہ اس ڈر اور خوف کے ماحول میں کس حد تک جائیں گے۔ دل میں ایک خدشہ اور بھی تھا کہ ایدھی صاحب بہت علیل ہیں اور پتا نہیں کہ وہ دوبارہ کیمرے کے سامنے آئیں گے بھی کہ نہیں۔

نزدیکی مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے شعلہ بیان مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ جاری رکھے ہوئے تھے کہ میں نے ایدھی صاحب سے سوالا ت کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایدھی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی تو میں ایک سچے اور کھرے آدمی کے منہ سے نکلے لفظوں کے سحر میں بتلا ہوتا جارہا تھا۔ مجھے شاید اس گھڑی یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میری گفتگو کا موضوع کیا ہے۔ خیر ایدھی صاحب نے جب ایدھی فاونڈیشن کی خدمات کے متعلق بات ختم کی تو میرے کیمرا مین نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ خیالات کو یکجا کر کے دہشت گردوی کے حوالے سے سوال کیا تو نحیف عبدالستار ایدھی نے مختصر سے پیغام میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ایک قابل عمل حل نہ صرف تجویز کر دیا بلکہ دہشت گردی کا حصہ بن جانے والوں کو اپیل بھی کر دی۔

وہ اندیشہ جو انٹرویو شروع کرتے ہوئے تھا کہ شاید یہ ایدھی صاحب کا آخری انٹرویو ہو سچ ثابت ہوا۔ کل رات برادر اویس توحید کے فیس بک پر ایدھی صاحب کی رحلت کا پیغام پڑا تو زندگی کا حاصل وہ تمام لمحات یادوں کی پٹاری سے نکل کر سامنے آن کھڑے ہوئے۔ بابا جی تو گئے لیکن وہ جو آخری پیغام دے گئے وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے

اناللہ وانا الیہ راجعون

محمد اکمل خان معروف ڈاکیو مینٹری پروڈیوسر ہیں اور یہ انٹرویو انہوں نے نے اپنی ایک ڈاکیومینٹری کے لیے لیا تھا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے