ایدھی کی موت کا دکھ نہیں

دکھ اس بات کا ہے کہ ایدھی صاحب کا مشن آگے بڑھانے میں ہم سنجیدہ نہیں ہیں، آج کا دن اس عزم کا دن تھا کہ ہم یوم عطیہ سمجھ کہ ایدھی فائونڈیشن کا مشن جاری رکھنے کی کوشش کرتے ، ہم نے ایدھی کی موت پر ٹی وی چینل کے لوگو سیاہ کر دیئے ، ایدھی کی تصاویر کو اپنی پروفائل پر لگا دیاں ، مختلف دکھی شعر فیس بک اور ٹوئٹر پر پوسٹ کیے ، حتی کہ ہمارے میڈیا کے ایک نمائندے نے تو ایدھی صاحب کی قبر میں لیٹ کر لائیو رپورٹنگ تک کی ، کیا یہ طریقہ کار ہے ہمارا ایک عظیم ہستی کے بچھڑ جانے پر اس کی خدمت کا صلہ دیا ، ایدھی کے نام پر اب ہمارے سیاستدان اپنی سیاست چمکائیں گے اور نام نہاد لیڈر اس پر کیا کیا قصیدے پڑھیں گے ،

کیا کسی ٹی وی چینل کو یہ خیال نہیں آیا کہ کیوں نہ آج اس عظیم ہستی کی وفات پر میراتھن ٹرانسمشن شروع کی جائے اور ایدھی فائونڈیشن کے لیے چندہ اکھٹا کیا جائے ، اہم شخصیات کو بٹھا کر ان سے بھی پیسے دلوائے جاتے اور لائیو ٹرانسمشن کے زریعے اس عظیم ہستی کے کام میں اس کی اس اہم دن کوئی مدد کی جاتی ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر چینل اس دوڑ میں ہوتا کہ وہ زیادہ پیسے اکھٹے کر کے ایدھی فائونڈیشن کو دے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر لیڈر کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ چندہ ایدھی فائونڈیشن میں دے ، آج ایدھی کی وفات پر ملک بھر میں ایدھی کی ایمبولینس کو ہم دودھ ، پانی ، کفن کے کپڑے ، دوائوں ، پیسوں ، کپڑوں ، کمبلوں اور بچوں کی کتابوں سے بھر دیتے ، ایدھی سینٹر کے باہر پیسوں کے ڈھیر لگ جاتے اور ہم سرخر و ہو جاتے ، کیا اس طرح ہمیں خراج تحسین پیش نہیں کرنا چاہیے تھا ؟ کیا ہمیں آج ایدھی کی موت کے دن اپنے ارد گرد کے غریبوں کو کھانا ہی کھلا دیتے اس موقع پر کہ شاید آج ایدھی کے نام پر یہ کام ان کے لیے خوشی کا باعث بنتا ، ہم لائیو رپورٹنگ کرتے رہے ، دکھ اور افسوس کے چکر میں ہم پیغامات اور میڈیا کوریج کے چکر میں لگے رہے ، ایدھی مرتے مرتے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر گئے کیا آج کا دن ہمیں ہر سال اس یوم عطیہ کے طور پر منانا چاہیے یا نہیں ؟ ہم اس روز جو کچھ بھی دے سکیں جو کچھ بھی کر سکیں ہمیں عطیہ کرنا چاہیے ایک شخص مر کر بھی اپنا سب کچھ عطیہ کر گیا اور ہم زندہ ہیں کچھ بھی نہیں کیا ، ہم نے صرف اپنی پروفائل اور فیس بک پر ایدھی کی پوسٹ کیں ، ٹوئیٹر پر سب سے زیادہ ٹوئیٹ کیے ، انتہائی افسردہ اور غمگین شاعری کے زریعے خراج تحسین پیش کیا ، کیا یہ کافی ہے ؟

عبدالستار ایدھی کی موت کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس بات کا دکھ ہے کہ ایدھی کے مشن ایدھی کے پیغام ایدھی کی خدمات کو جاری رکھنے پر کوئی بحث نہیں ہو رہی ، عبدالستار ایدھی کو تو ہمارا میڈیا گزشتہ چار پانچ ماہ سے بستر مرگ پر پہنچا چکا تھا اور اس عظیم ہستی کی موت کی خبر سب سے پہلے نشر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی ، رہی سہی کسر ہمارے ملک کی اہم شخصیات نے عبدالستار ایدھی کی عیادتیں کر کے اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنوا کر نکال دی ، ایدھی صاحب کا جسم تو اب ہمارے ساتھ نہیں رہا لیکن ایدھی جیسے عظیم انسان کبھی مرتے نہیں ملک کے چپہ چپہ پر مریضوں کو ہسپتال پہنچانے والی ایمبولینسیں ایدھی کو کبھی مرنے نہیں دیں گی ، ہر ایدھی سینٹر کے باہر لاوارث بچوں کے جھولوں میں ڈالے جانے والے بچے کبھی ایدھی کو مرنے نہیں دیں گے ، لاوارث لاشوں کو کئی کئی ماہ بعد ملنے والی لاشوں کو باعزت طریقے سے غسل دے کر کفن کے ساتھ دفنانے والے کبھی ایدھی کو مرنے نہیں دیں گے ، ملک کی ہر تحصیل میں ہر ضلع میں ہر قصبے میں مفت ایدھی ایمبولینس سروس کیسے ایدھی کو مرنے دی گی ، جس روز ایدھی کی وفات ہوئی اس روز بھی ایدھی ایمبولینس مریضوں کو لے کر ہسپتالوں میں پہنچتی رہی ، ہر دھماکے کے بعد ہر حادثے کے بعد پولیس بعد میں پہنچتی ہے ایدھی پہلے پہنچتے تھے ،

بلوچستان سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ کرنے والے ماما قدیر نے ایدھی کو آج خراج تحسین پیش کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ان کے طویل پیدل لانگ مارچ میں کوئی اور ان کے ساتھ نہ تھا لیکن کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایدھی کی ایمبولینس ان کے ساتھ ساتھ رہی ، کہ کہیں میر لڑکھڑا گیا کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے اور ایمبولینس کو مجھے ہسپتال پہنچانے میں دیر نہ ہو ، ایسی سروس ایسا نظام دنیا میں کہیں بھی نہیں ، یہ سب کچھ ایدھی صاحب کو مرنے نہیں دے گا ، وہ ہمارے ارد گرد ہی رہیں گے ہمیں ان کی ہر موت پر ہر بیماری پر ہر دکھ میں ان کی ضرورت پڑے گی اور وہ ہمارے ساتھ ہوں گے ،

عبدالستار ایدھی کی موت کا دکھ کیسے منائوں ، اس کی موت کو بھی ہم نے ہر زاویے سے بیچا ہی ، ہر طرھ سے ہم نے ایدھی صاحب کو مرنے کے بعد بھی خوشی نہیں دی ایدھی کی موت ہمارے لیے ایک پیغام ہے کہ ہر گلی محلے میں اب کوئی ایدھی پیدا کرو ، چھوٹے سے چھوٹے لیول پر لوگوں کی خدمت کرنا شروع کرو ، کیوں کہ پورے ملک کی پورے عوام کی خدمت کرنے والا تو اب چلا گیا ہے ، لاشوں کو سنبھالنے والا ، ہمارے گناہوں کی نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو گود لینے والا تو اب نہیں رہا ہمارے پاس خدا کے لیے ملک میں ہزاروں لاکھوں افراد ایدھی جیسے پیدا کرو ، پھر جا کر ایدھی کا مشن پورا ہو گا ویسے ہی چلے گا جیسے ایدھی ایک شخص چلا رہا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے