ایدھی لٹنے سے بچ گئے​…

اس نوجوان نے رات روم ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک بینچ پر بسر کی ،صبح اٹھتے ہی دیکھا تو جوتے غائب تھے- نوجوان نے اس کی پرواہ کیے بغیر ننگے پاؤں چلنا شروع کر دیا دل میں سوچا کہ ہو سکتا ہے جس نے جوتے چوراۓہوں وہ ضرورت مند ہوا ہو گا ۔ اگلے دن ایک بوڑھی خاتون نے جب نوجوان کو اس حالت میں دیکھا تو ربڑ کے بڑے جوتےgumboots دے دیے جو اس کے قد سے مطابقت نہیں رکھتے تھے -ان جوتوں کو پہن کر وہ لڑکھڑاتے ہوئے چلتا -اس نوجوان کا سفر طویل تھا اور عزم بلند ۔ یہ اس امید سے یورپ کے سفر کو نکلا تھا کہ دکی انسانیت کی خدمت کا جو بیڑا اس نے اٹھایا ہے اس کے لئے وسائل جمع کر سکے۔ اس نوجوانوں کے آہنی ارادوں کے آگے یہ مشکلات کچھ نہ تھی اس نوجوان کا نام عبد الستار ایدھی تھا- جس کا ایک کمرے پر مشتمل بنتوا میمن ڈسپنسری سے شروع ہو نے والا یہ سفر دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس تک جاری رہا- ملیشیا کے شلوار قمیض پہنے، سر پر قراقلی ٹوپی اور پاؤں میں سلیپر ، مدتوں سے اسی حلیے میں نظر آرہے ،ایدھی صاحب کی پہچان بن گیا –

شاہراوں کے کنارے، فٹ پاتھوں پر ، چوراہوں پر اور مارکیٹوں کے باہر ہم میں سے کتنوں نے ایدھی صاحب کو چندا جمع کرتے دیکھا ہو گا- یہ شخص ٹھکرائے انسانوں کو اپناتا وہ جنہیں اپنے بھی اپنانے کو تیار نہ ہوتے – یہ بےلباس غریبوں کو زیب تن کراتا ، بھوکھوں کو کھانا کھلاتا ، غریب لڑکیوں کو سرخ جوڑا پہناتا ،مردوں کو غسل دیتا کفن پہناتا، بےگھر بوڑھوں کو سائبان عطا کرتا ، دھتکارے ہوئے نومولودوں کو کوڑے کے ڈھیر سے اٹھاتا،وہ انسانوں کے لئے ہی نہیں جانوروں پرندوں لے لئے بھی فرشتہ تھا- جب سندھ میں مور مرنا شروع ہوئے تو اپنی گرتی صحت کی پروا کیے بغیر وہ موروں کو بچانے چل نکلا- ایدھی صاحب کا گردوں کا عارضہ جب شدت اختیار کرگیا تو انہیں بیرون ملک علاج کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ وہ انہی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کو ترجیح دی جہاں سے عام آدمی علاج کراتا ہے- آج ایدھی صاحب کے بچھڑ جانے کے بعد میٹیا میں شہ سرخیوں میں ان کے نام کے ساتھ پیکر انسانیت، فادر ٹریسا ،بابائے خدمت، خادم اعظم، محسن انسانیت اور رحمت کا فرشتہ جیسے القابات بھی کمتر لگتے ہیں -جس کی خدمات کا صلہ بعد از مرگ ان الفاظ و القابات سے ممکن نہ ہو-

کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر یک مہم چلی کہ اہم مقامات کو ایدھی صاحب کے نام سے منسوب کیا جائے کہیں سے آواز سنائی دی کہ نوبل پرائز کے حق دار صرف ایدھی صاحب ہیں لیکن ایدھی صاحب کو جس چیز کی ضرورت تھی اس جانب کسی کا دھیان نہ گیا -ایدھی صاحب نام اور شہرت کے بھوکے کہاں تھے ؟ ان کو یہی فکر دامن گیر رہتی کہ ایدھی فاونڈیشن کے بڑھتے اخراجات کے لئے عطیات کیسے جمع کیے جائیں۔ ہم نے تو اس طرف دھیان نہ دیا بس ایدھی صاحب کو نوبل پرائز دلوانا مقصد تھا اور یہ بھی بھول گئے کہ اس سے پہلے نوبل پرائز جن دو پاکستانیوں نے جیتا ان کے بارے میں ہم نے کیا کچھ کہا- جنہوں نے کبھی 10 روپے بھی ایدھی فاونڈیشن کو نہ دیے ہوئے ہوں گے وہی اس معاملے میں زیادہ جذ باتی نظر آرہے تھے-

یہ بھی اچھا ہوا کہ ایدھی صاحب دنیا سے چلے جانے کے بعد آنکھیں بھی عطیہ کر گئے ورنہ یہ آنکھیں ان مناظر کو دیکھ کر اشکبار ہوتیں جب "قومی اعزاز” کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں – ان کے جسد خاکی کے آگے پیچھے بڑی بڑی گاڑیاں ،سخت سیکیورٹی اور انیس توپوں کی سلامی،کاش ایدھی صاحب یہ بھی وصیت کر جاتے کہ تمام عمر جس سادگی سے وہ رہے اس کا تو بھرم رکھتے ہوئے انہیں عام آدمی کی طرح دفنایا جائے- جس مخصوص طبقے کے خلاف ایدھی صاحب انقلاب کی نوید سناتے تھے ان کی میت کے اردگرد وہی لوگ تھے-

آج میڈیا میں ایدھی صاحب کی شخصیت کے بارے میں سیاست دان اور صحافی زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں-شاید ہی ان میں سےشاید ہی کسی نے ایدھی صاحب کی خودنوشت EDHI -A Mirror To The Blind کبھی کھول کے دیکھی ہو- صدا فسوس کہ ایدھی صاحب نے وہ دن بھی دیکھا جب ڈاکوؤں نے دن دیہاڑے ان پر بندوق تان کران سے 30کروڑ روپے کے زیورات اور نقدی لے اڑے۔ اس کے بعد ایدھی صاحب کا دل ٹوٹ سا گیا اب وہ پہلے سے زیادہ پریشان رہتے – قربانی کی کھالیں چھیننا اور جعلی نوٹ ملنا ان کے لئے تو معمولی بات تھی لیکن جب ان کی یوں تذ لیل ہوئی تو ایدھی صاحب دل چھوڑ بیٹھے – اب ان کے ساتھ ایسی حرکت نہیں ہوسکتی اب ایدھی صاحب لٹنے سے ہمیشہ کے لئے بچ گئے۔

نوٹ :کالم کے آغاز میں ، ایدھی صاحب کے حوالے سے بیان کیا گیا واقعہ ان کی خودنوشت سے لیا گیا ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے