"کنجری”

زھرہ ان بے شمار لوگوں میں ایک ھے جن کے نزدیک دنیا میں آنے کیبعد لعن طعن ‘ تشنیع ‘ غربت کی چکی میں پسنا ھی مقدور و مقسوم ھوتا ھے ، ماں باپ کے لئیے بیٹے کی جستجو میں ملنے والا ایک کھوکھلا سیپ ‘ اَن چاھی ‘ بے قدر ومنزلت ‘ عدم دلچسپی کی ماری ‘ جو گھر اور معاشرے کی ازلی بے حسی کا شکار ‘ اعتماد سے خالی ‘ خوابوں سے محروم ‘ خیالوں اور ان پوچھے سوالوں سے پُر۔ ماں باپ نے کیوں اور کب زھرہ کو علاقے کے "کُھوتِی ” سکول ( عام طور پر عوام سرکاری سکولوں کو یہئ نام دیتے ھیں نجانے کیوں؟) میں داخل کروانے کا فیصلہ کیا؟ کچھ پتہ نھیں شاید دن بھر کے کام کاج اور دوسرے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران ایک اضافی بوجھ سے چند گھنٹے چھٹکارا پانے کیلئے ۔ اپنے اس بوجھ کو چند گھنٹے روزانہ سنبھالنےکا "معاوضہ” ماھانہ محض دس روپے دینا بھی کافی اوکھے محسوس ھوتے۔ اُستانی نجانے کیوں خُدائی فوجدا بننے کی شوقین تھی ‘ سرکاری سکول ‘ قلیل تنخواہ’ مواخذے کا خوف نہ شکایت کی پریشانی ‘ پھر بھی چلی بچیوں میں آگے بڑھنے کی جوت جگانے ۔ زھرہ آٹھویں پاس کرنے تک استانی ‘جو کہ سکول کی بھی واحد استانی تھی’ کی باتوں میں آچُکی تھی۔ بوجھ بننے کی بجائے سہارا بننے کا سوچنے لگی۔ وہ سوچ تبدیل کر نا چاھتی تھی ۔ اس نے میڑک پاس کیا روزانہ چھ کلومیٹر پیدل سفر کرکے۔بلکہ اس بیچاری نے تو "انگریزی ” والا ” suffer ” زیادہ کیا۔ اب سوچا کچھ کام کرے ‘ کسی نے تکلفاً منع کیا جواباً دلائل اور تقریر سن کر سر اثبات میں ھِلا دیا ‘ مقصد بھی یہی تھا۔ اپنے ” گاٹے” لے۔ ویسے بھی پُرکشش تنخواہ’ مراعات اور متوقع خوشحالی نےآنکھیں خِیرہ کردیں ۔کنک میں اگنے والی جڑی بُوٹی جو ایک آنکھ نھین بھاتی اگر اکسیر نکل آئے تو یہی ھوتا ھے۔ ممنوع سے ممدوح تک کا سفر کرنسی نوٹوں پر بھت آسانی سے طے ھو جاتا ھے۔ نوکری کی تلاش شروع ھوئی ایک کزن کے توسط سے ایک جدید ترین ” بس سروس ” میں بطور ” میزبان ” نوکری مل گئی۔ ابا کافی کسمسائے ‘ ھمسایوں نے بھی خوب لتے لئیے اور باتیں بنائیں ۔ خالہ ثُریا نے تو حد ھی کردی ‘ بُولی یہ نوکری شریفوں کے کرنے کی تھوڑی ھے ‘ یہ تو "کنجر یوں” کا کام ھے۔زھرہ کے اندر ایک ٹیس اٹھی مگر دبا گئی۔ غریب لوگوں کے پاس جُھوٹی انا اور فضول اقدار کے علاوہ اور ھوتا ھی کیا ھے؟؟ واحد تفریح دوسروں کی چغلیاں ‘ اپنی شان اور روایات کی پاسداری کے قصے۔ زھرہ سر جھکائے ‘ کان بند کئیے اپنی دُھن میں مگن ‘ چل پڑی۔ لوگ لَوَٹِی کا مال سمجھ ” ہاتھ ” بھی لگا جاتے ‘ ٹانگیں ُچھو لیتے اور اس کی احتجاجی نگاھوں کے جواب میں غلیظ ھنسی ھنستے ‘ کئی ایک اپنی "اعلیٰ خاندانی اقدار اور شرافت ” کا مزید ثبوت پیش کرتے ھوئے آنکھ کا کنارہ دبا دیتے یا فون نمبر لکھ کر تھما نے کی کوشش کرتے۔ یہ سب کچھ تکلیف دہ اور اذیت ناک ھوتا مگر اسے کبھی توڑ نہ سکا ۔

زھرہ اپنی دھن میں مگن اپنے گھر کے حالات بدلنے میں مشغول تھی۔ ھر مہینے کوئی نہ کوئی چیز سستے بازار ‘ سڑک کنارے استعمال شدہ فرنیچر کے عارضی ہال نما شورومز وغیرہ سے خریدتی اور گھر کی حالت درست اور بہتر کرتی جارھی تھی ۔ بھائیوں اور ابا کی آمدنی کے ساتھ اس کی تنخواہ نے ایک خوشگوار اضافہ کیا اور اس چھوٹے سے گھرانے کی زندگی میں جیسے رونق عود آئی ھو۔ خالہ ثریا کے منہ میں بھی اب روز پانی آتا اور اشاروں کنایوں میں اپنے نکمے بیٹے کیلئے زھرہ کا رشتہ مانگنے کی کوشش کی مگر زھرہ اور اس کی ماں نے سختی اے جھٹلا دیا۔ دونوں کے انکار کی وجوہات اگرچہ مختلف تھیں۔ ماں سونے کے انڈے دینے والی مرغی حلال نھیں کرنا چاھتی تھی۔ محلے میں ایک لڑکا کسی گاوں سے اپنے رشتہ داروں کے ھاں پڑھنے آیا ھوا تھا ۔ ان کا گھر زھرہ کی گلی کی نکڑ پر تھا ۔ زھرہ جب بھی وھاں سے گذرتی وہ بیٹھک میں چارپائی پہ بیٹھا یا پڑھ رھا ھوتا یا پھر ریڈیو لگائے ایف ایم سن رھا ھوتا ۔ لڑکا نکلتے ھوئے قد کاٹھ اور چھریرے بدن کا مالک گورا چٹا سیدھا سادھا اور سادہ دکھنے والا نوجوان تھا ۔ زھرہ نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئیے پسندیدگی بھانپ لی تھی۔ ایک دن نکڑ والی خالہ زھرہ کے گھر آئی تو باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کے لڑکے کا نام نواز ھے اور وہ خالہ کا بھانجا ھے۔ بارہ ایکڑ رقبے کا مالک اس کا باپ اسے پڑھانا چاھتا تھا چنانچہ اس نے اسے شھر پڑھنے بھیجا ۔ نواز فائنل ائیر کا سٹوڈنٹ تھا اور ھر کلاس میں فرسٹ ڈویژن لیتا رھا ۔ زھرہ کو نواز میں مزید دلچسپی پیدا ھوگئی۔ کیونکہ ندیدے اور گھٹیا لوگوں کا سامنا کر کر کے اس میں اتنی پہچان پیدا ھو چکی تھی کہ نواز ان سا نہ تھا اور اس نے کبھی اس سے مخاطب ھونے ‘ پیچھا کرنے یا آواز کسنے ‘ کھنگ کھنگورا مارنے کی جسارت بھی نہ کی تھی۔ دو چار دفعہ آتے جاتے نظریں چار ھوئیں اور زھرہ کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ھوگئیں ۔ یہ ایک نیا جذبہ تھا جس سے اسے پہلے شناسائی نہ تھی۔ اس نے حیلے بہانے سے نواز کی خالہ اور اس کی بیٹی سے تعلقات استوار کر لئیے اور جب بھی وقت ملتا ادھر چکر لگا لیتی ۔ آہستہ آہستہ گفتگو شروع ھوئی نواز جتنا سیدھا نظر آتا تھا اتنا سادہ نہ تھا بلکہ اچھی نپی تلی گفتگو کر لیتا۔ زھرہ اور وہ کچھ ھی عرصہ میں بے تکلف ھوگئے۔ زھرہ نے موبائل خرید کر نواز کو تحفے میں دیا اور اب جب بھی زھرہ ڈیوٹی سے آف ھوتی اس سے خوب گپیں لگاتی۔ وعدے وعید’ قسمیں قرآن ھوئے اور پھر کب نواز کو نوکری ملی اور کب وہ دن آ پہنچا کہ نواز نے اپنے ابا اماں سے بات کر نے کی ھمت جُٹائی کچھ پتہ نہ چلا ۔ وہ دن بھی قیامتِ صغرٰی سے کم نہ تھا ۔ پنڈ میں فساد پڑ گیا ۔ نواز کی پھوپھی نے اپنی بیٹی نواز کے نام پر بِٹھا رکھی تھی اور اب نواز کے انکار پر نواز کے باپ نے اور پھوپھی نے مل کر آسمان سر پہ اُٹھا لیا تھا۔ پھوپھی نے باقاعدہ بَین ڈال دئیے اور سینہ پیٹ لیا ۔ نواز اس صورتحال سے سخت گھبرایا مگر اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ بھی پیچھے نھیں ہٹے گا۔آخر دو دن بعد نواز سے پُوچھا گیا کہ اُس کا دل کہاں رشتہ کرنے کو ھے تو اس نے زھرہ کے بارے میں بتایا اور اب کے کہرام مچانے کی باری نواز کی ماں کی تھی۔

ُپتر یہ کمنیانیاں کنجیریاں ھوتی ھیں۔ انھوں نے تجھے پھانس لیا ۔ ھائے ھائے میرا بیٹا لٹیا گیا ‘ برباد ھوگیا۔ آخر تنگ آکر نواز نے بھی تھوڑے ڈرامے کا سہارا لیا۔ خودکشی کی دھمکی اور ڈیڑھ دن کی بھوک ھڑتال کے آگے سب گھٹنے ٹیک گئے لیکن اس شرط پر کہ زھرہ نوکری چھوڑ دے گی اور پنڈ والے گھر رھے گی۔ زھرہ بخوشی مان گئی۔ طوعاً و کرھاً بارات گئی سُوجے پُھولے منہ سے رسمیں ھوئیں اور رخصتی۔ سال بِیتا اور زھرہ کے گھر ایک بیٹی نے جنم لِیا ۔ زھرہ خوش تھی مگر ساس جس نے ابھی بھی زھرہ کو قبول نھیں کیا تھا ‘

ایک تو وہ پہلے ھی تَپی بیٹھی تھی اس پر مستزاد یہ کہ نواز کی پھوپھی نے آکر کچھ اشاروں کنایوں میں طعن و تشنیع کی۔ ساس نے زھرہ کا بے نقط سنائیں ۔ زھرہ کو جب کنجری کی گالی پڑی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ دوسرا موقع تھا اس کا اس گالی اے آشنائی کآ۔ کچھ عرصہ بِیتا نواز کی دلچسپی زھرہ میں کافی کم ھوگئی اب اسے کبھی کبھار ایسا لگتا کہ اس نے جلد بازی اور بچپنے میں غلط فیصلہ کر لیا۔ گھر والوں کے مسلسل کان بھرنے سے یہ احساس پختہ ھوتا جاتا۔ اب وہ بات بے بات زھرہ کو کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ ایک دن زھرہ نے نواز کے گھر والوں کے رویے سے تنگ آکر ان کی شکایت کی ‘ نواز نے بجائے زھرہ کی بات سننے اور اس کی حمایت کے اسے ھی بے نقط سُنا ڈالیں ‘ زھرہ کی برداشت بھی جواب دے چُکی تھی ‘ لڑائی نے طُول پکڑا اور نواز غصہ میں ساری وضع داری و آداب بھلا کر زھرہ پر پل پڑا اور اسے کافی مارا ۔ مارتے ھوئے نواز نے زھرہ کے خاندان کو اور اسے خوب گندی گالیاں دیں اور بُولا تم روز گھر سے باھر رھتی تھیں نجانے کس کس سے کیسے تعلقات تھے مجھے شریف سمجھ کر پھانس لیا کنجری ۔ زھرہ کو جسم کی تکلیف اور درد بُھول گیا اور پیٹ میں اِ ینٹھن سے محسوس ھونے لگی۔ آج وہ ٹوٹی تھی۔ اس نے خاموشی اختیار کر لی ۔ سب اسے کوستے رھتے وہ اُف تک نہ کرتی حتی کہ کوسنے والے خود شرمندہ ھو جاتے۔ وقت گذرتا گیا زھرہ کی بیٹی چار سال کی ھوگئی۔ نواز چھٹی پہ گھر آیا تو اس کی ماں نے اسے کہا کہ بچی کو اسکول داخل کروادو روز استانی آتی ھے اور کہتی ھے بچی کو پڑھائیں لیکن زھرہ اسے اسکول نھیں بھیجتی ۔ نواز نے زھرہ کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا تو زھرہ بڑے دِنوں کے بعد بُولی نھیں ‘ مجھے اپنی بیٹی کو نھیں پڑھانا۔ میری بیٹی ” کنجری ” نھیں بنے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے