مفتی زر ولی خان، زراسنئیے تو …

میں یہ تو نہیں کہتی کی میں بہت بڑی مسلمان ہوں یا یہ کہ مجھے اسلام کی گہراٗی کا پتا ہے لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ جتنا اسلام آتا ہے،اس میں میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ صرف مسلمان سے محبت کرو اور دنیا میں باقی کسی سے پیار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں نے نہیں پڑھا کہ اسلام نے کہیں پر یہ کہا ہو کہ صرف مسلمان کی مدد کرو۔ یہ بھی نہیں پڑھا کہ بچہ صرف مسلمان کا چومنا چاہٗیے۔ جس اسلام کو تھوڑا بہت میں نے پڑھا ہے ،،،جانا ہے اسمیں تو صرف پیار ، محبت ، احساس کا درس ہے۔ ایک دوسرے کی خدمت کا ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا درس ہے۔ جس نبی ص پر یہ دین نازل ہوا اس نبی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صرف مسلمان پر رحم کرو ۔ اس نبی نے تو ہر انسان کی عزت کرنے کا درس دیا۔ اور کہا کہ مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ آج فیس بک پر ایک وڈیو دیکھی لیکن اس میں ایک بڑے مفتی کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سن کر دماغ ماوف ہو گیا۔

[pullquote]مفتی زرولی خان کا بیان ۔
[/pullquote]

یہ بیان کسی اور کے بارے میں ہوتا تو شاید دل کو اتنی تکلیف بھی نہ ہوتی۔ لیکن یہ بیان نہایت قابل احترام انسان کے بارے میں تھا۔بیان کچح اس طرح تھا۔ کہ” ’ یہ تو چھوڑو لوگ جا کر ضدی کے ادارے کو دے دیتے ہیں جو کہتا ہے کہ میں انسانیت کی خدمت کرتا ہوں۔ صدقے کے بکرے وہاں دیتے ہیں ، ذ کواۃ خیرات وہاں دیتے ہیں۔ کہ وہ بڑا کام کر رہا ہے۔ اور ہم جو قرآن و سنت بیٹھ کر پڑہاتے ہیں ، اور عرب اور عجم کے طلبا ٗ مسافر ہیں یہ کام ان کو نظر نہیں آتے۔ اس کو یہ نظر ٓتا ہے کہ اس نے پنگوڑا ڈالا ہے کہ عورت زنا کر بچہ دے آ کر آرام سے یہاں ڈالے ، میں اسکا دادا بنا ہوا ہوں پالوں گا اس کو ۔ حرامیوں کے لئے پنگوڑے لٹکائے ہیں۔ آپ کے خرچے پر حرامیوں کی تربیت ہو رہی ہے۔ اور نمازیوں ،ہیرونچیوں دونوں ایک خرچے سے ، مسلم اور غیر مسلم آپ کی ذکواۃ اور صدقے سے، مرزئی اور قادیانیوں کا علاج معالجہ جاری ہے۔ میں جب ریسٹ ہاوس میں تھاعرفان حیدر آفریدی ہے دوسرا ، وہ مر گیا ھادثے میں ، وہ بیمار ہو گیا تھا۔ ایک رات میں تین مرتبہ یہ شخص گاڑی میں آیا ، مجحے کہتا ہے دعا کریں ۔ میں نے کہا کہ میں تو لعنت کرتا ہوں آپ پر ، میں کیوں دعا کروں ۔ آپ تو دشمن خدا و رسول کی خدمت کر رہے ہیں۔ جو صھابہ کے مقا بلے میں ۔۔۔۔ غیرت لوگوں میں کہاں ہے”.

یہ تھا وہ بیان جو مفتی زر ولی نے دیا اسے ریکارڈ بھی کیا گیا، اور لاکھوں مرتبہ سنا اور دیکھا گیا ۔ اس بیان میں مجھے تو کہیں انسانیت ، احترام ، دکھ درد اور اسلام کی تعلیم نظر نہیں آئی۔ بلکہ اسمیں اسلام کا تو دور دور تک نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اس بیان میں صرف نفرت پھیلائی ہے مفتی صا حب نے ۔ ذکواۃ خیرات دینے والے کی مرضی کہ وہ کسے مستحق سمجھتا ہے۔ اسمیں کسی کی زور ذبردستی نہیں ہوتی مفتی صاحب۔ مفتی صاھب کاش آپ قرآن سنت پر تھوڑا غور کر لیتے تو شاید اپنے الفاظ سن کر آپ خود شرم سے مرجاتے ۔

میرے نبی ص نے اور نبی کے دین نے کہیں یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے انکا درس نہیں دیا ۔ رہ گئی بات جھولے کی۔ مفتی زر لی صاحب عورت خود اکیلی زنا کر کے نہیں آ جاتی ۔ اسمیں مرد کا بھی اتنا ہی گناہ ہوتا ہے۔ بلکہ زنا میں مرد کا زیادہ گناہ ہوتا ہے۔ آپ جیسے مفتیوں کے فتووں کی وجہ سے اس گناہ میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا ہر گناہ آپ جیسے مفتی لوگ صرف عورت سے کیوں جوڑ دیتے ہیں ۔

اگے چلتے ہیں ۔ بچہ آپ کے نزدیک حرامی ہے؟۔ کوئی بچہ اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آتا۔ رب کی مرضی سے آتا ہے اور آنے والا ہر بچہ معصوم اور پاک ہوتا ہے۔ فرشتے جیسا ۔ کیسے آپ اس بچے کو گالی دے سکتے ہیں۔ ایک مفتی ہو کر کیسے اتنے گندے الفاظ اتنے آرام سے کہہ سکتے ہیں آپ۔

مفتی زر ولی صاحب پاکستان میں شاید ہی کوئی دوسرا اید ھی آ سکے گا۔ وہ ایدھی چلا گیا جس نے ہمیشہ ان بچوں کو اپنا نام دیا جنھیں لوگ رات کے اندھیروں میں اس جھولے میں ڈال جاتے تھے۔ ایک گناہ کے بعد قتل جیسا قبیح گناہ نہیں کرتے تھے۔ ہمیں فخر ہے اپنے ایدھی پر جس نے کبھی آپ کی طرح مسجد اور مدرسے جیسی قابل حرمت جگہ پر بیٹھ کر نفرت کے بیج نہیں بوئے۔

ہمیں محبت ہے اس ایدھی سے جس نے ان لاشوں کو اٹھایا اور کفنایا جنھیں اپنے قبول کرنے سے ڈرتے تھے۔ سلام ہے اس ایدھی کو جس نے ننھے منے فرشتوں سے بچوں کو قتل کر کے قبرستان بھرنے کی بجائے انہیں معاشرے کا کارآمد انسان بنایا۔ آپ کے مدرسوں میں دی جانے والی سنی، بریلوی، شیعہ، اور نہ جانے کتنے فرقوں کی تعلیم کی بجائے انہیں انسانیت کی تعلیم دی۔ اس ایدھی نے آج تک آپ کی طرح کسی کا دل نہیں دکھایا ہو گا۔ کیا فائدہ اس قرآن اور سنت کی تعلیم کا جو آپ دے رہے ہیں جس میں اسلام کی روح کے منافی تعلیم دی جا رہی ہو۔ کیا فائدہ اس اسلام کا جو آپ سکھا کر انتہا پسندی اور فرقہ بازی کو اور ہوا دے رہے ہیں۔ ایدھی تو وہ تھا جس کے لئے سالوں لوگ روئیں گے۔

کتنے بے سہاروں کا سہارا تھا وہ ایک اکیلا لاغر سا انسان۔ کتنے سو بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کے بجائے چھت دی اور تعلیم کا بندوبست کرتا رہا۔ کتنی عورتیں جو ظلم کا شکار تھیں اور گھروں سے نکال دی گئیں انکے سر کی چادر بنا۔ کتنے بوڑھوں کو جب اولادوں نے گھر سے نکال دیا تو وہ ایدھی انکا کا سائبان بن گیا۔ کتنے روتے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہا ۔کتنے حادثوں کے زخمیوں کو اپنے کمزور ہاتھوں میں اٹھا کر اسپتالوں میں پہنچاتا رہا کہ کسی کی قیمتی جان بچ جائے۔

وہی ایک تھا جو قرآن اور سنت پر چل کر اس مقام تک پہنچا کہ اس کے پیچھے رونے والے ہزاروں ، لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں۔ اس ایدھی نے کسی انسان کی مدد کے لئے اسلام کا سرٹفکیٹ نہیں مانگا ۔ وہ تو نبی کی سنت پر چل کر انسانیت کی مدد کرتا رہا۔

مفتی زر ولی صاحب زہر اگلتے وقت اگر زرا سا بھی اسلام آپ کے اندر ہوتا تو آپ کو وہ روشنی ضرور نظر آ جاتی جو پورے پاکستان کو نظر آ رہی ہے۔ آپ کو بھی ایدھی کے اندر وہی فرشتہ نظر آجاتا جو پاکستانیوں کو نظر آتا تھا۔ آپ مفتی صاحبان اگر آنکھوں سے نفرت اور فرقہ پرستی کا چشمہ اتار کر دنیا کو دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ جو نفرت کے بیج آپ لوگ بو رہے ہیں ان سے آئندہ آنے والی نسلیں صرف تباہ ہوں گی۔انتہا پسندی اور فرقہ واریت بڑھے گی۔ سنبھل جائیں اسلام کو اتنا غلط رنگ نہ دیں کہ کل کو اللہ کی بارگاہ میں آپ کو شرمندہ ہونا پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے