ایک اور مشرف؟

محب وطن ڈکٹیٹروں اور کرپٹ پرائم منسٹروں میںبڑا فرق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو ابھی تک اس فرق کی سمجھ نہیں آئی۔ ایسے ناسمجھوں کو آغا ناصر صاحب کی کتاب (THIS IS PTV) ’’یہ پی ٹی وی ہے‘‘ پڑھ لینی چاہئے۔ آغا ناصر صاحب 12 جولائی کویہ دنیا چھوڑ گئے لیکن جانے سے پہلے بڑی دیانت داری کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ لکھ گئے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے پی ٹی وی کی بنیاد رکھی۔

آغا ناصر صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا خیال ملک کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے پیش کیا لیکن انہیں اپنے خیال کو حقیقت بنانے کی مہلت نہ ملی۔ 1959ء میں یونیسکو نے تعلیمی مقاصد کیلئے بھارت میں ٹیلی ویژن شروع کیا۔ یونیسکو نے 1960ء میں پاکستان کو بھی ٹیلی ویژن شروع کرنے کی پیشکش کی۔ یونیسکو نے پی ٹی وی کے منصوبے کا خاکہ بنایا اور جاپان کے ’’این ایچ کے‘‘ ٹی وی نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ جنرل ایوب خان کی حکومت کے وزیر خزانہ محمد شعیب پی ٹی وی بنانے کے خلاف تھے کیونکہ اس کیلئے خطیر رقم درکار تھی جبکہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو پی ٹی وی کے حامی تھے۔ کچھ سال بحث مباحثے میں گزر گئے لیکن آخر کار 1964ء میں جاپانی کمپنی این ای سی کی مدد سے لاہور اور ڈھاکہ سے پی ٹی وی کی تجرباتی نشریات کا آغاز ہوگیا۔

آغا ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ ایک رات پی ٹی وی پر نو بجے کا خبرنامہ اپنے اختتام کے قریب تھا کہ آغا صاحب کو فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے فون کیا۔ وہ ایوان صدر میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور پی ٹی وی پر نگہت اکبر کا گانا…. ’’کل چودھویں کا چاند تھا‘‘ …. سننے کے متمنی تھے۔ آغا صاحب نے کچھ ہی دیر میں یہ گانا چلوا دیا اور اس واقعے کے کچھ دن بعد سقوط ڈھاکہ ہوگیا۔ آغا ناصرصاحب لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پی ٹی وی پر 1976ء میں کچھ عرصہ کیلئے کرنٹ افیئرز کے ایک پروگرام ENCOUNTER کی میزبانی بھی کی۔ جب وہ وزیراعظم بن گئیں تو ایک دن پی ٹی وی کے دورے پر آئیں اور شکایت کی کہ پی ٹی وی کا خبرنامہ دس بجے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ پی ٹی وی پر مختلف وزراء اور وزرائے اعلیٰ کی خبریں نشر کرنے کا دبائو ہوتا ہے جس پر وزیراعظم نے پی ٹی وی کے ایم ڈی فرہاد زیدی سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں پی ٹی وی کے نیوز روم میں انٹرن شپ کر چکی ہوں اور نیوز بلیٹن بنانا اچھی طرح جانتی ہوں۔ ایم ڈی صاحب نے کہا ٹھیک ہے آج کا نیوز بلیٹن آپ بنائیں۔ وزیراعظم صاحبہ نے نیوز بلیٹن کا ڈرافٹ بروقت تیار کردیا لیکن بلیٹن کا دورانیہ اس دن بھی کم نہ ہوسکا۔

آغا صاحب نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی، انہوں نے پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشن شروع کرائے، کیبل پر سی این این اور بی بی سی کو نشر کرنے کی اجازت دی۔ ان کے شروع کئے گئے کام کو جنرل پرویز مشرف نے آگے بڑھایا اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز شروع کرائے لیکن پھر انہی مشرف صاحب نے 2007ء میں ان چینلز پر پابندیاں بھی لگا دیں۔ ڈکٹیٹر تنقید برداشت نہیں کرسکتا۔
آغا ناصر صاحب کی کتاب میں فوجی ڈکٹیٹروں کی کچھ شخصی خوبیوں اور سویلین پرائم منسٹروں کی خامیوں کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن اصل فرق یہ نظر آتا ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر پی ٹی وی پر اپنے پسندیدہ گانے سننا چاہتا تھا اور سویلین وزیراعظم نو بجے کے خبرنامے کا معیار بہتر بنانا چاہتی تھی۔ کچھ لوگ ڈکٹیٹر پر تنقید کو فوج پر تنقید قرار دینا شروع کردیتے ہیں حالانکہ ڈکٹیٹر پر تنقید کا مقصد صرف اور صرف فوج کو سیاست میں مداخلت سے باز رکھنا ہوتا ہے کیونکہ فوج جب بھی سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو سانحے جنم لیتے ہیں۔ بدنامیاں مول لی جاتی ہیں۔ لوگ شہداء کی قربانیاں بھول کر وردی پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔

فوج جب بھی پاکستان کے دفاع اور سلامتی کی جنگ لڑتی ہے تو قوم متحد ہو کر اس کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے لیکن جب یہی فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو قوم تقسیم ہو جاتی ہے۔ آج کل کچھ لوگ پھر سے ڈکٹیٹر شپ کو آوازیں دے رہے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہو جائے تو مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کون ڈکٹیٹر کے ساتھ ہوگا اور کون ڈکٹیٹر کے خلاف ہوگا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جے یو آئی، جماعت اسلامی، اے این پی، نیشنل پارٹی، بی این پی کے دونوں گروپ اور بہت سی دیگر جماعتیں ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کریں گی۔ ایم کیو ایم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایم کیو ایم کو غدار کہنے والے اسے گلے سے لگانے میں دیر نہیں کرتے البتہ طاہر القادری، شیخ رشید احمد اور پاک سرزمین پر مر مٹنے کے بہت سے دعویدار ڈکٹیٹر شپ کی علی الاعلان حمایت کرسکتے ہیں۔

ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ مارشل لاء ادوار میں ترقی کی ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں کچھ ترقیاتی منصوبے ضرور شروع ہوئے لیکن اسی دور میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعہ پاکستان کے دریائوں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا، امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے دیئے گئے، تاشقند معاہدے کے ذریعہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم کیا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں احساس محرومی بے چینی اور بغاوت میں تبدیل ہو گیا اورجنرل یحییٰ خان کے دور میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کرلیا۔ ضیاء دور میں سابقہ سوویت یونین کی توسیع پسندی کا مقابلہ کیا گیا لیکن لسانی و فرقہ وارانہ تنظیموں کو فروغ بھی ملا۔ اس دور میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ سیاست کو سرمایہ داروں اور برادریوں کی لونڈی بنا دیا گیا۔

پرویز مشرف نے پاکستان کو ڈرون حملوں اور خودکش حملوں کے تحفے دیئے۔ موصوف نے کشمیر کی تحریک آزادی کی پیٹھ میں ایسے خنجر گھونپے کہ سید علی گیلانی نے تڑپ کر مشرف کو غدار کشمیر کا خطاب دے ڈالا۔ اسی دور میں نواب اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان میں نفرتوں کی آگ بھڑکائی گئی اوراین آر او پر دستخط کر کے کرپشن کو قانونی تحفظ دیا گیا۔ مشرف آج تک نہیں بتا پائے کہ ایک درجن سے زائد غیر ملکی اکائونٹوں میں ان کےپاس کروڑوں ڈالر کہاں سے آئے البتہ کرپٹ پرائم منسٹروں سے ان کے اکائونٹس کے بارے میں روزانہ پوچھا جاتا ہے۔ میں سیاستدانوں پر بہت تنقید کرتا ہوں اور ان کے احتساب کا حامی ہوں لیکن ڈکٹیٹر کا احتساب کیوں نہ ہو؟

ڈکٹیٹر ملک توڑ دے تو کوئی نہیں پوچھتا اور وزیراعظم ملک فیروز خان نون گوادر کو پاکستان کا حصہ بنا دے تو جنرل ایوب خان اس کی حکومت ختم کردیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھارتی جیلوں سے 90 ہزار قیدی رہا کرا کر اور ایٹمی پروگرام شروع کر کے پھانسی پر لٹک جاتا ہے اور پرویز مشرف دو مرتبہ آئین توڑ کر بھی بچ جاتا ہے۔ بےنظیر بھٹو شمالی کوریا سے غوری میزائل کی ٹیکنالوجی لائیں اور نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے پھر بھی دونوں غدار ٹھہرے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر بھی سنگین الزامات لگاتے تھے۔ ایک زمانے میں نوازشریف نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیا آجکل بلاول صاحب نوازشریف کو سیکورٹی رسک قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو کچھ بھی کہیں لیکن 1973ء کے آئین کو پھر پامال کیا گیا تو یہ سب غدار متحد ہو جائیں گے اس لئے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

کرپشن کا علاج پارلیمنٹ اور عدالتیں کرسکتی ہیں وہ نہیں جو این آر او پر دستخط کر دیتے ہیں۔ این آر او والے بے عزت ہو کر ملک سے بھاگ جاتے ہیں لیکن ملک کے دفاع کی جنگ لڑنے والوں کو یہ قوم عزت دیتی ہے۔ قوم کے بہادر سپاہیوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک سے بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑتی اس لئے مجھے یقین ہے کہ کوئی نیا مشرف آئے گا نہ کوئی مشرف بنے گا کیونکہ پاکستان کی سلامتی صرف اور صرف آئین و جمہوریت سے مشروط ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے