ایدھی،،،عبادتوں کی انتہاوں پر

آج اپنی ڈائری کی ورق گردانی کے دوران کہیں سے لکھے ہوئے دو پیرا گراف نظر سے گذرے ( اللہ کے تقرب کی جتنی بھی راہیں ہیں ، سجدے کے علاوہ سب مخلوق خدا سے محبت کی راہیں ہیں ) ۔۔ حضرت واصف علی واصف
اب دوسرا انتخاب بھی دیکھئے ( جب آپ کی ذات اللہ کی مخلوق کیلئے بے ضرر ہو جائے تو یہ آپ کی عبادت کی ابتدا ہے ۔۔ اور جب آپ کی ذات اللہ کی مخلوق کیلئے سراسر نفع ہی نفع بن جائے تو یہ آپ کی عبادت کی انتہا ہے )

یہ دونوں پیرا گراف پڑھ کر میری آنکھیں بھیگنے لگیں ، اور میرے سامنے چار دن سے گدھوں کی طرح ایدھی صاحب کی میت کو نوچنے والے مولویوں کی وہ سارے بیانات گھوم گئے ۔ لیکن میرے دل نے گواہی دی کہ وہ جسے حرامی بچوں کی پرورش کرنے والا کہا گیا وہ تو اللہ کے مقربین میں سے تھا ، کہ مخلوق خدا سے محبت کی ساری راہیں اس رب کائنات کے تقرب کی راہیں ہیں ۔

ایدھی تو انہی راہوں کا مسافر تھا ۔ اس نے مخلو ق خدا سے والہانہ محبت کی۔۔۔۔۔ انسانوں سے بڑھ کر اس نے جانوروں کو بھی یہ محبتیں بانٹیں ۔۔۔۔۔ تقرب خدا میں تو ایدھی سارے مولویوں سے بازی لے گیا ۔۔۔۔ مخلوق خدا سے محبت کی ساری راہیں آج اس ایدھی کے پاوں کی دھول بننے کیلئے بے قرار ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ اور وہ کچلی ہوئی روحیں جنہیں اس معاشرے نے ٹھکرا دیا ، گھر سے بے گھر اور بے آسرا کردیا ۔ ایدھی نے ان سب میں محبتیں ہی تو بانٹیں ۔۔۔۔ وہ تو پوری زندگی کی کسی سے نفرت کر ہی نہ سکا ۔۔۔۔۔ جنہوں نے اس کی جان لینے کی کوشش کی، وہ زندگی بھر ان کی بھی لاشیں اٹھا تا رہا اور سب سے ذیادہ خدمت۔۔۔ جان کے درپے رہنے والے لوگوں کے شہر ہی کی کی ۔۔۔ ارے اس کے دل میں تو نفرت کیلئے جگہ ہی باقی نہی تھی، مخلوق خدا کی محبت میں زندگی بسر کرکے خدا کا تقرب ڈھونڈنےو الے ایدھی کو اپنے پیٹوں میں نفرت بھر بھر کر پھلانے والے کیا جانیں ۔

میں نے ایدھی کو اوپر بیان کردہ دوسرے قول پہ بھی پرکھ کے دیکھا تو ایدھی مجسم عبادت نظر آیا ، کہ اسکی ذات اللہ کی مخلوقات کیلئے بے ضرر تھی۔۔۔۔۔۔ اس سے کسی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔۔۔۔۔ بلکہ اسکی ذات تو سراسر نفع ہی نفع تھی ، مخلوق خدا کیلئے مجسم نفع تھی ۔ اس لحاظ سے ایدھی عبادتوں کی بھی انتہاوں پر تھے ۔ جہاں پہنچنا موٹےپیٹ والے مولویوں کے بس کی بات نہیں ، نہ ان کی سوچ اور ان کا زاویہ نگاہ وہاں پہنچ سکتا ہے ۔
کہیں پڑھا تھا کہ خوف خدا اور اللہ سے محبت رکھنے والوں کے کبھی پیٹ بڑھے ہوئے نہیں ہوتے ، کہ خوف انسان کو کمزور کرتا ہے ، لاغر کرتا ہے ۔ ایدھی مجھے ہمیشہ ایسا ہی لاغر نظر آیا ۔

لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کہ ایدھی کا موازنہ اس مولوی زرولی سے کیسے کروں ، جو چندے کی ڈبل کیبن کی پچھلی سیٹ پہ اکیلا بمشکل سما پاتا ہے ۔۔۔ اور اپنی اتنی بڑی توند کی وجہ سے وہ کسی سے گلے بھی نہیں مل پاتا ۔ سوچتا ہوں خدا کی محبت تو رہی ایک طرف زرولی میں خوف خدا ہوتا تو چار من کا وزن اٹھا کر نہ پھر رہا ہوتا۔۔۔۔ جسکے لئے چلنا پھرنا تک مشکل ہے ۔ اس موٹے پیٹ والے مولوی زرولی کو چندے میں کمی کی ہی فکر کھائے جارہی تھی ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اربوں کا بجٹ رکھنے والا ایدھی لوگوں کی امانتوں کا محافظ بنا ۔۔۔۔ کہ اس رقم کو اس نے اپنی ذات پہ کبھی خرچ نہیں کیا ۔ ارے اس نے تو اتنی احتیاط برتی کہ فلاحی کام کیلئے بھی کوئی اچھی اور آرام دہ گاڑی استعمال نہیں کی۔۔۔۔۔ انہی ٹوٹی پھوٹی ایمبولینسوں میں پھرتا رہا ۔۔۔۔۔ چندے کے پیسوں کی ڈبل کیبنوں میں گھومنے والے مولوی ایدھی جتنا خوف خدا کہاں سے لائینگے ۔ ؟

خدا کے تقرب کی راہوں پر چلنے والے ایدھی کیلئے زبان دراز کرنے والے اپنے انجام کا سوچیں کہ ان کے جنازے کا وزن بھی لوگ کندھوں پہ اٹھا سکیں گے کہ نہیں ۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے