تم قتل کرو ہو کہ کرامات

۔۔

نواز شریف چور ہے، نواز شریف کرپٹ ترین شخص ہے، نواز شریف کے پاس ایک ایک پیسہ اس ملک کے عوام سے لوٹا گیا ہے، وہ کبھی بھی الیکشن دھاندلی کے بغیر نہیں جیتا، نواز شریف نے ملک کو کچھ نہیں دیا بس صرف حکومت ہی کی ہے، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ وہ الزامات ہیں جو ہم پچھلے کچھ عرصہ سے لگاتار مستقل بنیادوں پر کچھ ٹی وی چینلز پر سن رہے ہیں کچھ ٹی وی چینلز ان الزامات کو نشر کرنے کے لیے عمران خان کی تقریروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں تو کچھ نے اس کام کے لیے کئی نامی گرامی ڈاکٹرز، دندان ساز، فیشن ڈیزائنرز ،فلم پروڈیوسر، وکیل نما سیاستدان اور کچھ نے سیاستدان نما وکیل بھی رکھے ہوئے ہیں۔
ان تمام افراد کی بات چیت کا آغاز بھی نواز شریف اور انجام بھی نواز شریف پہ ہوتا ہے۔ چلیں یہ بات مان لیجئے، نواز شریف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننے سے بھی پہلے بھیک مانگا کرتے تھے، ان کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوا کرتی تھی اور وہ پائے بیچ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالا کرتے تھے ۔۔ اچانک انہوں نے سمگلنگ کا کام شروع کیا جس میں آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے وہ ایک بڑے سرمایہ دار بن گئے۔
آیئے چلئے دیکھتے ہیں یہ سچے الزامات لگانے والے لوگ کون کون ہیں اور یہ جدی پشتی رئیس افراد کیوں اس نودولتئے نواز شریف کو کچھ عرصہ قبل تک ایک لیڈر سمجھ کر ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ باندھ کر چلتے رہے جس کا خمیر بددیانتی اور بے ایمانی میں گندھا ہوا تھا۔۔ یا پھر ایسے لوگ جن کی لیڈر نے نوے کی دہائی کے تلخ واقعات فراموش کرتے ہوئے نواز شریف جیسے بے ایمان، کرپٹ اور چور کے ساتھ میثاق جمہوریت جیسا گندا مذاق کیا۔

چلیں شروع کرتے ہیں اپنے ارب پتی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے والد جناب آصف علی زرداری سے۔۔وہ اتنے فنکار ہیں کہ موقع کی مناسبت سے اپنے بیٹے کے نام میں بھی کھوٹ سے گریز نہیں کرتے۔۔ فوراً بلاول زرداری کو نانا کا نام دے دیا بلاول بھٹو زرداری۔۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی پٹھان اپنے نام سے پہلے سید لکھوا لے یعنی اگر میں اپنے نام میں ملاوٹ کروں تو سید شہریار خان بن جاؤں۔۔ مگر کیا کروں میں چاہوں بھی تو ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ سیاست میں بھی نہیں اور میرے نانا کی اتنی جائیداد اور موروثی سیاسی جماعت بھی نہیں جس کے لیے ایسا کر سکوں۔ہائے۔۔ ہم لوگوں کی یادداشت اتنی کمزور ہے کہ ہم ہر پانچ سال بعد سب کچھ بھول کر پھر اسی کو اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں جو پانچ سال پہلے ایسے زخم لگا گیا تھا جو بمشکل ختم ہوئے ۔ آج ایک نجی ٹی وی چینل کے متوالے انصافی بھی یہ بھول چکے ہیں کہ یہ چینل نواز شریف کے خلاف کیوں ہے ؟ کیونکہ اس چینل کے مالک اور آصف علی زرداری بزنس پارٹنر تھے اورنواز شریف کے دور حکومت میں ایک ریفرنس کئی سال تک جاری رہا جس کے بعد انتقاماً حاجی صاحب نے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینل نہیں بلکہ کئی چینل شروع کر لیے۔

سینما گھر سے بزنس شروع کرنے والے زرداری صاحب کے خلاف کئی ایسے کیس ہیں جن میں گواہ یا تو وفات پا گئے یا پھر زندگی خوشحال ہونے کے بعد مکر گئے۔پانچ سال بھرپور حکمرانی کا مزا اٹھایا ۔۔اپنی بیوی کے قاتل کو گارڈ آف آنر بھی دیا مگر آج بلاول نواز لیگ سے پوچھتے ہیں کہ میری ماں کے قاتل کو کیوں بیرون ملک جانے دیا۔۔ آج بلاول اپنے سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس اور ایس جی ایس کوٹیکنا اور اے آر وائی گولڈ ریفرنس کو بھول کر نواز شریف سے مے فیئر فلیٹس کا پوچھ رہے ہیں۔

اعتزاز احسن تو ایک سینیٹ کی سیٹ اور پی سی بی ویمن ونگ کی سربراہی گھر لا کر اپنی وہ نظم بھی بھول گئے : ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔۔خیر ایل پی جی کوٹہ میں بھی بڑی طاقت ہوتی ہے۔ سید خورشید شاہ اور راجہ پرویز اشرف سمیت سب لیڈرا ن ایسے ہی کسی نہ کسی واقع کے بعد امیر ہوئے ۔۔ اور ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصلی امیر ہیں کیونکہ یہ ہمارے سامنے ہی امیر ہوئے ہیں۔

شیخ رشید احمد۔۔ جنہیں کافی مدت کے بعد ایک ایسے شخص کا بوسہ لینے کا موقع ملا جو شیخ رشید احمد کو ایک خاتون کا شوہر قرار دیتے رہے جب وہ نواز حکومت میں وزارت کے مزے لے رہے تھے، ان کا سلک کا بزنس بھی بہت خاموشی اور تیزی سے ترقی کرتا گیا۔ 1985 کی غیرجماعتی اسمبلی جب 1988 میں ٹوٹی تو ایک سکول کے پرنسپل محمد عثمان نے سکول کے سالانہ ایونٹ میں شیخ رشید احمد کو رکن قومی اسمبلی نہ رہنے کے باوجود اپنا مہمان خصوصی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بلا لیا۔۔ شیخ رشید احمد نے تقریر کے بعد کہا مجھے کچھ دینا چاہئے مگر کیا کروں نیا نیا بے روزگار ہوا ہوں اس لیے تین ہزار روپے ہی دے سکوں گا، عثمان صاحب نے آہستگی سے کہا پانچ ہزار تو صرف ٹینٹ والے کا ہے پھر کھانے پینے کے سامان پر بھی تو چار پانچ ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن آج شیخ رشید احمد اپنے سابق لیڈر کو للکار کر کہتے ہیں تمہارے پاس دولت کیسے آئی۔

ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالہ سے نواز شریف دل میں تو ضرور کہتے ہوں گے اس پر احسان کیا اس لیے اس کے شر بھی بچنا ہوگا، جھنگ سے تعلق رکھنے والے قادری صاحب پہلیمیاں شریف کی بنائی اتفاق مسجد کے امام ہوئے پھر انہیں منہاج القران کے لیے ماڈل ٹاؤن میں وسیع پلاٹ دیا گیا ۔ وہ بھی ان ہاتھوں سے پوچھتے ہیں تم امیر کیسے ہو گئے جن سے کبھی تنخواہ وصول کرتے رہے۔
خیر پلاٹ سے یاد آیا وہ تو ایک اور صاحب نے بھی لیاتھا۔۔ ہسپتال کے لیے تو بعد میں لیا اس سے پہلے فیصل ٹاؤن میں بھی ایک پلاٹ لیا، اس امیر آدمی کا والد بھی سرکاری ملازم تھاجو ملازمت سے نکالا گیا تھا، وہ کیسے اتنا امیر ہو گیا؟ لیکن ان سے میں نہیں پوچھ سکتا کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگ بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہیں ایسے (گھٹیا )سوال کرنے والوں سے ۔۔ کچھ لوگ تو یہ بھی پوچھتے ہیں جناب آج کل آپ کے پانچ سو کنال کے محل کے مکینوں کے اخراجات کس نوکری سے پورے ہوتے ہیں؟ خیر پوچھا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ اس پانچ سو یا آٹھ سو کنال اراضی کے حوالہ سے آپ کہتے ہیں یہ آپ کی سابق اہلیہ نے آپ کو تحفتاً دیئے طلاق کے موقع پر۔۔۔ کیا کوئی طلاق کے شبھ مہورت پر بھی تحفہ دے سکتا ہے؟ لیکن یہ سوال بھی میں نہیں پوچھوں گا ۔۔ چھوڑیں جانے دیں۔ڈپلومیٹک انکلیو میں اپارٹمنٹ کو بھی کاغذوں میں گیارہ لاکھ روپے کا لکھا گیا ہے جبکہ وہ کبھی بھی ایک کروڑ سے کم کا نہیں رہا لیکن میں یہ سوال بھی نہیں پوچھوں گا۔۔ کیا یہ سوال پوچھ کر میں مفت میں گالیاں کھا لوں؟

اتفاق فاؤنڈری کے بعد پولیس کی کانسٹیبلی چھوڑ کے ٹیکسٹائل بزنس میں قدم جمانے کے بعد سیاست میں آنے والے چوہدری کی اولاد بھی پوچھے ہے کہ شریف کیسے امیر ہوا؟حالانکہ مشرف سے پہلے ان کے مرشد یہی کرپٹ شریف برادران تھے۔۔ عمران نے بھی ورلڈ کپ جیت کر نواز شریف سے ہی انعامات لیے، ہسپتال کے لیے اراضی بھی حاصل کی، اگر ہسپتال کارنامہ ہے تو اتفاق ہسپتال کی تاریخ زیادہ پرانی ہے۔۔ دو بار نواز حکومت میں وزارت کے مزے لوٹنے والے چاچا شیخ رشید کو بھی اپنی تیز رفتار ترقی کا ذریعہ بتانا چاہئے۔

اپنی وضاحت نواز شریف خود دیں گے انہیں دینی بھی چاہئے لیکن گلے پھاڑ پھاڑ کے نواز شریف کو کرپٹ ثابت کرنے والے مبشر لقمان، حسن نثار ، ڈاکٹر دانش اور ڈاکٹر شاہد مسعود بھی وضاحت کر دیں اینکر بننے سے پہلے ان کے اثاثے کتنے تھے اور اب وہ اتنی بڑی ایمپائر کے مالک کیسے بن گئے؟ کیا ان سب کے پاس رسیدیں ہیں؟کیا وہ کچھ آن ریکارڈ تنخواہ کے علاوہ باقی کی آف دی ریکارڈ تنخواہ آف شور اکاؤنٹس کے ذریعہ نہیں لیتے؟

جن چینل مالکان کو آج ان الزامات سے خوشی ہوتی ہے کیا وہ خود بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے صحافت فروخت کر کے جو کچھ بنایا ہے کیا وہ سب حلال کا مال ہے؟ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے میڈیا ہاؤس کے لیے سرکاری اراضی کتنے پیسوں میں حاصل کی، اس مفت ملنے والی اراضی پر بننے والے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ٹھنڈے سٹوڈیوز میں پروگرام کرتے یہ اینکر کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی کا احتساب کرنے سے پہلے اپنے مالکان سے پوچھا جائے بلیو ایریا یا زیرو پوائنٹ کے ماؤ ایریا میں یا پھر آئی نائن میں مفت پلاٹ کیوں لیاکیا آپ غریب ہیں؟

لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اپنے آپ کو بھی احتساب کے لیے پیش کر سکیں ، اگر یہ سب چاہیں تو میں سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں، کیا یہ سب اتنی جرات کر سکیں گے؟لیکن انہی کے بارے میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کہہ گئے تھے

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو؟؟؟؟؟

بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے، بکے ہے
دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے