خصوصی اختیارات اور کراچی

گزشتہ رات 12 بجے پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس کے خصوصی اختیارات ختم ہونے کو ہیں۔ ان آختیارات کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی کی بھی چار دیواری کا تقدس کسی بھی وقت پامال کردیں۔ ان اختیارات کے تحت اداروں کو یہ اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی نوجوان یا فرد کو شک کی بنیاد پر اپنے پاس 90 دن تک تحویل میں رکھیں، ان اختیارات کے تحت ملک بھر میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہاں جلد از جلد کیس کو مکمل کرنے پر تمام جماعتیں رضا مند ہوگئیں۔

یہ قانون دو سال قبل پاکستان کی پارلیمنٹ کے اراکین کی منظوری سے لایا گیا اور اسی کے تحت آپریشن ضرب عضب ، کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کو شروع کیا گیا، تاہم اس قانون کے لاگو ہونے سے قبل ایوان بالا میں محترم وزیر داخلہ صاحب نے ببانگ دہل کہا کہ اس قانون کے تحت ملک بھر میں موجود کالعدم جماعتوں کے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی عمل میں لائی جاۓ گی۔ قانون کے عملدرآمد کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی گئی، جس میں شہر میں موجود تمام جماعتوں کی قیادت نے آپریشن کی ابتداء کی حامی بھری اور اس کو شہر کے لئے اچھا شگون قرار دیا۔ کراچی آپریشن کے شروع ہونے کے چند ہی ماہ بعد سے شہر کراچی کی نمائندہ جماعت کو اس یہ آپریشن سازش لگنے لگا اور انہوں نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جو تاحال جاری ہے۔

ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن ان کی جماعت کو دیوار سے لگانے کے لئے کیا جارہا ہے جبکہ بقیہ دیگر سیاسی جماعتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر خوش نظر آئیں اور انہوں نے اداروں کی مضبوطی کےلئے ایم کیو ایم کے تحفظات کو غلط قرار دیا، سندھ حکومت جو اس آپریشن کو لیڈ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے کپتان نے بھی مخالف پر پڑنے والی ہر ضرب پر افسران کو شاباشی دی بلکہ اُن کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آۓ اور اپنے سیاسی حریف کے تحفظات کو غلط قرار دیا۔ تاہم جب سندھ حکومت کے اہم افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائیں گئیں اور اس قانون کے تحت صوبائی سرکاری اداروں میں کارروائی عمل میں لائی گئ تو یہ کارروائیاں سندھ حکومت کو بھی سازش لگنے لگیں، بات یہی ختم نہیں ہوئی اس قانون کے تحت جب نیب نے پنجاب کے اعلیٰ افسران پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے تو ملک کی حکمران جماعت نے اداروں کو پر کاٹنے کا عندیہ دے دیا۔

یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ اس قانون کا پوری طرح سے اطلاق صرف کراچی میں نظر آیا اور شاید یہی وجہ ہو کہ ایم کیو ایم بارہا اپنے تحفظات کا اظہار کرتی نظر آئی۔ جہاں وفاق کی جانب سے اداروں کے پر کاٹنے، سندھ حکومت کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشروط اجازت دینے جیسی باتیں سامنے آئیں تاہم سب سے زیادہ نشانہ بننے والی سیاسی جماعت جس کے تقریبا ہر دوسرے گرفتار کارکن پر بھتہ خوری، قتل اور دشمن ملک کی ایجنسی سے ٹریننگ لینے جیسے سنگین الزامات کا سامنا رہا اُس نے ہر ماوراۓ عدالت قتل، ہر ِبڑی کارروائی اور ہر لاپتہ کارکن کی گرفتاری پر ایک کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا جو شکوک و شبہات پر مبنی کارروائیوں کی روک تھام کرے اور آپریشن کی شفافیت کو برقرار رکھوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے۔

کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک 61 کے قریب خاندان ایسے ہیں جن کے پیارے ” ویگو” میں آنے والے افراد کی نظر ہوگئے ہیں جن کی نہ تو گرفتاری ظاہر کی گئی اور نہ ہی تدفین کا وقت معلوم ہوا ہاں مگر بعد ازاں اہل خانہ کو مرد خانے چکر لگانے کے بعد کبھی کپڑوں کے کلر اور کبھی فنگر پرنٹ سے ان کی شناخت ظاہر ہوئی کیونکہ اس طرح شہر سے ملنے والی تشدد زدہ نعشوں کی شناخت میں کافی دشواری کا سامنا رہا تاحال اب بھی کئی نوجوان ایسے ہیں جن کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں درج ہیں اور اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔
حال ہی میں لانڈھی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان رفیق کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے بھائی کو گزشتہ سال مئی 2015 میں گھر سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں گمشدگی کی درخواست دائر کردی تھی تاہم چھیپا ویلفئیر نے اہل خانہ کو آگاہ کیا کہ اُن کے بھائی کی نعش ایک ہفتے سے سرد خانے میں موجود ہے ھس کی شناخت مقتول کے فنگر پرنٹس سے ہوئی ہے تاہم مقتول کے سوئم والے روز عدالت نے اُن کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ ادارواں کو رفیق کو بازیاب کروانے کا حکم نامہ جاری کیا۔
اسی طرح ایم کیو ایم کے سنئیر لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کے کورڈینیٹر دوران حراست تشدد کے باعث جاں بحق ہوگئے تو دوسری جانب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے صاحبزادے کا اغواء اور مشہور قوال امجد صابری کو دن دیہاڑے کراچی کی اہم شاہراہ پر نامعلوم مسلح دہشت گرد آسانی سے نشانہ بنا کر فرار ہوگئے۔

شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تو دوسری جانب سماجی کارکنان سمیت معصوم شہری دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے نظر آۓ، پھر اسی شہر کی عوام نے دیکھا کہ کالعدم اسلامی شدت پسند تنظیمیں کھلے عام چندہ جمع کرتے، ریلیوں اور جلسوں کے انعقاد میں نظر آئے تو کہیں ادارے مختلف جے آئی ٹیز میں نامزد ملزمان کے مطالبات تسلیم کرتے اور انہیں افرادی قوت مہیا کرتے نظر آۓ جس کا اظہار دو روز قبل ایک نئی بننے والی پارٹی کے سربراہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا تھا۔ اس ساری صورتحال میں عوام کا آپریشن کے حوالے سے بحال ہونے والا اعتماد کہیں کھوتا نظر آرہا ہے اور اب گلیوں، محلوں، ہوٹلوں، چوہراوں اور دیگر تقریبات میں عوام اس ساری صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی نظر آرہی ہے بلکہ اب تو گھریلو خواتین کو سیاست اور اس تمام صورتحال کی اتنی سمجھ ہوگئی ہے کہ ایک خاتون یہ اختیارات کی مدت ختم ہونے پر بے ساختہ بولا کہ ” اللہ رحم کرے اختیارات ختم ہورہے ہیں اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے