عورت اور معاشرہ

شادی ایک سوشل کنٹریکٹ ہے جو ہر سوسائٹی میں کسی نہ کسی جگہ موجود ہے ، ہمارے سماج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں عورت کو طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے ، بدکار ، بد چلن ، دو نمبر اور کئی الفاظ اس کے حصے میں ڈالے جاتے ھیں ۔

مرد اور عورت کا رشتہ ازل سے چلتا آرھا ہے ، جبری شادیوں کا سلسلہ بھی کئی دہائیوں سے ہے جس کی بھینٹ کئی حوا کی بٹیاں چڑھ گئیں ، وہ رابعہ نامی برطانوی نژاد پاکستانی دوشیزہ ہو یا آسیہ نامی لاچار بیٹی ہو والدین کی زبردستی یا انا کی خاطر عزت نفس کا معاملہ ہمیشہ آنکھوں پہ رکھا جاتا ہے ۔

عزت نفس کی خاطر کئی قتل کردیئے جاتے ھیں ، زمانہ جاہلیت میں عورت کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا مگر سماج اس سے دو قدم آگے ہے ، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے رسول علیہ السلام کو نکاح کا پیغام بیجھنے میں پہل کی تھی ، آج اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

مؤرخین کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ابا جان کی بارات جا رہی تھی مکّہ کی ایک لڑکی نے گھر سے باہر نکل کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کہا کہ عبدالله میں تم سے پیار کرتی ہوں اسکا رخ میرے گھر کی طرف موڑ لو ، ہمارے سماج میں عورت کو ہمیشہ مظلوم ہی تصور کیا جاتا رھا ہم سفاکیت اور درندگی میں عرب کے بدوؤں سے بھی کئی درجے آگے نکل چکے ھیں ۔

آپ بھی دل ہی دل میں یہ سوچ رہے ہوں گے کے یہ لڑکیاں بھی تو باز نہیں آتیں ، عزت کے نام پہ قتل ہوتی ھیں کبھی گالی سہتی ھیں تو کبھی گولی کی نظر ہوتی ھیں ، کبھی ان کے خاندان والے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ان کی ناک کاٹ دیتے ھیں ، کس مٹی سے بنی ھیں ھار نہیں مانتیں اور اخبار کی زینت بنتی رہتی ھیں ۔

کبھی بھائی نے بہن کو قتل کر دیا باپ نے بیٹی کو جلا دیا اور کبھی کیا کبھی کیا ۔

جو مرد عورت کی قربت سے ہمیشہ محروم رھا وہ شکی اور احساس کمتری میں رہنے والا ہوتا ہے کیوں کے وہ اس کو پانا نہیں بلکہ حاصل کرنا چا ہتا ہے ۔

بیٹی جس کی بھی هو وہ کل کی ماں ہوتی ہے ، ایک پروگرام میں ایک نامی گرامی بندے سے سوال کیا گیا کہ بی بی کی کونسی بات یاد آتی ہے ؟ حضرت بولے کہ بی بی کی گردن کا تل ۔

عورت کو ھر دور میں ھر جگہ پر ذلیل کیا گیا بی بی شہید کی برہنہ تصویروں کے پمفلٹ تقسیم کیے گے ، کردار کشی کی گئی ، عاصمہ جہانگیر کو نائکہ کا خطاب دیا گیا ، مریم ، ریحام یہاں تک کہ ملالا یوسف کو بھی ایجنٹ قرار دیا گیا ۔

کیسے مسلمان ھیں ہم جن کا آخرت پر یقین نہیں جو روزمحشر کو جٹھلاتے ھیں جو جنت اور جھنم پر یقین نہیں رکھتے ۔

میں جانتا ہوں کہ والدین کے اولاد پر بہت احسانات ھیں والدین کا مرتبہ بہت بلند ہے ، اولاد کی پرورش کے لیے ہزاروں تکلیفیں اٹھاتے ھیں ، لاکھوں جتن کرتے ھیں ، میرا مدعا لیبرزم کو پروموٹ کرنا نہیں بلکہ سماج کے ان درندہ صفت لوگوں کی اصلاح ہے جو اپنی عزت نفس بچاتے بچاتے بچوں کو خود اس آگ کی سولی لٹکا دیتے ھیں ۔

جس ملک کا پسندیدہ پرندہ شاہین ھو وہاں فاختہ ہمیشہ خون میں ہی ملے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے