درویش ایدھی کو ہدیۂ تبریک اور کشمیریوں کی آزادی کی دُعا

درویش ایدھی کیا سدھارے کہ پوری قوم کو احساسِ گناہ میں مبتلا کر گئے۔ کہیں دُور دُور تک بھی کوئی ایسا نہیں جو ایدھی ایسی پارسائی، امانت داری اور خلقِ خدا کی بے لوث خدمت گزاری کا پرتو ہو۔ شرع کا دعویٰ، نہ دستارِ فضیلت اور نیکیوں کے آخرت کی لوح پر رقم کئے جانے کی طمع۔ آخر وہ جذبہ، وہ ایقان تھا کیا جو اس نیک روح کے کام آیا جسے کسی طرح کی مذہبی فضیلت اور طہارت کی ضرورت تھی نہ دعویٰ۔ اچھا انسان ہونے کے لئے مذہبی ڈھونگ رچانے کا تکلف کیا؟ اور بہت زیادہ مذہبی شدت پسند ہو کر بھی آدمی کو انسان ہونا میسر نہیں۔ انسانیت پسندی (Humanism) تمام تر تعصبات سے ماورا اور روحانی تسکین کی معراج۔ کوئی پیغمبر ایسا گزرا جو اِن اوصاف بِنا ہو؟ چمک دمک، نہ دُنیاوی رعب و دبدبہ، خلعت نہ تمکنت، اقتدار نہ اختیار۔ بس اک جوشِ قلندرانہ، درویشانہ، عاجزی اور مادی و دُنیاوی رغبوں سے بے نیاز ہو کر حقوق العباد کی پاسداری۔ مسکینوں، غریبوں، محروموں، مظلوموں اور بے گناہ نومولودوں کو گود لینے کی جہد اور بے کراں نیکیوں کو سمیٹتے ہوئے، حور و غلمان کی لالچ نہ کارِ ثواب کی خواہش۔ یہ تھے ہمارے درویش ایدھی! 19 توپوں کی سلامی دے کر ریاست نے اپنے گناہ بخشوانے کا جتن خوب کیا کہ پاک سر زمین میں ایسی پاکیزہ روح کا گزر کبھی کبھار ہی دیکھنے میں آیا، ورنہ توپوں کی سلامی جلادِ اعظم جنرل ضیاء الحق کو بھی تو دی گئی تھی۔ حیرانگی تو ہوئی ملک بھر میں پھیلی یاسیت پر کہ ایسا رول ماڈل ڈھونڈنا مشکل ہے۔

مولانا حضرات نے اظہارِ تاسف میں کوئی بخیلی نہ کی، تو عوام الناس کو صرف وہی زندہ ولی نظر آیا۔ ایک ایسا مردِ مومن جو صوم و صلوٰۃ سے قطع نظر، مسیحائی میں ہمہ تن مگن۔ ہم نے ایدھی کی شان میں محفل بپا کی کہ احساسِ گناہ کا بوجھ کم ہو اور کچھ اپنی باطنی صفائی کا جتن کہ سوشل میڈیا پہ ہمہ وقت حملہ آور متشکک حضرات نے طعنہ زنی کی کہ ایدھی کو یاد کرتے ہو، کشمیریوں کو کیوں بھول گئے؟ حیرانگی ہوئی کہ ایدھی کو یاد کرنے سے بھلا کشمیریوں پہ پڑی اُفتاد کیوں بھلائی جائے گی۔ بھلا برہان وانی جیسے پروانے کی اپنی آزادی کے خیال پہ فدا ہونے کی ادا پہ فریفتہ ہوئے کون رہ سکتا ہے جبکہ وہ ایدھی کا پرستار بھی ہو؟

جی ہاں! ایدھی کا دن منائیں گے اور کشمیریوں اور اُن جیسے تمام مغلوب لوگوں کا حقِ خود اختیاری کا پاس بھی۔ لیکن حقِ خود اختیاری کو دہشت گردی کا دُرا بنا کر تمام جمہوری و انسانی اقدار کو پامال کرنے والوں سے پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ آپ حقِ خود اختیاریت کی ابجد سے بھی واقف ہیں؟ ایدھی سے بڑا حریت پسند کون ہوگا جو ہر اُس کے لئے کھڑا ہوا جس سے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق چھین لیا گیا۔ ایدھی بھی بے گور و کفن رخصت ہوئے اور آزادی کے پروانے بھی لاپتہ ہوئے۔ نوجوان، خوبرو برہان وانی بھی آزادی کے لئے زندگی کی قید سے آزاد ہوا۔ کیا تجاہلِ عارفانہ ہے کہ بھارتی میڈیا میں (اپنے چند دوستوں کے سوا) لفظ آزادی۔ انگریزی کوماز (’آزادی‘) کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور تو اور ہمارے شفیق بزرگ کلدیپ نیئر مکمل دیپ ہوتے ہوئے بھی لفظ آزادی کے معنی سمجھنے سے معذور ہیں۔ گاندھی جی کے ماننے والے بھی لفظ آزادی کا مطلب نہ جانتے ہوں تو حیف ہے اُس جدوجہدِ آزادی پہ جس نے آزادی کے ثمرات سمیٹنے والوں کو اتنا بھی نہ سکھلایا۔

کشمیری وہی حقِ خود اختیاری مانگتے ہیں جو ہم سب نے انگریزوں سے مانگا تھا اور وہ ہمیں یہ حق دے کر رخصت بھی ہو گئے۔ یہی حق جب کشمیریوں نے مانگا یا پھر بنگالیوں نے تو ہم نے وہ کیا جو انگریزوں نے نہیں کیا تھا۔ اٹوٹ انگ تو متحدہ ہندوستان بھی تھا اور ملکہ برطانیہ کی سلطنت بھی۔ بس! گوروں سے ر نگدار جانشین برے ثابت ہوئے۔

حقِ خود ارادیت، ایک فرد، ایک خاندان، ایک سماجی گروہ اور ایک قوم کا بھی ہے جس کے جمہوری استعمال سے ہر شخص، گروہ، یا قومیت اپنی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اور جو شخص، جماعت یا مملکت یہ حق بلا مشروط نہیں مانتی وہ جمہوری کہلوانے کی حقدار نہیں۔ جمہوری برطانیۂ عظمیٰ میں ہم کچھ پہلے سکاٹ لینڈ میں اس حق کا ریفرنڈم میں استعمال دیکھ چکے اور اب یورپی یونین سے اخراج کے بعد سکاٹ لینڈ والے پھر سے اپنی برطانیہ سے علیحدگی پر ایک اور ریفرنڈم بارے پر تول رہے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ حقِ خود اختیاری ایک بار نہیں بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے، بھلے اس کا نتیجہ آزادی مانگنے والوں کے لئے کیسا ہی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نکاح کے بعد حقِ طلاق اور اس شرط کے ساتھ نہیں کہ طلاق کے بعد کسی دوسرے کے نکاح میں جانا لازمی ہے۔

جن اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہم تھکتے نہیں اُن میں کشمیر کی دوشیزہ کے دو حصوں پہ قابضین کا دوشیزہ کے مکمل حصول کا دعویٰ ہے نہ کہ دوشیزہ کے حقِ طلاق کا احترام جو دونوں دعویداروں سے خلاصی بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت میں خصوصی آئینی حیثیت کے باوجود کشمیری آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم اُسے پاکستان سے الحاق کا مطلب لیتے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر دیکھیں گے کہ ہم کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی تعریف پہ کتنا پورا اُترتے ہیں۔

بدقسمتی سے بیچارے پیارے کشمیریوں کی مرغی دو جابر ملاؤں میں خراب ہو رہی ہے اور بھارت اور پاکستان اُس کی ایک ایک ٹانگ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور علاقہ گیری کی اس طمع کے ساتھ کہ پوری مرغی ہی ہضم کر لی جائے۔ جمہوری بھارت استصواب کے لئے اقوامِ متحدہ گیا تو ہم استصواب کے لئے اپنے آزاد کرائے کشمیر سے دستبردار نہ ہوئے۔ شیر کشمیر شیخ عبداللہ کے ہوتے ہوئے بھلا ہم استصواب پہ کیوں راضی ہوتے اور جب شیخ عبداللہ باغی ٹھہرے تو بھارت استصواب سے بھاگ گیا۔ جب شیخ عبداللہ کو رہا کیا گیا اور وہ پاکستان آئے تو اُنھیں پھر اس شک پہ گرفتار کر لیا گیا کہ کہیں وہ ریاست کی اسمبلی میں یکطرفہ اعلانِ آزادی نہ کر دیں۔ اور جب وہ رام کر لئے گئے تو ہمارے لئے وہ تمام جماعتیں اور اُن کی منتخب حکومتیں کٹھ پتلی ٹھہریں جو اچھے بھلے منصفانہ انتخابات کے تحت مقامی خود مختاری سے خود کو محروم رکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ جسے ہم مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں وہاں تو ابھی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی کو ’’نرم گو علیحدگی پسند‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

جبکہ ہمارے آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے پاس تو جنرل مشرف والے میئر کے اختیارات بھی نہیں۔ مشرف ہی کے دور میں جب ہم صحافیوں کا ایک نمائندہ وفد لے کر جموں و کشمیر گئے تو ہر طرح کے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت میں اس سوال کہ دونوں طرف کے کشمیریوں کی ہر دو اطراف آمد و رفت میں پاسپورٹ استعمال ہو یا پھر مقامی شناختی کارڈ تو بلااستثنیٰ جموں اور کشمیر میں یہ جواب ملا کہ کشمیریوں کے لئے کسی کا پاسپورٹ قبول نہیں۔ اسی اتفاقِ رائے کو دیکھتے ہوئے دونوں حکومتیں کشمیریوں کی بلا پاکستانی یا بھارتی پاسپورٹ کے آمد و رفت اور باہمی تجارت پر راضی ہو گئیں۔ اور جب ہم نے پاکستان کا جھنڈا لہراتے آزادی کے نعرے لگاتے نوجوانوں سے پوچھا کہ آزادی سے کیا چاہتے ہو تو جواب ملا آزادی۔ یہ درست ہے کہ ریاست جموں و کشمیر تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک طرف جموں اور دوسری طرف وادیِ کشمیر اور تیسری طرف لداخ اور پھر اس کی پاکستان اور بھارت میں تقسیم۔ بھارتی اٹوٹ انگ اور کشمیر ہماری شہ رگ کے مکالمے میں کشمیریوں کا حق خود ارادیت کہیں گم ہو گیا ہے اور وانی جیسے نوجوانوں کی نئی نسل آزادی کا کاررواں آگے بڑھانے نکل کھڑی ہوئی ہے اور جسے نہ حریت کانفرنس والوں کی پرواہ ہے نہ ہمارے جہادیوں کی جن سے وہ توبہ تائب ہوئے۔

کشمیر کے مسئلے کا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان میں ناچاکی کے ختم نہ ہونے والے بے مقصد میچ میں کشمیری فٹ بال بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں، ہم قبضہ چھڑانے کی پوزیشن میں نہیں۔ کیوں نہ دونوں ریاستیں اپنے تعلقات کو کشمیر کی گانٹھ سے آزاد کر کے کشمیریوں کے لئے سکھ چین کی کوئی راہ پیدا کریں اور کشمیریوں کا ماما یا باپو بننے کی بجائے کشمیریوں کو اُن کے حال پہ چھوڑ دیں۔ اپنی قومی اناؤں کی موچھیں نیچی کیئے بغیر ایسا کیا جا سکتا ہے اور جنرل مشرف اور من موہن سنگھ نے ایسی درمیانی راہ بھی نکال لی تھی۔ ایسا اب بھی کیا جا سکتا ہے اور سینکڑوں برہان وانیوں کو بچانے کے لئے اور داعش جیسی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے۔ ایسے میں ایدھی کی یاد کیوں نہ آئے کہ انسانیت کی بنیاد ہی فساد فی سبیل اللہ فی الارض کا تریاق ہے۔ بھائی چارے، انسان دوستی، خطے کے امن اور عوام کی بھلائی کے لئے بھارت اور پاکستان کشمیر پر رحم کریں اور اپنی اپنی جاہ پرستی کو لگام دیں۔ ایدھی کی یاد میں کشمیریوں کے لئے آزادی کی دُعا اور حقِ خود ارادیت کی تسکین اور دائمی امن کی التجا کے ساتھ یہ کالم تمام کرتا ہوں۔ بھلے کالموں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔

(رات گئے کالم ختم کیا تھا کہ ترکی میں فوج کی بغاوت کی خبر نے نیند اُڑا دی۔ جب عوام جمہوریت کے داعی ہو جائیں تو منتخب حکمرانوں کے گناہوں کے باوجود کوئی مائی کا لعل جمہوریت کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ابھی امجد صابری کی صفِ ماتم بچھی تھی کہ شادن لنڈ ڈیرہ غازی خان سے ترقی پسند دانشور ظفر لنڈ کے قتلِ ناحق کی خبر ملی۔ اور قندیل بلوچ غیرت کے نام پر قتل کر دی گئی۔
کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں

[pullquote]بشکریہ روزنامہ جنگ[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے