آزادکشمیرانتخابات اور تحریک آزادی

آزاد کشمیر میں عام انتخابات21 جولائی ہونے والے ہیں اور اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے ، بدلتی سیاسی وفاداریاں ، بنتے ٹوٹتے اتحاد ، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور قوم کی حالت سنوارنے کے دعووں نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ یہ سب انتخابات کے موسم میں ہونا معمول کی بات ہے ، لیکن اس دفعہ کی سیاسی صورتحال چند حوالوں سے قدرے مختلف ہے۔

اول، اس بار قوم پرست جماعتوں میں سے کچھ اس بار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ،

دوم حریت کانفرنس بھی اس بار انتخابی سیاست میں کودنے کے لئے تیار ہے ،

اور سوم ، غیر متوقع سیاسی اتحاد۔

قوم پرست جماعتوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ نظریات کی سیاست کرتی ہیں یہ سب خودمختار کشمیر کی حامی اور نظریہ الحاق پاکستان کی مخالف ہیں اسی بنا پر یہ آج انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنیں کیونکہ آزاد کشمیر میں انتخابات لڑنے کے لئے نظریہ الحاق پاکستان سے وفاداری کا حلف لینا لازمی ہے ان جماعتوں نے اس ایک نکتہ پر بہت سیاست کی ہے اور ہمیشہ آزادکشمیر کے انتخابات کو غیر جمہوری قراردیا ہے۔

جے کے پی این پی اور نیپ(نیشنل عوامی پارٹی) انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس لئے ان کا انتخابات میں حصہ لینا ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے مضبوط نہیں کر سکتا ، کیونکہ ان کو اپنی سیاسی نظریے پر سمجھوتہ کر کے نظریہ الحاق پاکستان سے وفاداری کا حلف لینا ہوگا۔ اور پھر ان کے انتخابات جیتنے کے امکانات بھی کم ہیں ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی اور کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت انہوں نے الحاق پاکستان کی شق کو مسترد کیا جس پر ان کے کاغذات نامزدگی قبول نہیں کئے گئے اور اس کے بعد لبریشن فرنٹ کے امیدواران نے عدالت کے باہر کاغذات نامزدگی کو احتجاج کرتے ہوئے جلا دیا۔ اس ضمن میں لبریشن فرنٹ کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ یہ احتجاج کا طریقہ تھا اور ہمیں پہلے سے ادراک تھا کہ ہمارے کاغذات کو مسترد کیا جائے گا۔

آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست کی بنیاد نظریات کی بجائے برادری ، پیسہ اور اسلام آباد سے تعلقات ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات مہم میں مقبول نعرے کچھ اور ہوتے ہیں اور ووٹ کسی اور بنیاد پر ملتے ہیں۔ نعرے بالترتیب کچھ اس طرح ہیں ، تحریک آزادی کو تقویت دینے کا نعرہ ، آزادکشمیر کو اختیارات دلوانے کا نعرہ ، کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ اور ترقیاتی کاموں کا نعرہ جبکہ ووٹ صرف پیسے اور برادری کو پڑتا ہے یا سیاسی نوکری کی لالچ کو۔

دس سال قبل تک آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ لگایا جانے والا نعرہ تحریک آزادی کو تقویت دینا اورآزاد کشمیر اسمبلی کوبااختیار کرنے کا تھا اور یہی دو نعرے سیاسی منشور میں ثانوی حیثیت کے حامل ہوتے تھے تاہم گذشتہ انتخابات میں کسی جماعت کے سیاسی منشور میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں کیا تھا اور ابھی اتک آزاد کشمیر کے انتخابات میں آنے والی دو درجن سے زائد جماعتوں میں سے صرف دو جماعتیں اپنے منشور کا اعلان کر سکی اس میں بھی تحریک آزادی کے حوالے سے روائتی جملہ لکھا ہے ۔” مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئیے”۔ اس کے علاوہ اس دفعہ حریت کانفرنس بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پر تولے ہوئے ہے حریت قائد سید علی گیلانی جن کا گزشتہ عرصہ میں ہی بیان سامنے آیا ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ہند نواز جماعتوں کو ووٹ دینا حرام ہے ، اس بار پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی انتخابی سیاست میں گہری دلچسپی لیتی نظر آتی ہے ۔

حریت کانفرنس سے متعلقہ ایک خاتون اور ایک حضرت کو چاہنے کے باوجود اس بار ٹکٹ نہیں مل سکے لیکن سید یوسف نسیم کی زوجہ محترمہ جو پہلے بھی ایم ایل اے اور ڈپٹی سپیکر رہ چکی ہیں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر اس بار پھر انتخابات میں آئیں گی گو کہ وہ براہ راست حریت کانفرنس کا حصہ نہیں ۔حریت سے ان کا تعلق صرف یہ ہے کہ ان کے شوہر حریت کے کنونئیر رہے ہیں اور ان کی الیکشن مہم کی کامیابی کے لئے میرواعظ عمر فاروق کی کال بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ شبیر احمد تانترے جن کا تعلق حزب المجاہدین سے رہا ہے وہ بھی انتخابات کا حصہ بن رہے ہیں۔

کامیابی یا ناکامی ایک طرف ان لوگوں کا انتخابی عمل کا حصہ لینا ہی ان کے اس بنیادی موقف کی جس کا پرچار وہ ساری عمر کرتے رہے ہیں کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ حریت کانفرنس کے جن حضرات کی ازواج انتخابی عمل کا حصہ بن رہی ہیں ان کے مطابق حریت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے اور ان کی ازواج کو حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاست میں حصہ لے سکیں۔حریت کانفرنس (گ) کے کنویئنر غلام محمد صفی نے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی جس کے مطابق وہ آزاد کشمیر کے انتخابی عمل میں شریک نہیں ہونگے ۔ اس کے باوجود حریت کے کئی عہدیداران نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں مقیم کشمیریوں(مہاجرین کشمیر) کے مسائل ہیں جن کو حل کرنے کیلئے انہیں انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہئیے۔

موجودہ انتخابات میں ایک اور دلچسپ عمل اس بار کے سیاسی اتحاد ہیں مرکز میں برسراقتدار اور مقبول عام جماعت مسلم لیگ نے جے کے پی پی(جموں کشمیر پیپلز پارٹی) اور جماعت اسلامی سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ جے کے پی پی کے ساتھ پونچھ کی سیٹوں کے لئے ایڈجسٹمنٹ کرنا مسلم لیگ ن کے مفاد میں تھااور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد میں ایک بار پھر مسئلہ کشمیر اور تحریک کے لئے کام کرنے کا نعرہ استعمال کیا گیا۔مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکے صدر راجہ فاروق حیدراور امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرعبدالرشید ترابی کا کہناتھاکہ جماعت اسلامی سے انتخابی مفاہمت یعنی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے دوبڑے اہداف ہیں ایک کشمیرکی آزادی کے لیے مل کر حکمت عملی ترتیب دینا اور اس تحریک کو منزل تک پہنچانا ،دوسرابیس کیمپ میں اصلاح احوال کرنا،جماعت اسلامی کے پاس ایک تربیت یافتہ ٹیم ہے جو آزاد خطے کے نظام کی صلاح میں کردار ادار کرسکتی ہے، عبدالرشید ترابی کا تحریک آزادی میں بڑا کردار ہے ،اس لیے ہم نے کوشش کی کہ جماعت اسلامی کو آئندہ بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کا حصہ بنایا جائے تاکہ مل کر اس نظام کی اصلاح کریں اور کشمیرکی آزادی کے لیے مل کر کام کریں،امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی نے کہاکہ جماعت اسلامی کا بھی یہ ہدف ہے کہ کشمیرکی آزادی کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے او ر اس کے لیے بیس کیمپ کے کردار کو بحال کرناضروری ہے،جماعت اسلامی بھی بیس کیمپ میں نظام کی اصلاح چاہتی ہے۔

آزاد کشمیر کے آئندہ انتخابات کا تحریک آزادی کشمیر میں کے حوالے سے جب آزاد کشمیر کے سیاست دانوں اور سئینر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے بات کی تو سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ انتخابات فری اینڈ فئیر ہو نے چاہییں تا کہ بھارت کو پیغام جا سکے کہ آزاد کشمیر ایک مثالی ریاست ہے۔ان انتخابات سے ہم ایک اچھا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور دنیا کو باور کروا سکتے ہیں کہ آزاد کشمیر واقعی تحریک آزاد ی کا بیس کیمپ ہے اور با اختیار ہے۔اسی طرح بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے مطابق وہ مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کو ڈھونگ انتخابات کہتے ہیں اس لئے یورپی یونین اور دیگر اداروں کی موجودگی میں انتخابات چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جا سکے کہ آزاد کشمیر میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں اور یہ اپنی قیادت چننے میں آزاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شفاف الیکشن نہ ہوئے تو تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچے گا اس سے بھارت کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا۔

دوسرا اتحاد مسلم کانفرنس اور پاکستان تحریک انصاف کا اتحاد جو مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے ایک ضلع میں مسلم کانفرنس سے بھی اتحاد کیا ہے اور کئی جگہوں پر مسلم لیگ ن سے اتحاد کیا ہے اسے اب سیاسی فیصلہ کہا جائے یا مفادات کی سیاست تاہم عوام میں جماعت اسلامی کے متعلق جو رائے تھی وہ ختم ہوتی نظر آئی ۔مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کا مسئلہ کشمیر پر کیا اثر ہو گا اس حوالے سے جب آزاد کشمیر کے سئینر صحافیوں اور سیاستدانوں سے بات کی جس کا مختصر سا احوال یوں ہے .

سئینر صحافی اطہر مسعود وانی کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے موجودہ الیکشن میں تحریک آزادی کشمیراورمسئلہ کشمیر کا کسی بھی طرح کاکوئی تذکرہ نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کا انتخابی نعرہ یہ ہے کہ انہوں نے پانچ سال بہت اچھی حکومت کی ہے اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ الیکشن جیتنے کے لئے پرعزم ہیں۔مسلم لیگ(ن) یہ الیکشن آزاد کشمیر میں کرپشن کے خاتمے،تعمیر و ترقی،بڑے ترقیاتی منصبوں اور ’’گڈ گوریننس ‘‘ کے عزم سے لڑ رہی ہے۔’پی ٹی آئی‘ کا انتخابی منشور تو غیر سنجیدگی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی تو ایک طرف ،آزاد کشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ عزم یا نعرہ نظر نہیں آتا کہ ’’آزاد کشمیر میں بااختیار اور باوقار حکومت قائم ہو‘‘،دوسرے الفاظ میںآزاد کشمیر حکومت کے بنیادی کردار کی بحالی کی آزاد کشمیر میں سوچ بھی نظر نہیں آتی۔میری رائے میں آزاد کشمیر میں اس وقت سرکاری اور سیاسی سطح پہ صورتحال بدترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور اس سے کشمیر کاز کو کوئی فائدہ تو دور ،خود آزاد خطے اور اس کے عوام کی مشکلات و مصائب میں اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

مظفر آباد میں مقیم صحافی عارف بہار کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر مسئلہ کشمیر آزاد کشمیر کی سیاست میں دب کر رہ گیا ہے کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں ہے۔اگر انتخابات کے نتیجے میں گڈ گورننس آتی ہے تو یہ ایک مثبت پیغام ہو گا کیونکہ آج کے دور میں حالات کو چھپایا نہیں جا سکتا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایگزیکٹو سیٹ پر کون آتا ہے اس کی کنٹرول لائن پار میں دلچسپی کیا ہے؟ اس وقت تک تو آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا اندازاہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سوائے ایک جماعت کے کسی نے بھی تحریری منشور دینا گوارا نہیں کیا ہو سکتا ہے وہ عوام کو کوئی ایسی چیز دینا ہی نہ چاہتے ہوں جس کو بنیاد بنا کر کل ان کو جوابدہ ہونا پڑے۔آج کل سوشل میڈیا نے ہر چیز سے پردہ اٹھا رکھا ہے اگر گڈ گورننس آئیگی تو لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف ایک مثبت پیغام جائے گا ۔

اسلام آباد میں کشمیری صحافی سردار عاشق کے مطابق انتخابا ت کا براہ راست تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔سیاسی جماعتوں نے روائتی انداز سے زیادہ مسئلہ کشمیر پر غور نہیں کیا۔انتخابات میں اہم چیز انتخابی مہم ہوتی ہے جہاں آپ اپنی ترجیحات کو سامنے لاتے ہیں اور اب تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے جلسوں میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا حکومت بنانے کے بعد انہوں نے کیا کرنا ہے ۔ مسئلہ کشمیر تو دور کی بات ہے انہوں نے آزاد کشمیر کے مسائل کو بھی اچھے طریقے سے ذکر نہیں کیا ۔ انتخابی مہم کے دوران اجتماعی مسائل بے روزگاری کے خاتمہ ، آزاد کشمیر میں صنعتی یونٹس لگانے کی بات تک نہیں کی ۔ ہاںیہ ضرور ہے کے لوگوں سے انفرادی وعدے ضرور کئے گئے ہیں کہ آپکو یہ فائدہ دیا جائے گا۔اس لئے یہ انتخابات ایسے ہی ہیں جیسے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہوتے ہیں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تحریک آزادی کے حوالے سے۔

کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھے تجزیہ نگار ارشاد محمودکا کہناا تھا کہ اگر آزاد کشمیر کے الیکشن شفاف ہوئے تو کنٹرول لائن کی دوسری طرف ایک اچھا پیغام ملے گا اور وفاقی جماعتوں کی مداخلت سے اگر نتائج میں تبدیلی آئے گی تو یہ اچھا پیغام نہیں ہو گا۔آزاد کشمیر اور بالخصوص مہاجرین کی نشستوں پر فیری اینڈ فئیر الیکشن ہونے چاہیں تا کہ ان کی اصل نمائندگی سامنے آئے اور ان کے مسائل حل ہو سکیں جو براہ راست مسئلے کے متاثرین ہیں۔

یوں سیاست دانوں کے تحفظات اور صحافیوں کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات صرف اقتدار کے حصول کی جنگ ہے اور مظفر آباد میں قائم ہونے والی حکومت پانچ سال اپنے اختیارات کا رونا روتی ہے اور بے اختیار حکومت کو عوام کے مسائل اور مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔اگر کسی کو لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف دلچسپی ہو تو شائد کچھ بہتری ہو سکے وگرنہ اللہ ہی حافظ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے