جمھوریت کی فتح اور سیاسی یتیم

سترکی میں فوج کے ایک باغی گروہ کی بغاوت اور جمھوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش اور اسکے مقابلے میں ترکی کے جمھوریت پسند عوام کا طیب اردگان کی حکومت اور جمھوریت کی حفاظت کے لئے اس بغاوت کے سامنے ڈٹ جانے پر جہاں ترکی کے عوام خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ وہیں پر پاکستان کے سیاسی یتیموں کے مبارک باد، ترک عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے اور انکی ہر مدد کیلئے تیار ہونے کے واویلا اور کسی بھی فوجی کودیتا کے خلاف اپنے بلند و بانگ دعوں پر ہنسی کے ساتھ ایک پرانا واقعہ بھی ذہن کے پردے پر گردش کرنے لگا۔

کہ ایک دینی مدرسے کے طلباء ایک دفعہ رات کو کنویں سے پانی بھرنے گئے۔جب طلباء کنویں سے پانی نکال کر جانے لگے۔ تو حضرتِ خضر سامنے آئے ۔ طلباء سے پوچھاکہ کیا لے کر جارہے ہو؟؟ طلباء نے جواب دیا کہ حضرت پانی لے کر جارہے ہیں۔ اس پر حضرتِ خضر ؑ نے کہا کہ ذرا دیکھوں تو۔۔۔
گڑھے میں بسم اللہ پھونکا اور دیکھا۔ کہنے لگے یہ تو شہد ہے۔ اب جب طلباء نے گھڑا دیکھا تو واقعی پانی نہیں شہد تھا۔ بھاگ بھاگ کے مدرسے آئے اور اپنے ساتھیوں کو بڑے جوش سے قصہ سنایااور کہنے لگے کہ ہم نے پانی سے شہد بنانے کا فارمولا سیکھ لیا ہے۔ لہذا جلدی جلدی یہ شہد کھالو تاکہ ہم اور لے کر آئیں۔
جب شہد ختم ہوا تو طلباء بھاگے بھاگے کنویں پر گئے پانی نکالا۔ بسم اللہ پڑھ کر پھونکا پر پانی شہد نہ ہوا۔ پھر پھونکا پر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر تھک ہار کر اپنے استاد کے پاس آکے سارا ماجرا سنادیا۔ تو استاد نے ہنستے ہوئے کہا۔ کہ بسم اللہ ضرور وہی ہے ۔ پر پڑھنے والی زبان وہ نہیں۔

بعینہہ ترکی کے جمھوریت کے فتح کی مثال دے کر اپنی ناتواں کندھوں پر قربانی کا بھاری بھر کم بوجھ ڈالنے والے ہمارے شاہی نما جمھوری قائدین اور انکے وظیفہ خوار شائد یہ بھول گئے کہ یہاں نہ تو طیب اردگان جیسا نڈر اور باکردار رہنماء ہے، اور نہ ہی جمھوریت کی حفاظت کرنے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے والے کارکن۔ رہی عوام کی بات تو وہ تو انکے جھوٹے وعدوں اور خاندانی جمھوریت کی آڑ میں عوام دشمنی سے اتنے تنگ ہیں کہ شاید ہی کوئی عوامی طاقت این آر او اور معاہدوں کے سائے میں جلاوطنی کے بدلے میں اپنی جان بچانے والوں کے لئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کردیں۔

میں جب موازنہ کرتا ہوں جمھوریت کے حقیقی علبرداروں اور جمھوریت کے نام پر عوام کا اقتصادی اور معاشی استحصال کرنے والوں کا تو سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ بقولِ کسی کے
…. . کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے۔
ایک طرف ہمارے محترم قائد ہیں جنہیں صرف پارلیمنٹ کے اجلاس میں آنے پر مجبور کرنے کے لئے حکومت کے خلاف کسی تحریک چلانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔دوسری طرف ترکی کے وہ صدر ہیں جو جمھوریت کی فتح پر عوام میں گھل مل گئے۔اور عوام کے ساتھ مل کر استنبول کی سڑکوں پر نظر آئے۔ ایک طرف ہماری جمھو ری طاقتیں ہیں جو مقتدر قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر وقت یک دوسرے پر سبقت لے جانے کو دین و دنیا کی بھلائی سمجھتے ہیں دوسری طرف ترکی کے نڈر صدر ہیں جو جمھوریت پر شب خون مارنے والوں کو بر سرِ عام سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں ۔ ایک طرف ہمارے جمھوری شہسوار ہیں جو کہ بڑی شرافت سے دبئی میں جم میں ورزشوں کے مزے لینے والے ہمارے جرنیل صاحب کو بیماری کی سند دے کر بحفاظت ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں اور دوسری طرف ترکی کے صدر اور وہاں کا جمھوری ڈھانچہ ہے جو کہ فوجی باغیوں کو غدار اور کالی بھیڑوں کے نام سے بلا کر انکو انجام تک پہنچانے کا اعلان کرتے ہیں۔

لہذا ترکی کی جمھوری فتح کی مثال دے کر ہمارے ہاں اس طرح کی تاریخ دہرائے جانا اور وہ بھی ہمارے تاجر نما جمھوری جماعتوں سے؟؟؟ شاید ایک خوش فہمی اور سیاسی جوش کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ ہم نے بارہا دیکھا کہ نہ خنجر اُٹھے گی نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
قائدِجمھوریت کے ایک قصیدہ خوان جسکی مزدوری کو جائزقراردینے اور ملکی خزانے پر بوجھ بننے کو قانونی شکل دینے اسے وزیرِ اعظم کے مشیر خارجہ امور کے تمغے سے نوازاگیا ترکی میں جمھوریت کی فتح پر جس جوانمردی اور جوش سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ چند لمحوں کے لئے یوں لگا جیسے ساری تحریک کے روح رواں یہ صاحب ہیں اور ترک قوم نے جمھوریت کا یہ سبق ان موصوف اور انکے قائد کی عملی قربانیوں سے سیکھا۔

جبھی تو میں تلاش کرنے لگاکہ انکی وہ کونسی خوبیاں ہیں جنکا اتباع کرکے ترک کامیاب ہوگئے۔ پر ایسا کچھ خاص نہ ملا۔ نہ تو وہاں مجھے ان موصوف جیسے جمھوریت کے عملی جدوجہد سے عاری مشیر نظر آئے۔ اور نہ دخترِ وزیرِ اعظم بغیر کسی عوامی مینڈیٹ کے امورِمملکت چلاتے ہوئے نظر آئی۔ نہ مجھے دامادوں کی جمھوری ریل پیل دکھائی دی اور نہ ہی مجھے بھانجے بھتیجوں کے جھنڈ جمھوریت کادفاع کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرتے ہوئے نظر آئے۔

ترکی میں جمھوریت جمھور کی ملک ہے۔ جبھی تو ۲۰۰۸ کے بعد ترکی کی تباہ حال معیشت اردگان کی قیادت میں اب دنیا کی ترقی پذیر معیشتوں کی صف میں آگئی۔لیکن ہمارے ہاں تو جمھوریت خاندانوں کی ملکیت ، شاہ کے قصیدہ خوانوں اور اپنے تجارتی شراکت داروں کی ملکیت ہے۔جہاں جمھوریت کی بنیادی تعریف ہی بدل دی گئی ہے۔ عوام کا دور دور تک پتہ ہی نہیں چلتا۔صرف عوام کو جمھوریت کے نام پر ہمیشہ قربان کردیا جاتا ہے۔

جہاں تک ہمارے مقتدر اداروں اور فوجی قیادت کا تعلق ہے ۔ اللہ کے فضل سے وہ ماضی کی غلطیاں دہرا کر قوت اور جبر کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ جہاں پھر انہیں کسی ق، ن یا پھرش ٹولے کی ضرورت پڑے۔ جو انکے فیصلوں کا پھر وہی حشر کردے جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ ہمیں اپنے سرحدوں کا دفاع کرنے والی فوجی قوت اور انکی قیادت سے یہی امید ہے کہ وہ اپنے کام پر بھر پور توجہ دے کر سیاسی قائدیں کے لئے عملی کردار کی بنیاد پر لمحہ فکر پیدا کردیں ۔تا کہ وہ بھی بادل ناخواستہ سہی پر ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھیں۔

جہاں تک پاکستان کے غیور عوام کا تعلق ہے۔ انکی قربانیاں ہم نے پاکستان قومی اتحادکی تحریک کے دوران دیکھیں اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بھی اس قوم کی قربانیاں جمھوریت کے لئے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آمر سے ٹکرانے ک بعد جب فتح ہوئی تو عوام کی جدوجہد کا نتیجہ لندن میں سرے محل، دبئی میں عالیشان بنگلوں، لندن میں بیش بہا قیمتی فلیٹوں، دبئی میں اربوں کی جائدادوں کی صورت میں ہمارے جمھوریت پر جان نچھاور کرنے والی قیادت کو مل گیا اور جمھورکی قسمت میں صرف نعرے جھنڈے اور دھکے آگئے۔

جمھوریت اس وقت دنیا کے موجودہ نافذ نظاموں میں بہتر انتخاب ہے۔ اور آمریت دنیا کے کسی فکر یا مذہب یا سوچ کے مطابق قابلِ قبول نہیں۔لیکن اس بہترین نظام کا ذکر ان زبانوں سے بلکل اچھا نہیں لگتا ۔ جنکے کردار سے اس نظام کی روح زخمی ہے۔ پاکستان کی سیاسی فضاء میں اس نظام کے دفاع کے لئے پاکستان کے سیاسی یتیموں کوبھی طیب اردگان جیسے کردار کی ضرورت ہے۔انکو اپنے کردارکی تربیت کے لئے ڈیوڈ کیمرون کے کردار سے کچھ سیکھنا ہوگا اپنے کردار کو بلند کرنا ہوگا، جمھوریت کو خاندانی میراث سمجھنے کی بجائے جمھور کی ملکیت سمجھنی ہوگی۔ ورنہ جب یہاں خدا نخواستہ، خاکم بدہن کہیں پھر میرے عزیز ہموطنو!۱کی صدا آئی تو پھر شاہ کے قصیدہ خوان بیرونِ ملک کے ٹکٹ لینے میں مصروف ہوں گے اور جو جمھوریت کے محافظ ہیں وہ پھر جمھوریت کو ۱۰ ،۱۲سالوں کے لئے یتیم چھوڑ کر اپنے پیاروں کے پاس ذکر و عبادت کرنے چلے جائیں گے جو باقی ہیں وہ دبئی میں اپنے کاروبار پر توجہ دے دیں گے تا آنکہ مقتدر قوتوں سے انکے نام کا کوئی بلاوا نہ آجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے