ناسٹلجیا کا جزیرہ

کالج کے زمانے میں ہمارے فزکس کے ایک لیکچرار بہت دلچسپ آدمی تھے۔ریٹارمنٹ قریب تھی لیکن زندہ دلی نو جوانوں والی تھی۔اکثر پڑھاتے پڑھاتے رک جاتے اور اپنے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر کئی دہائیوں پر پھیلے تدریسی کیرئر کے قصہ بڑے پر جوش انداز میں سنانے لگتے ۔ایف سی کالج (Forman Christian College) میں ان کا زیادہ تر وقت گزرا تھا اور وہ وہاں کے گزرے دنوں کو بڑے ڈرامائی انداز میں بیان کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ لگتا تھا ۔

ایک دفعہ اسی طرح وہ لیکچر کے دوران اپنے اس نا سٹلجیا(nostalgia) میں کھوئے ہی تھے کہ میرے پیچھے بیٹھے لڑکے نے جملہ کسا : لو جی ! شروع ہوگئی آٹو بائیوگرافی(autobiography) کی گردان، کہنے کو وہ لڑکا یہ کہہ گیا لیکن میرے دل لیکچرار کے ناسٹلجیا سے کھٹا ہو گیا ، میں نے سوچا کہ یار یہ کیا عجیب عادت ہے کہ اپنی لائف سٹوریز دوسروں کے ساتھ ڈسکس کرنا ، میں خود تو کبھی یہ بور کام نہیں کرو گا۔

اس وقت ہماری عمر بھی کچی تھی اور بزرگوں سے بغاوت کی دھن بھی ہر لمحہ ہم پر سوار رہتی تھی،ان کی ہر ادا ہمیں نقش کہن لگتی تھی جسے مٹانے کو ہم نے عہد کیا ہوا تھا۔اس زمانہ میں ماضی میرا کوئی دلچسپ نہ تھا ،اور مستقبل بنانے کی بھوت ہمارے سر پر ہر وقت مسلط رہتا تھا ،ہر لمحہ اپنے آپ کو کوستے گزرتا تھا اس لئے ہم نے یہ اٹل فیصلہ کیاکہ نہ ہی اپنے دکھڑے کسی کے سامنے رونے ہیں اور نہ ہی اپنی کامیابیوں کا رعب کسی پرجمانا ہے۔

خیر وقت گزرتا گیا اور میرے پروفیشنل کالج میں داخلہ کے بعد بھی یہ زبان بندی کی یہ کیفیت برقرار رہی اور ماضی میں جھانکنے کا دروازہ دوسروں پر کیا اپنے آپ پر بھی بند کئے رکھا۔لیکن جوں ہی گریجویشن کے بعد عملی زندگی میں زبردستی داخلہ ہوا تو حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہونے لگے جس کا لازمی اثر میری نفسیات پر پڑنے لگا ۔سب سے پہلا جو مسئلہ ہوا وہ سٹوڈنٹ لائف کی پڑوٹیکٹڈ(protected) لائف سے اچانک زمانے کے سردو گرم کا سامنا کرنا تھا۔اس اچانک کی اتھل پتھل نے مجھے فرسٹریشن میں مبتلاکردیا ۔

یہ فرسڑیشن کچھ آرام دہ زندگی کے خاتمہ اور کچھ زندگی کے تلخ حقائق (bitter realities) سے سامنے کی وجہ اپنے (comfort zone) سے دوری کا نتیجہ تھی ۔مجھے اپنا وجود معلق محسوس ہونا شروع ہو گیا ۔اس (anti gravity)کیفیت نے میری طبعیت پر عجیب سی بے کلی طاری کرنا شروع کر دی ۔کٹی پتنگ کی طرح میں ایک وقت ایسا بھی آنے لگا کہ میرا زمین بوس ہونا یقینی ہو گیا عین انھیں دنوں میرے نفسیاتی حٖفاظتی نظام(psychological defense mechanism)نے ناسٹلجیا کا دروازہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ پر کھول دیا۔

پرانی یا دوں ، باتوں اور خوشگوار لمحوں کی طرف چند ساعتوں کی واپسی مجھے حال کی فرسٹریشن میں ٹھنڈی ہوا کا جھو نکا محسوس ہونے لگی۔رفتہ رفتہ میرا موڈ بہتر ہونے لگا اور ڈیپریشن میں کمی آنے لگی ۔خود ساختہ تنہائی کی کیفیت سے بھی میں باہر آنے لگا اور اس سکون کی کیفیت نے میرے لئے نئی روٹین کو کچھ سہل بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔

ناسٹلجیا (nostalgia)پرجب سب سے پہلے نفسیات دانوں کی تو جہ گئی تو ان کے خیال میں یہ ایک بیماری تھی جو انسان کی توانائیاں ایک فضول کی سرگرمی میں ضائع کردیتی ہے ۔لیکن جوں جوں نفسیات کی سائنس نے ترقی کی تو اب نا سٹلجیا کو انسا نی ذہن کی مثبت سرگرمی قرار دیا جانے لگا ہے۔جدید ریسرچز کے مطا بق ناسٹلجیا اگر اعتدال میں استعمال کیا جائے تو نہ صرف جینے کے لئے ایک وجہ فراہم کرتا ہے بلکہ لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ، ڈیپریشن کو کم کرتا ہے، موڈ کو خوشگوار بنا تا ہے،شخصیت کی گروتھ کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ ایسا کیوں کرتا ہے اس کی وجوہات سائنسی سے زیا دہ جمالیاتی(aesthetical) ہیں۔

اصل میں جب ہم زندگی کے روز وشب سے گزرتے ہیں تو اپنی خوشگوار یادوں اور حسین جذباتی واقعات سے ایک جزیرہ آباد کرتے جاتے ہیں۔یہاں ہماری بچپن کی شرارتیں ،لڑکپن کی خرمستیاں،والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بے فکری میں گزارا وقت ،سکول اور کالج کے یا دگار لمحہ اور ہماری چھوٹی سے چھوٹی کامیابیوں سے مزین باغ،آبشاریں،شاندار محل اور نا نجانے کیا کچھ تعمیر کیا ہوتا جاتاہے۔لیکن اس شاندار جزیرہ کے علاوہ دماغ کے کسی کونے کدھرے میں اپنی تلخ یا دوں کا قبرستان بھی بنتا رہتا ہے ۔یہاں صرف ویرانی ہوتی ہے، وہشت ہوتی ہے ، سوگ ہوتا ہے اور قبروں میں منوں مٹی تلے وہ ناکامیاں، رسوائیاں، دکھ اور درد بند ہوتے ہیں جو کبھی ہمارے لئے سوحان روح ہوا کرتے تھے۔ہم میں سے ہر امیر غریب اور چھوٹے بڑے کی ذات میں یہ جزیرہ اور قبرستان ضرور آباد ہوتے ہیں۔اور زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم نے ان دونوں جگہوں میں سے کہا ں ڈیرہ ڈالنا ہے؟

ہمارے بزرگوں نے نہ سائنس پڑھی تھی اور نہ ہی نفسیات لیکن وہ انسانی فطرت کے نباض تھے اس لئے وہ قبرستان میں نہیں بلکہ ہمیشہ خوبصورت یادوں کے جزیرہ میں ہی ڈیرہ ڈالے رکھا ۔مجھے یاد ہے کہ جب میری مرحوم دادی زندہ تھی تو وہ بار بار اپنے ماضی اور ہمارے خاندان کے پرانے قصہ اس زندہ دلی سے سناتی تھی کہ آج بھی شاندار سے شاندار لٹریچر پڑھتے ہوئے بھی مجھے وہ لطف نہیں آتا جو میری واجبی پڑھی لکھی دادی کے ناسٹلجیا کو سننے میں آتا تھا۔اس طرح والد صاحب اور چچا کی گفتگو کا وہ حصہ آج بھی میرے لئے سب سے زیا دہ قابل توجہ ہوتا ہے جن میں وہ اپنے ماضی کا دراوزہ کھولنے لگ جاتے ہیں اور صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کہتے ہوئے بہت بہتر محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔

اس ساری بحث سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ہمارے پاس آپشنز ہمیشہ تین ہی ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہم اپنے ماضی کے گھڑے مردوں کو اپنے تعاقب کی اجازت دے کر زندگی کو سوحان روح بنائے رکھیں دوسری یہ کہ ہم ناسٹلجیا(nostalgia) کے جزیرے میں وقتا فوقتا پناہ حاصل کر کے زندگی کے تلخ حقائق سے کبھی کبھار ضروری(much needed) فرار کا راستہ اپنائے اور تیسرا اپنے ماضی سے مکمل طور پر لاتعلق ہو کر اپنے آپ کو اس بے جڑ کے درخت کی طرح کرلیں جسے حوادث زندگی کے جھکڑ پرے اٹھا پھینکتے ہیں۔ان سب میں بہترین آپشن یقیناًنا سٹلجیا کا سہارا لے کر پہلے سے مشکل زندگی کو مزید مشکل بنانے سے روکنا ہی ہے۔اس لئے(take home message) یہی ہے کہ دنیا ہمارے ان قصہ گوئیوں سے تنگ ہو یا خوش ، ہمیں اپنے ماضی کی خوشگوار یا دوں کے جزیرے کی سیر کرتے کراتے رہنا چاہیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے