کشمیرپاکستان کی شہہ رگ مگر۔۔۔۔۔۔

عید الفطر کا تیسرا دن تھا۔ عصر کی نماز کے بعد جب وہ اپنے دو ساتھیوں سمیت مسجد سے نکلے تو بھارتی فورسز نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔ تینوں نوجوانوں نے بزدلی دکھا کر بھاگنے کی بجائے ڈٹ کر مقابلے کرنے کو ترجیح دی جو کئی دہائیوں سے ان کے آباؤ اجداد کا شیوا رہا ہے۔ یوں حریت پسند رہنماٗ برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرگئے تاہم اپنے پیچھے عزم و ہمت کی کئی داستانیں چھوڑ گئے۔ جہاں جہاں خبر پہنچی لوگ غم و غصے سے سڑکوں پر نکل آئے پھر دنیا نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں کس طرح لوگوں نے برہان وانی شہید کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پینتالیس دفعہ اس عظیم نوجوان مجاہد کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پانچ لاکھ سے زائد لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔

برہان وانی کی شہادت نے تحریک آذادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اسلحوں سے لیس بھارتی فورسز کے سامنے نہتے کشمیری زندگی کی بازی ہارتے جارہے ہیں حریت رہنما سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کو نظر بند کردیا گیا یٰسین ملک کو جیل ڈال دیا گیا پھر بھی جزبہ ہے کہ کم ہی نہیں ہورہا۔بندوقیں لہراتے سپاہیوں سے سامنے نہتے کشمیری سینہ سپر کھڑے ہیں کہ اب آذادی سے کم کسی چیز سے بات نہیں بنے گی۔

کشمیر کی اس صورتحال پر پاکستانی حکومت کا کردار انتہائی مایوس کن رہا۔ جس کا اظہار دبے لفظوں میں حریت پسند رہنما بھی کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک دن منانا کافی ہوگا۔۔۔۔ کیا یوم الحاق کشمیر منانے سے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے۔ کیا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ، کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا یا پھر کشمیر کی آذادی تک ہزار سال تک لڑنے جیسے بیانات صرف زبانی جمع خرچ تھے۔

کشمیر تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور ہوتا تھا بدقسمتی سے اب نہیں رہا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بشمول حزب اختلاف کے اس ایشو پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو کرتی ہیں مگر عمل اقدامات ان کی جانب سے بھی نظر نہیں آتے۔ کشمیری یہ نہیں چاہتے کہ آپ بھارت سے جنگ لڑیں۔ آپ کم از کم ان کی آوازتو بنیں۔ اقوام عالم کو بتائیں تو سہی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست کشمیر میں کس طرح انسانی حقوق کو پامال کررہی ہے۔ نہتے کشمیریوں کو شہید اور عورتوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ دفتر خارجہ نے معاملے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم راقم کے مطابق دونوں ہی غیر فعال اور بے اثر ہیں۔ اقوام متحدہ کشمیرمیں استصواب رائے سے متعلق دو قراردادیں منطور کرواچکا ہے تاہم آج تک ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جہاں تک اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا تعلق ہے تو یہ ایک غیر فعال قسم کی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم کسی بھی ایشو پرآج تک کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکی۔

کشمیری پاکستانیوں سے ذیادہ پاکستانی ہیں۔ بھارتی تسلط میں ہونے کے باوجود وہ تہوار پاکستان کے ساتھ ہی مناتے ہیں چاہے وہ عید ہو یا شب برات یا پھر پاکستان کی آذادی کا دن۔ خوف اور لالچ کے تمام ہتھکنڈوں کشمیری عوام نے پاکستان سے محبت نہیں چھوڑی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ کفر کی مبنی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے نظام کوبالآخر ختم ہونا ہے۔ کشمیر کی آذادی تو نوشتہ دیوار ہے اب فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے کہ آذادی کی اس تحریک میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں کشمیری بھائیوں کا ساتھ دینا ہے یا پھر یوم الحاق کشمیر ہی منا کر دامن چھڑانا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے