"فحاشی” کی تعریف؟؟؟

1۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک ہی فعل کے متعلق لوگوں کی راے مختلف ہوسکتی ہے کہ یہ فحاشی کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ؛ لیکن اس طرح کا اختلاف تقریباً ہر قانونی تصور کے متعلق ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر "دہشت گردی” کو ہی لیجیے ۔ اس کی تعریف پر کتنا شدید اختلاف ہے لیکن کیا اس اختلاف نےدہشت گردی کی تعریف سے روک دیا ہے ؟

2۔ ہر قانونی نظام چند اقدار پر قائم ہوتا ہے اور ہر قانونی نظام نے ان اقدار کے درمیان ترجیحات کا تعین بھی کیا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات دو نظام ہاے قوانین میں اقدار پر اختلاف ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات اقدار کے بجاے ان اقدار کی ترجیحات پر ہی اختلاف ہوتا ہے ۔ چناں چہ جس قانونی نظام میں بنیادی اور اولین قدر کی حیثیت "آزادی "کو حاصل ہوگی ، اس میں "مساوات” کی قدر ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور عدم مساوات کو آزادی کے لازمی تقاضے کے طور پر قبول کیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس جس قانونی نظام میں بنیادی قدر کی حیثیت مساوات کو حاصل ہوگی اس میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے آزادیوں پر قدغن لگانے کو جائز تصور کیا جائے گا۔

3۔ اسی اصول پر فحاشی کی تعریف میں اختلاف کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔ ایک تصویر ایک ایسے قانونی نظام میں ، جس میں آزادی کو بنیادی قدر مانا جاتا ہے ، اظہار راے کی ایک شکل قرار پا کر آرٹ کا درجہ حاصل کرلیتی ہے لیکن وہی تصویر کسی اور قانونی نظام میں ، جس میں "عفت” کو زیادہ اہمیت حاصل ہو، بے حیائی قرار دی جائے گی ۔

4۔ اس لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارا قانونی نظام کن اقدار پر قائم ہے اور ان اقدار میں ترجیحات کا پیمانہ کیا ہے ؟

5۔ ایک اور اہم پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ ہر قانونی تصور کی طرح فحاشی کے تصور کے بھی دو حصے ہیں : ایک اس کی مرکزی حقیقت (core)اور دوسرا اس کی ذیلی تفاصیل (penumbra)۔ مشہور قانونی فلسفی ایچ ایل اے ہارٹ نے کافی تفصیل سے واضح کیا ہے کہ ہر قانونی ضابطہ ، یہاں تک کہ وہ ضابطہ بھی جو پہلی نظر میں بالکل قطعی الدلالہ معلوم ہوتا ہے ، اپنی تفاصیل میں ظنیت پر مبنی ہوتا ہے :
Yet all rules have a penumbra of uncertainty where the judge must choose between alternatives.
اس لیے دیگر ضوابط کی طرح فحاشی کی تعریف کے مسئلے میں بھی توجہ core پر ہونی چاہیے ، نہ کہ penumbra پر۔ ایک دفعہ core متعین ہوجائے تو پھر penumbra کے تعین میں جج صاحبان قانون کے قواعدِ عامہ سے مدد لے سکتے ہیں ۔ فقہاے کرام نے بھی قرار دیا ہے کہ حکم کی بنا پر علت پر ہوتی ہے اور علت ایسی صفت ہوتی ہے جو آشکارا بھی ہو اور معروضی بھی (وصف ظاھر منضبط)۔

6۔فحاشی کے core کے تعین میں بنیادی مدد "سترِ عورت” کے تصور سے لی جاسکتی ہے ۔ "عورت "اسلامی قانون کی اصطلاح میں انسانی بدن کے اس حصے کو کہتے ہیں جس کا دوسرے انسانوں سے چھپانا لازمی ہو ۔ اب یہاں ایک تو اسلامی قانون مرد اور عورت میں فرق کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر مرد کے بدن میں ناف سے اوپر کا حصہ چھپانا لازمی نہیں ہے لیکن عورت کے لیے حکم مختلف ہے ۔ دوسرے ، اسلامی قانون اس لحاظ سے بھی فرق کرتا ہے کہ "کس سے چھپانا لازمی ہے ؟” چناں چہ امام محمد بن الحسن الشیبانی اس مسئلے کو چار حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں : مرد کا مرد کو دیکھنا ؛ مرد کا عورت کو دیکھنا ؛ عورت کا مرد کو دیکھنا ؛ اور عورت کا عورت کو دیکھنا ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی کچھ ذیلی قسمیں بھی وہ بیان کرتے ہیں ۔ مثلاً مرد جس عورت کو دیکھ رہا ہے وہ اس کی منکوحہ ہے ، یا اس سے نکاح حرام ہے ، یا اس سے نکاح جائز ہے لیکن ابھی اس نے اس سے نکاح نہیں کیا ۔ اسی طرح عورت کے مرد کو دیکھنے میں بھی ان امور کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے ایک ہی فعل ایک حالت میں فحاشی کہلائے گا اور دوسری حالت میں وہ فحاشی کی تعریف سے باہر سمجھا جائے گا۔

7۔ بعض اوقات بظاہر سترِ عورت کے ضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود کوئی فعل فحاشی کے زمرے میں آسکتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں ایسے لباس سے منع کیا گیا ہے جو ستر پوشی کے بجاے بدن کے چھپائے جانے والے حصے کو آشکارا کرنے کے کام آتا ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں انھی اصولوں کا اطلاق ہوگا جو قانون کے لفظ کی پابندی کرتے ہوئے قانون کی روح پامال کرنے کے دیگر معاملات میں لاگو ہوتے ہیں ۔

8۔ اسی طرح بعض حالات میں سترِ عورت کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن فعل کو فحاشی نہیں کہا جائے گا ، جیسے ڈاکٹر کو بدن کا وہ حصہ دکھانا جسے عام حالات میں چھپانا لازمی ہوتا ہے ، یا جیسے کہیں زلزلہ آجائے اور لوگ ہنگامی حالت میں گھر سے نکل پڑیں ۔ اس ضمن میں تین باتیں یاد رکھنے کی ہیں : ایک یہ کہ شریعت نے اقدار کے درمیان ترجیحات جس طرح مقرر کی ہیں ان کی رو سے جان بچانے کی باری پہلے آتی ہے اور ستر پوشی کی بعد میں ؛ دوسری بات یہ ہے کہ یہ اضطرار کی حالت ہے اور اضطرار کی حالت میں بعض ایسے افعال کے ارتکاب کی اجازت مل جاتی ہے جو عام حالات میں ممنوع ہوتے ہیں ، بلکہ بعض اوقات اضطرار کی حالت میں یہ ممنوع کام واجب بھی ہوجاتے ہیں ؛ تیسری بات یہ ہے کہ اضطرار کی حالت رفع ہوتے ہی اصل حکم واپس بحال ہوجاتا ہے اور اضطرار کی حالت کو بنیاد بنا کر اس فعل کو مستقل جواز نہیں دیا جاسکتا ۔

9۔ ستر عورت کے مسئلے میں اگر فقہاے کرام کے ہاں بعض مقامات پر اختلاف پائے جاتے ہیں تو ایسے ہی اختلافات دیگر کئی امور میں بھی پائے جاتے ہیں جن میں ریاست نے قانون سازی کی ہے یا عدالتوں نے فیصلے سنائے ہیں ۔ ریاستی قانون یا عدالتی فیصلے میں جب کسی خاص فقہی راے کو لیا جاتا ہے تو خواہ اہم اس پر تنقید کرکے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں ، جب تک وہ قانون یا عدالتی فیصلہ نافذ رہتا ہے، اسی فقہی راے کو قانون کی حیثیت حاصل رہتی ہے ۔ یہی طریقِ کار فحاشی کی تعریف کے معاملے میں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔

10 ۔ ان core مسائل کے بعد جہاں تک penumbra میں آنے والے بہت سارے معاملات کا تعلق ہے ، ان کے لیے حکم کا تعین جج صاحبان پر چھوڑ دینا چاہیے ۔البتہ یہ واضح رہے کہ جو معاملات penumbra میں آتے ہیں ان کے لیے جج صاحبان حکم discretion سے نہیں بلکہ قانون کے قواعدِ عامہ (general principles of law)کے ذریعے متعین کریں گے ۔ اس کی دو وجوہات ہیں : ایک یہ کہ discretion کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جج ان معاملات میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہے ، حال آں کہ ایسا نہیں ہے ؛ اور دوسری یہ کہ discretion کا مطلب یہ ہوگا کہ ان معاملات میں کوئی حکم نہیں ہے جب تک جج حکم کا تعین نہ کرے اور ہوں پہلی دفعہ حکم متعین کرنے کی وجہ سے جج قانون ساز (lawmaker) بن جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر جج قانون کے قواعدِ عامہ کی رو سے حکم کا تعین کرتا ہے تو ایک تو اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور قانون کے غلط یا جانب دارانہ استعمال کا راستہ رک جاتا ہے اور دوسرے ، جو زیادہ اہم ہے ، وہ حکم وضع نہیں کرتا بلکہ وہ حکم جو پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے اسے جج دریافت کرلیتا ہے ۔

تلک عشرۃ کاملۃ !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے