‘کشمیر،ہندوستان سے متعلق ‘خارجہ پالیسی جی ایچ کیو میں بنتی ہے‘

[pullquote]اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن پیدا کرنے اور حساس معاملات پر حکومت کو آزادانہ طور پر خارجہ پالیسی وضع کرنے کے لیے بااختیار بنانے کے لیے نئی گائیڈ لائنز تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔[/pullquote]

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی زیر صدارت سینیٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں ملک کی خارجہ پالیسی کے مختلف پہلوؤں اور پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ موجودہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کشمیر، ہندوستان، افغانستان اور جوہری اثاثوں سے متعلق خارجہ پالیسی، دفتر خارجہ کے بجائے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں تشکیل دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو اس وقت تک صحیح سمت نہیں دی جاسکتی جب تک سول ۔ ملٹری قیادت کی طرف سے، ملک کے موجودہ حالات کے مطابق اس حوالے سے تعاون نہیں کیا جاتا۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ان دنوں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ٹوئٹر پر ٹوئٹس، ملک کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں خارجہ پالیسی پر ٹوئٹس نہیں کرنی چاہیئں لیکن بدقسمتی سے وہ ایسا کر رہے ہیں۔

[pullquote]انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل آئی ایس پی آر کی ایک ٹوئٹ کی وجہ سے ایرانی صدر حسن روحانی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
[/pullquote]

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی اس وقت تک مسائل کا شکار رہے گی جب تک بااثر بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی اور اس کے لیے سول حکومت کو حساس معاملات میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی موجودی پالیسیوں کے باعث دنیا میں تنہا ہوتا جارہا ہے۔

[pullquote]’فارن آفس یا پوسٹ آفس‘
[/pullquote]

امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر سینیٹر شیری رحمان کا اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ دفتر خارجہ اس وقت پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہا ہے اور پالیسیاں کہیں اور تشکیل دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب امریکا، سول حکومت کے بجائے سیدھا جی ایچ کیو سے بات کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے